نوٹ :جموں و کشمیر عوامی مجلس عمل کے بانی سربراہ شہید ملت میر واعظ کشمیر مولوی محمد فاروق نے ستمبر 1973کو جو اہم اور تاریخ ساز انٹرویو اہم علمی جریدہ ماہنامہ’’ شبستان‘‘ دلی کو دیا تھا ، قند مکرر کے طور اس کی تلخیص نذر ِ قارئین ہے ۔ ( ادارہ )
میر واعظ مولانا محمد فاروق نے مجھے بتایا: 1965 ء کی ہند پاک جنگ کے دوران مجھے گرفتار کرلیا گیا اور دو سال دس مہینے دس دن تک بغیر مقدمہ چلائے قید تنہائی میں رکھا گیا۔جیل میں مجھ پر طرح طرح کے مظالم مسلسل ڈھائے گئے، کئی راتوں تک مجھے سونے بھی نہیں دیا گیا ۔ برف کی سیلوں پر بٹھایا گیا ۔ بجلی کے پانچ پانچ سو واٹ بلبوں کی تیز روشنی آنکھوں پر ڈالی گئی ۔جان سے مارڈالنے کی بھی دھمکی دی گئی، مسلسل ظلم کے بعد جب میری حالت قابل رحم ہوگئی تو نیم مرد ہ حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا اور آخر 20دسمبر 1967 ء کو مجھے رہا کیا گیا ، اور جیل سے باہر آتے ہی میں نے حق خودارادیت کا اعلان ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ کیا۔ یہ دس اکتوبر 1965 ء کی رات تھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لڑائی کے دنوں میں سرینگر شہر میں رات کا جو کرفیو نافذ کیاگیا تھاو ہ جنگ بندی کے بعد بھی بدستور جاری تھا۔ کرفیو کی بھیانک خاموشی اور اندھیرے میں مسلح پولیس نے میر واعظ منزل کو گھیر لیا اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو گرفتار کرکے صبح ہونے سے قبل کشمیر سے نکال کر بانہال کے اس پار پہنچادیا ۔ میری گرفتاری کے بعد سرینگر کے عوام پر بھی حکومت کا غیض و غضب ٹوٹا۔ شہر میں تین دن اور تین رات کا ایسا مسلسل کرفیو لگادیا جس کی مثال کشمیر کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ 72 گھنٹے کے اس ہولناک کرفیو کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جامع مسجد اور خانقاہِ معلی اور شہر کی دیگر مساجد میں اس عرصہ میں کوئی شخص اذان دینے کے لئے بھی نہیں جاسکا۔ عبادت گاہیں صدائے اللہ اکبر سے محروم رہیں، کرفیو کے دوران مسلح پولیس نے جگہ جگہ اندھا دھند گولیاں چلا کر طلباء اور معصوم بچے تک شہید کر ڈالے۔ عوامی مجلس عمل کے سینکڑوں عہدیدار اور کارکن گرفتار کرکے جیلوں میں بھر دئے اور کشمیر میں تشدد اور پکڑدھکڑ کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جو تب سے اب تک جاری ہے ۔ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ مجلس عمل مسئلہ الحاق کشمیر کو اس ریاست کے عوام کی تمنائوں اور رضامندی اور ان کی آزادانہ رائے شماری کے مطابق عمل کرنے اور اصول حق خودارادیت کا علم بلند رکھنے کو اپنا موقف بنا چکی ہے، اور آج تک اس سے سرموبھی نہیں ہٹی ۔ دس اکتوبر کا دن چونکہ ایک اہم موڑ کا ایک درجہ حاصل کرچکا ہے، اس لئے ہر سال مجلس عمل اس تقریب کو یوم تحریک حریت اور یوم تجدید عہد قربانی کے طور مناتی ہے۔
سرینگر سے کرفیو کے اندھیرے میں مجھے راتوںرات وادی سے باہر بانہال لے گئے اور وہاں سے جموں جیل نومبر میں مجھے جموں چھاونی کے ایک پوشیدہ زیر زمین تہہ خانے میںلے گئے جہاں دن کی روشنی میں بھی اندھیرے کا راج تھا، جہاں سورج کی کرنوں کو بھی قیدیوں سے ملنے کی اجازت نہیں تھی ، جہاں 24 گھنٹے اتنا مہیب اور بھیانک اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہیں دیتا تھا ۔ جموں جیل سے چلتے وقت مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ لوگ مجھے سپیشل جیل میں لے جارہے ہیں جو اس جیل سے بہت بہتر قسم کا جیل ہے روانگی سے قبل میری ماں کے نام چھٹی لکھوائی کہ میں بالکل خیریت سے ہوں ، دوستوں کو خیریت کے تاردلوائے مگر اس کے بعد میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ، جیپ میں بٹھا کر وہ جموں شہر سے باہر لے آئے یہاں سپاہیوں کی بجائے چند فوجی اس جیپ میں سوار ہو گئے۔ ان فوجیوں نے آتے ہی میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔ میں حیران رہ گیا کہ مجھے سپیشل جیل میں لے جانے کا وعدہ کرکے دھوکہ دیا گیا ہے۔ فریب دیا گیاہے میں اس غیر متوقع بات سے اتنا پریشان تھا کہ یہ احساس بھی نہیں رہا کہ جس جیپ میں بیٹھا ہوں وہ چل رہی ہے یا کھڑی ہوئی ہے۔ اندھیرے تہہ خانہ میں آنے کے بعد میری آنکھوں سے پٹی اُتاردی گئی ۔ چاروں طرف اندھیرے کے سوا کچھ نہ تھا ، دس منٹ بعد ایک فوجی نے کہا ’آپ گھبرائیں نہیں‘ آپ کو یہاں تفتیش کے لئے لائے ہیں۔ جو پوچھا جائے اس کا جواب دیں رات بھر سو نہیں سکا، ویسے بھی اس تنگ و تاریک کمر ے میں نہ جار پائی نہ بستر رات چکر لگائے گزرگئی کمرے کے باہر مسلح سپاہی کی جگہ دوسرا سپاہی آیا تب احساس ہوا کہ صبح ہوگئی ہے کیوں کہ اس اسپیشل جیل میں پہنچنے پر میری گھڑی او رکپرے سب لے لئے گئے تھے ۔ کچھ دیر بعد مجھے ایک الگ کمرہ میں لے جایا گیا ۔ بیٹھنے کے لئے سٹول دیا گیا۔ جس کے چاروں طرف چار کرسیاں رکھی تھیں جن پر چار آدمی آکر بیٹھ گئے۔ انہوںنے میرا نام میرے باپ کا نام ، بھائیوں کی تعداد ، ان کے نام ، میری تعلیم کے بارے میں سولات کئے ۔ یہ سارے سوالات بالکل نجی تھے ۔ سیاسی سوال کوئی بھی نہیں کیا گیا۔ بہت دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا ، وہ چلے گئے تو ان کی جگہ جو چار نئے افراد آئے تھے انہوں نے بھی وہی سوالات دہرائے ان کے چلے جانے کے بعد چار اور نئے افراد آئے اس نئی ٹولی نے بھی وہی سوالات کئے جو مجھ سے برابر پوچھے جارہے تھے۔ وہ لوگ جب تھک جاتے تھے تو نئی اور تازہ دم ٹولی آجاتی تھی ۔ یعنی انہوں نے اپنے لئے آرام کا وقت نکالا مگر مجھے آرام کا ایک لمحہ بھی نہیں دیا گیا ۔ یہ سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا، ان 7 دنوں میں مجھے ایک دن ، ایک گھنٹہ کیا ایک لمحہ کے لئے سونے نہیں دیا گیا میری آنکھیں نیند سے بند ہوجاتیں تووہ ٹھنڈے پانی کی بالٹیاں میرے اُوپر اُلٹ دیاکرتے تھے ۔ نومبر کا مہینہ اور برف کا پانی یہ تھا سپیشل جیل ۔ آخر جب نیند کے غلبہ سے چور ہو کر مجھے اپنی سدُھ بُدھ نہیں رہی تو انہوں نے سیاسی سوالات داغے مجھ سے پوچھا گیا ’’ پاکستان سے جو مجاہد آئے تھے انہیں کہا رکھا تھا ۔ پاکستان سے کیا ساز باز کی ہے ۔ میں نے نیم بے ہوشی میں جواب دیا کہ وہ چڑیاں نہیں تھیں کہ آسمان سے آگئیں جب آپ کو پتہ نہیں تو مجھے کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ پاکستان کے مجاہد کہاں چھپے رہے۔ مجھے سے کہا گیا تم ان کو گلمرگ بلانے گئے تم نے ان کو حملہ کی دعوت دی ۔میں ان کے بے ہودہ اور غلط قسم کے الزامات کی تردید کرتے کرتے گرپڑتا تھا تو وہ پانچ پانچ سو واٹ کے بلب میری طرف کرتے تھے مجھے برف کی سلوں پر لٹاتے تھے۔ یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا ، ظلم بڑھتا رہا کھانے کے لئے خوراک بھی بہت ناقص دی جاتی تھی ویسے چند روز بعد خوراک کی ضرورت کسے پڑتی تھی ، احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ کھایا بھی ہے یا نہیں۔چند روز بعد میں نے آنکھ کھولی تو خود کو ہسپتال میں پایا ، کچھ پتہ نہیں تھا کہ اتنے روز میرے ساتھ کیاسلوک ہوا۔ ا س دوران میرے بھائی اور چچانے مرکزی حکومت کو تاردیئے ، کشمیر گورنمنٹ کو تار دیئے ، احتجاج کیا تویہ جواب آیا کہ مولوی فاروق کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ مگر ہستپال سے یہ خبر کسی طرح باہر کی دنیا میں پہنچ گئی کہ مجھے اس قدر اذیتیں پہنچائی گئی ہیں کہ میں نیم مردہ ہوگیا ہوں۔ لوگ ہسپتال کی طرف دوڑے مگر کسی کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔پھانِسی پانے والے مجرم کے رشتہ دار بھی کم از کم پندرہ دن میںایک بارمل سکتے ہیں مگر میرے کسی رشتہ دار کو کسی ہمددرکو ملنے نہیں دیا گیا۔ وہ اس لئے کہ جموں جیل کے رجسٹر میں ابھی تک مجھے وہاں ہی مقید دکھایا جارہا تھا، وہ یہ بتانا نہیں چاہتے تھے کہ میری حالت اتنی ناگفتہ بہہ کردی گئی ہے کہ مجھے ہسپتال میں لے جایا گیاہے۔ آخردو ماہ بعد میرے بھائی کو اجازت ملی کہ وہ بس دور سے ہی مجھ سے ملیں ۔ اس وقت دو بندوقچی میرے دائیں بائیں کھڑے ہوئے تھے اور ایک افسر قریب بیٹھا تھا ۔ اس نے مجھے تنبیہ کی کہ اگر میںنے زبان پر ایک بھی حرف شکایت لایا تو مجھے سخت اذیتیں دی جائیں گی ۔مجھے ان اذیتوں کی پرواہ نہیں تھی مگر دوماہ کے علاج کے باوجود میرے ہوش وحواس گم تھے۔ میری زبان سے بار بار یہی نکلتا تھا کہ میر ا نام محمد فاروق ہے میرے والد کا نام مولوی محمد امین ہے ۔ میرے بھائی کو جو پہلے سے دل کے مریض تھے اس بات سے اس قدر صدمہ پہنچا کہ کچھ دن بعد ان کا ہارٹ فیل ہوگیا۔ ہسپتال سے مجھے پھر ایک الگ کمرہ میں قید تنہائی ملی، آخر ایک ہندوستان ٹائمز کے مسٹر بھاٹیہ مرکزی حکومت سے اجازت لے کر مجھ سے ملنے آئے مجھے افسروں نے ہدایت کی کہ میں نے ظلم و زیادتی کے بارے میں کوئی بات کی تو اس کا انجام بہت برُا ہوگا۔ مسٹر بھاٹیہ نے مجھ سے ہندوستان ، پاکستان اور کشمیر کے بارے میںسوالات کئے ۔ وہ اگر زیادتیوں کے بارے میں پوچھتے تو میں سب کچھ بتادیتا مگر از خود اظہار سے یہ سمجھا جاتا کہ میں اس کی پبلسٹی چاہتا ہوں اس لئے میں نے اس سلسلہ میں کچھ نہیں کہامگر خود مسٹر بھاٹیہ کو ظلم و زیادتی کی اطلاعات مل چکی تھیں ، انہوں نے اپنے اخبار میں ان کا ہلکا سا تذکرہ کیا۔ اس کمرہ سے مجھے سنڑل جیل جموں میں لے جایا گیا اور پھر وہاں سے کدکی سب جیل میں رکھا گیا۔ قید تنہائی میں مجھے یہاں ایک سال مجھے رکھا گیا۔ اس دوران میں حکومت کی طرف سے وقتاًفوقتاً میری خوراک اور علاج معالجہ کے بارے میں لمبے چوڑے اعلانات ہوتے رہے جو سب لغو اور بکواس تھے ۔ اب بھی میری صحت جو خرا ب ہے یہ اسی وجہ سے ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی ۔ اسی نے ہمت اور حوصلہ دیا۔ مجھے بہت ڈر تھا کہ میں بہک نہ جائوں ، اپنے موقف سے ہٹ نہ جائوں ، ظالموں نے ظلم کے سب ہتھکنڈے آزمائے۔ اب میں عزم اور استقلال کی چٹان ہوں اور اس سے بھی سخت مصیبت کے لئے تیار ہوچکا ہوں۔ویسے جب میرے ساتھ یہ ظلم روا رکھا گیا تو سوچئے میرے عوام کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔۔۔جموں و کشمیر عوامی مجلس عمل 1964 ء میں وجود میں آئی ۔ یہ ایک ہمہ گیر جماعت ہے جو مذہب و سیاست میں تفریق نہیں کرتی ہے ۔اس جماعت کا اولین مقصد کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق دلوانا ہے ۔ کشمیر کا الحاق ابھی تک تصفیہ طلب مسئلہ ہے، اس مسئلہ کو حل ہونا چاہئے ۔ کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ وہی اس کے واحد مالک اور وارث ہیںاس مسلہ پر کشمیریوںسے رائے لی جانی چاہئے ۔ عوامی مجلس عمل حق خود ارادیت اور استصواب رائے کے حق پر زور دیتی ہے ۔ دُنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتی ہے۔ ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تین پارٹیوں کے درمیان ہے ۔ پاکستان ہندوستان اور کشمیر ۔ یہ تینوں مل کر ہی اس مسئلہ کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔۔۔
تقسیم کے وقت تمام دیسی ریاستون کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق کرنے کا حق دیا گیا تھا ۔ بدقسمتی سے کشمیر کا معاملہ ہنگاموں میں الجھ کر رہ گیا۔ آنجہانی مہاراجہ ہری سنگھ جو کشمیر میں جاگیر شاہی دور کے آخری اختیار حکمران تھے ریاستی عوام کی تمنائوں آرزوں اور خواہشات کو جانے بغیر رائے عامہ کے بالکل بر خلاف نیشنل کانفرنس کی تائید کا سہارا لے کر ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر بیٹھے ۔ حالانکہ اس سے پہلے پاکستان کے ساتھ مہاراجہ نے سٹینڈ سٹل (STANDSTILL) ایگریمنٹ بھی کیا تھا اور ریاست کے ڈاک خانوں پر پاکستانی آفیسرز کو مامور کیا اور انہیں پاکستانی پرچم لہرانے کی اجازت بھی دی تھی لیکن اپنے طور چونکہ وہ مستقل آزاد اسٹیٹ کا بادشاہ بن جانے کے خواب دیکھ رہے تھے، اس لئے الحاق کے مسئلہ کو ٹالتے رہے اور جب دیکھا کہ ان کا خواب پورا ہونے کی کوئی صورت نہیں تو رائے عامہ کو پامال کرکے پوری ریاست کو مصیبت میں گرفتار کرگئے ۔ تب سے آج تک کشمیر کے سوال پر جنگیں لڑی گئیں ۔ یہ سوال جہاں پہلے کھڑا تھا، وہیں آج بھی کھڑا ہے ۔ پنڈت نہرو نے پارلیمنٹ میں وعدہ کیا تھا کہ جو نہی کشمیر میںحالات ٹھیک ہوں گے کشمیریوں کو موقع دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں یہ وعدہ کشمیر یوں سے نہیںبلکہ دنیا سے کررہا ہوں۔ اگر کشمیری پاکستان کے ساتھ جانا چاہیں گے تو ان کو فوج کے ذریعے دباکر نہیں رکھا جائے گا، ان کا احترام کیاجائے گا اگرچہ اس سے ہمیں تکلیف پہنچے گی۔یہ پنڈت جی کے الفاظ تھے۔ سب سے پہلے منظم جماعت جو یہاں 1931 ء میں قائم ہوئی و ہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس تھی، ہماری مجلس عمل اسی جماعت کی وارث اور جانشین ہے۔۔۔
ہمارا خاندان صدیوں سے عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کشمیر کے سابق مہاراجہ اس خاندان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اس خاندان کی حکومت لوگوں کے دلوں پر ہے ۔جب کہ ہم ڈنڈے کے زورسے حکومت کرتے ہیں۔ باقاعدہ عملی سیاست میں دسمبر 1963 ء میں آیا جب حضرت بل سے موئے مبارک چوری ہوا ۔اس وقت میری عمر صرف 19 برس تھی ۔۔۔اس وقت میںخود کو ایک بڑی جیل میںپاتا ہوں ۔میرا ٹیلی فون ٹیپ کیا جاتا ہے ۔ ڈاک سنسر ہوتی ہے ۔آپ یہاں تشریف لائے ہیں اس کا بھی محکمہ سراغ رسانی کے ڈائریکٹر کو علم ہے ۔ مختلف طریقوں سے ہرا ساں کیاجاتا ہے ، حکومت ہمارے کارکنوں کو توڑنے پر لگی ہوئی ہے۔اس وقت کشمیر میں 30 ہزار سے بھی زیادہ لوگ محکمہ سراغ رسانی میں ہیں وہ قومی کردارکو ختم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ غرض ہر طرح سے حق کی آواز کو کچلنے کی کوششیں جاری ہیںمگر ہم مایوس نہیں ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ایک دن ہم ضرور کامیاب ہوکر رہیں گے۔
مرسلہ:عومی مجلس عمل جموں و کشمیر