یہ بات سال ۱۹۵۳ء کے زمانے کی ہے، جب بھارت کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جی نے عرصہ دراز سے رچائی جا رہی کشمیری عوام مخالف سازشوں پر عمل آوری کی شروعات کی تھیں اور بخشی غلام محمد صاحب کو اپنا دُم چھلا بنا تے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کا وزیراعظم کردیا تھا۔ اس کے کچھ دیر بعد بوجوہ یہ طنزیہ جملہ بازی بھی کی گئی : ’’کشمیر کے چالیس لاکھ آبادی شیخ صاحب کے ساتھ ، چالیس لاکھ ہی بخشی صاحب کے ساتھ ‘‘۔ پھر اسی طنز یہ جملہ بازی کے لبادے میں صادق جی نے بھی اپنے وقت پر پناہ لی اور میر قاسم بھی اس سے دور نہ رہے ۔ آگے چل کر کتنے ہی گورنر صاحبان نے اسی نعرے کے چھائوں تلے یہاں آرام فرمایا اور باقی صاحبان بھی چالیس لاکھ کا یہی طنزیہ جملہ دہرانے کی مشق میںشاداں وفرحاں رہے۔ یہ نہرو سرکار کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی اور اسی مفروضہ کو ثابت کرنے کے لئے سوئویت یونین کے بلگانن اور خروسچیف کو بھی بلوانا پڑا تھا ۔ چنانچہ کشمیر میں کچھ لیڈر صاحبان نے بھی اس کو مفروضے کے طور جہاں اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں کے حساب سے استعمال میں لایا، وہیں دوسری طرف کچھ منافقین نے اس مفروضہ کو کشمیری ثقافت کے ساتھ بھی خلط ملط کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ اب اس سیاسی تکڈم بازی کا تند وتلخ نتیجہ بھی واضح طور ہمارے سامنے ہے کہ ہم کشمیری عوام اکثریت میں کسی کے ساتھ نہیں رہے ہیں۔ ظلم و جبر کو سہتے سہتے ہم من حیثت القوم ضرور دلی مخالف ہوگئے ہیں، لیکن تضاد کی انتہا بھی ملاحظہ فرمایئے کہ بھارت حامی سیاسی جماعتوں کا دامن چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لئے سیاسی بے بصیرتی کے اندھیرے میں گھر جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ہم لوگ اپنے بچے کھچے سیاسی حقوق واختیارات کا تحفظ کرنے کے لئے ایک ہی پارٹی کو قومی جذبات واحساسات کی ترجمانی کرنے کا حق دار نہیں مانتے ۔ پہلے جب یہاں کے کچھ لوگوں نے بر سر اقتدار کانگریس کی ٹوپی پہن لی تھی تو عوام کے سامنے بی جے پی کو ایک ڈراؤنے بھوت کی شکل میں پیش کیا کرتے تھے۔ اب اقتدار کے متلاشی وہی منجھے ہوئے سوداگر بی جے پی کے دورِ اقتدار میں اُسی ڈراؤنے بھوت کو پکڑ پکڑ کر بھولے بھالے لوگوں کے کندھوں پر بٹھاتے پھرتے ہیں۔ یہ سیاسی سوداگر کافی بازی گرانہ تحربہ رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کشمیر کی سیاست میں جمہوریت نہیں، مرکزی حکومت کی بالادستی چلتی ہے اور یہ کہ ووٹ کی رکھوالی کرنے اور حکومت بنانے جیسے معاملات میں مدعی بھی اور جج بھی مرکزی حکومت ہی ہوتی ہے ۔ ۲۰۱۴ء اسمبلی انتخابات میں وادیٔ کشمیر سے سب سے زائد نشستیں حاصل ہوجانے پر پی ڈی پی کے موسس وقائد مفتی محمد سعید بھی اسی خیال وجنوں کی آبیاری کرنے پر ڈٹ گئے تھے اور مرکز میں فرمانرواں بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا ۔ کوئی ساڑھے تین سال بعد ہی بی جے پی نے اپنے آبائی رنگ میں ظاہر ہوکر پی ڈی پی کو سر راہ چھوڑ دیا اور وزیر اعلیٰ محبوبہ جی کو’’ ٹافی اور کیک‘‘ کی دنیا سے باہر کرکے پھر سے ۲۰۱۰ء کی دنیا میں پھینک دیا۔ ابھی بی جے پی کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون کا ستارہ گردش میں آگیا ہے۔ یہ بھی اُمید کی جاسکتی ہے کہ سجاد ۱۹۸۷ء کے الیکشن فراڈ کی تحقیق کرانے کا شور مچانے کے بجائے ریاست کی ساری الیکشن کہانی کا پوسٹ مارٹم کرائیں گے تاکہ خالص جماعت اسلامی کے بجائے تمام تر ریاست کی آبادی کو انصاف دلانے کی راہ نکل سکے۔ سجاد لون کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کو واردِ ریاست جموں کشمیر کرنے کے مرتکب سابق حکمرانوں کے خلاف بھی مقدمہ دائر عدالت کرانا ہوگا کیونکہ اُنہی حکمرانوں نے مرکزی الیکشن کمیشن کو واردِ ریاست کرتے وقت یقین دلایا تھا کہ جموں کشمیر سٹیٹ الیکشن اتھارٹی نے کبھی بھی منصفانہ انتخابات نہیں ہونے دئے تھے، جب کہ الیکشن اتھارٹی آف انڈیا نے اس ذمہ داری کو نبھانے میں اچھا خاصا نام کمایا تھا۔ حالانکہ راز کی بات یہ بھی ہے کہ بخشی اور صادق پر دفعہ ۳۷۰ ؍کو جس حد تک کمزور بنانے کی ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں، اُنہوں نے وہ سب ذمہ داریاں ریاست کی الیکشن اتھارٹی کی دیکھ ریکھ میں ہی پوری کر لی تھیں۔اب تو بدلائے گئے حالات میں یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ آگے کے الیکشن فراڈس کو روکنے کی تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن آف انڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ اس بات کو لے کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات فراڈ کوروکنے کیلئے کون سے اقدام کئے جانے تھے اور کس کی ذمہ داری تھی؟ سجاد غنی لون اقتدار میں آنے پر گر اس سوال کا جواب لے کر آتے ہیں، تو لون کے ماتھے پر وعدہ خلافی کا لگا داغ مٹ جانے کی اُمید پیدا ہوسکتی ہے لیکن سزا دلانے سے متعلق سجاد لون کا اشارہ کسی دوسری جانب ہے۔ حقیقت میں وہ یا تو فاروق عبداللہ پر نشانہ تانے ہوئے ہیں یا پھر راجیو گاندھی کی عدم موجودگی میں اُن کے فرزند راہل گاندھی کو سزا دینا چاہتا ہے،لیکن میدان سیاست میں افراد کو سزا دلانا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ سجاد لون کشمیری عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہو تو الیکشن کمیشن کا دامن پکڑ لے، جو ایک نہیں بلکہ درجنوں الیکشن فراڈوں کی اَن سنی کرنے کا مرتکب ہوسکتا ہے اور یہ کام پایۂ تکمیل تک لے جانے کے نتیجے میں کشمیری عوام کو در پیش بہت سارے مسائل کا آسان ترین حل بھی نکالنا ممکن بن سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اُسی زمانے میں اقتدار کی گلیوں کے پرستار عبدالغنی لون صاحب پر لگائے جارہے ۳۷۰ کی بقاء کے خلاف با مقصد، بے مقصد کے بیانات کی شنوائی کرنا بھی ممکن بن سکتا ہے ۔ مفتی سعید کے خلاف بھی درجنوں الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ یہ سب ناک کو سیدھے طور پکڑنے کا آسان ترین راستہ ہے اور قابل عمل بھی ہے۔
اسمبلی الیکشن ۱۹۸۷ء کی کہانی کے کئی اور بھی پہلو ہیں۔ ایک سابق ڈی آئی جی پولیس علی محمدوٹالی صاحب نے ۸۷ء کے اسمبلی الیکشن کو کسی دھاندلی کا حصہ ماننے سے انکار کیا ہے۔ وٹالی صاحب اُسی دور میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز رہے ہیں۔ حال ہی زیر طبع اپنی ایک کتاب کے حوالے سے جاری ویڈیو میں وٹالی صاحب نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ سجاد لون نے اپنے زیر بحث بیان میں ۸۷ء کے الیکشن کو خوامخواہ جماعت اسلامی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سب مسلم متحدہ محاذ میں شامل اُمیدوار تھے اور سبز لباس پہنے اور قلم دوات نشان کو ساتھ لئے میدان میں اُترے تھے۔ سید صلاح الدین اور اُس الیکشن سے جڑے کسی ایک بھی اُمیدوار نے بشمول محمد یاسین ملک خود اپنی زبان کھول کر الیکشن فراڈ کا الزام نہیں لگایا تھا۔ یہ سب مفروضہ مفتی سعید کا تیار کردہ تھا اور سبز لباس، قلم دوات نشان لے کر بعد ازاں سیاسی سطح پر کافی فائدہ بھی حاصل کیا تھا۔ مفتی سعید کی سیاست کو سمجھنے کیلئے ہمیں اپنی الیکشن تاریخ اور سابق گورنر بی کے نہرو کی خود نوشتہ حیات ’’ نائس گائی، فنش سکینڈ‘‘ کے چند صفحات کا مطالعہ کرنا ہوگا ۔ ۱۹۸۳ء کے اسمبلی الیکشن کی تیاریوں کے دوران ریاستی کانگریس کے پردھان مفتی سعید نے تب کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ریاست میں کانگریس اور این سی کی ملی جلی حکومت بنانے کیلئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر دبائو ڈالنے پر تیارکیا تھا لیکن فاروق عبداللہ نے ملاقات کے دوران اندرا گاندھی کی بات ماننے سے صاف انکار کردیا تھا۔ مفتی سعید نے پھر وقت کے میرواعظ مولانا مولوی محمد فاروق کو کانگریس کا طرف دار بنانے کی کوشش کی لیکن مولوی فاروق صاحب نے این سی کا ساتھ دینے کا اعلان کردیااور اس طرح سے ڈبل فاروق کا نعرہ معرض وجود میں آگیا تھا۔الیکشن منعقد ہوا اور جب نتیجہ سامنے آگیا تو این سی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ مفتی سعید خود بجبہاڑہ اور ہوم شالی بُگ کے دو حلقہ ہائے انتخاب سے اپنی ضمانت تک گنوا بیٹھے تھے۔ اسی الیکشن میں سید علی گیلانی بھی سوپور سے ہار گئے تھے۔ حالانکہ ۱۹۷۷ء کے اسمبلی انتخابات میں گیلانی صاحب کو اسی حلقے سے جیت ملی تھی۔ بہرحال مفتی سعید نے وزیراعلی فاروق عبداللہ کے خلاف اپنی زور آزمائی جاری رکھی اور بھارت کی وزیراعظم اندراجی کے کچھ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے گورنر بی کے نہرو کو این سی سرکار برخواست کرنے کی صلح دی۔ گورنر نے وزیراعظم کے روبرو ہوکر سوال کیا کہ عوام کے ووٹ سے قائم اور ریاست بھر میں امن و امان کی برقراری کے عالم میں سرکار کو گرانا کہاں تک جائز ہوگا؟ جب بی کے نہرو کی بات نہیں سنی گئی تو اُنہوں نے عہدے کو چھوڑنے یا ریاست سے تبدیل ہوجانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بی کے نہرو کی کتاب میں اس رام کہانی کا اسی انداز میں ذکر ہوا ہے۔مفتی سعید کی سفارش پر جگموہن کو دلی کے کسی شیش خانے سے پکڑ کر ریاست کا نیا گورنر بنایا گیا اور جگموہن نے اندرا اور مفتی کو دئے گئے اپنے وعدے کے مطابق ۲؍ جولائی ۱۹۸۴ء کو تمام تر قوانین و ضوابط اور سیاسی اخلاقیات توڑ کر فاروق سرکار کو برخواست کردیا۔ یوںاسی تاریخ کو کشمیری قوم کی بربادی کی نئی کہانی کا پہلا لفظ لکھا گیا تھا۔ فاروق عبداللہ تو بھارت حامی ہی بنے رہے، لیکن کشمیریت دشمن بھارتی جمہوریت کے خلاف یہاں کے عوام خاص طور سے نوجوان نسل کا دل دوسری اور آخری مرتبہ پوری طرح سے نااُمیدی اور مایوسی سے بھر گیا۔ تب پنجاب بھنڈرا والا کی قیادت میں ملی ٹنسی کا بول بالا ہورہا تھا اور مفتی کے اشاروں پر ہی فاروق سرکار پر سکھ ملی ٹنٹوں کی اعانت کرنے کا الزام دلی دربار سے عائد کیا جارہا تھا۔ ظاہر کہ جمہوریت سے دھوکہ زن کشمیری نوجواں پنجاب کے حالات کو پڑھتے پڑھتے اور سنتے سنتے بالغ ہورہے تھے۔ یہی وہ دن تھے جب جنرل ضیاء کے’’ آپریشن ٹوپیک ‘‘کے بال و پر بھی سجائے جارہے تھے اور ناراض کشمیری نوجوان ان پُر پیچ حالات سے بھی واقفیت حاصل کررہا تھا۔ نہیں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اِدھر الیکشن فراڈ کھیلا گیا اور اُدھر ناکام قرار اُمیدوار کی بندوق چل نکلی۔ جنرل ضیا اگست ۱۹۸۸ء میں جب ہوائی حادثہ کا شکار ہوئے تو اُسی روز سرینگر شہر کے کئی علاقوں میں بندوق کی گن گرج بھی سنائی دی تھی۔ پھر بھی ملی ٹنٹوں کی مٹھی بھر تعداد تھی لیکن ۱۹۹۰ء میں جگموہن کے پھر سے گورنر بنائے جانے کے ساتھ ہی اس غرض سے سرحدوںکو کھلا چھوڑا گیا تھا کہ کشمیری نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملی ٹنسی میں شامل ہوجائیں تاکہ یہاں ایک دوسرا ہی خونی کھیل بڑے چاؤ سے شروع کیا جائے۔ اس طرح سے وقت کی سرکار کو کشمیری عوام پر ظلم و ستم کرنے کا بہانہ ہاتھ لگ گیا تھا اور آج کی تاریخ میں یہی کھیل شد ومد سے جاری ہے ۔ سجاد لون صاحب اس کھیل تماشے کے پس منظر اور پیش منظر سے ضر ور واقف ہوں گے ۔ انہی نکات پر ایک منصفانہ انکوائری بٹھائی جانی چاہیے جو یہ حقائق بے حجاب کر نے کہ کشمیر میں ۸۷ء کی الیکشن دھاندلیوں کی اصل کہانی کیا ہے ۔