سرینگر // آج پوری دنیا میں گردوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ جموں کشمیر میںیہ دن اس وجہ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جموں کشمیر میں جتنے لوگ گردوں کی تکالیف میں مبتلا ہے وہ ملک میں سب سے زیادہ شرح قرار دی جارہی ہے۔جموں کشمیر میں ایک سروے کیا گیا جس میں یہاں کی 10فیصد آبادی کے گردوں میں پتھری پائی گئی اور قریب 70فیصد آبادی گردوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے شعبہ نفرولوجی میں ہر سال گردوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا 40ہزار مریضوں کا علاج و معالجہ کیا جاتا ہے جبکہ سال میں 40مریضوں کے گردوں کی پیوند کاری کی جاتی ہے۔ گذشتہ سال مارچ میں کورونا کی وجہ سے ملکی سطح پر بند کی گئی گردوں کی پیوندکاری کی وجہ سے سکمز کے کڈنی ٹرانسپلانٹ یونٹ میں بھی پیوند کاری روک دی گئی تھی۔ پیوندکاری نہ ہونے کی وجہ سے30مریض گردوں کی منتقلی کے منتظر ہیں جبکہ یکم مارچ سے کڈنی ٹرانسپلانٹ یونٹ دوبارہ شروع ہونے کے بعد ابتک 2مریضوں کی پیوندکاری کی گئی ہے۔ شعبہ نفرولوجی کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ہم ہر دن گردوں کے مختلف امراض میں مبتلا 700سے زائد مریضوں کا علاج و معالجہ کرتے ہیں جن میں 75فیصد پتھری اور انفیکشن کی بیماری سے متاثر ہوتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم سال میں اوسطاً 40ہزار ایسے مریضوں کا علاج و معالجہ کرتے ہیں جو مختلف بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں لیکن ان میں 4فیصد لوگوں کو کڈنی ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان میں چند ایک کو ہی ٹرانسپلانٹ میسر ہوتا ہے۔ڈاکٹر اشرف کہا’’ گذشتہ سال کورونا کی وجہ سے کشمیر میں کوئی کڈنی ٹرانسپلانٹ نہیں ہوا ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ 30مریض ابھی پیوندکاری کے منتظر ہیں جبکہ یکم مارچ 2022سے دومریضوں کے گردے تبدیل کئے گئے ہیں۔میڈیکل کالج سرینگر کی جانب سے جنوری 2021میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 12فیصد لوگ گردوں کے مختلف امراض میں مبتلا تھے جن میں 70سے 80فیصدمرد اور 47سے 60فیصد خواتین میں پتھری موجود پائی گئی۔جی ایم سی نے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے رکھنے والے 186مریضوں پر تحقیق کی۔ان میں 64فیصد مردوں اور 36فیصد خواتین کے گردوں میں پتھری پائی گئی ۔ان میں سے شہری علاقوں میں 17فیصد جبکہ دہی علاقوں کے64فیصد لوگ گردوں کی تکالیف میں مبتلا تھے۔جو لوگ گردوں کی بیماریوں میں مبتلا پائے گئے انکی عمر 14سے 76سے تھی۔مردوں کی عمر 29سے 76اور خواتین کی عمر 17سے 64تھی۔ تحقیق کے مطابق سرینگر میں 17 فیصد،اننت ناگ میں 16، بارہمولہ میں15، گاندربل میں13، پلوامہ میں 10، بڈگام اور کپوارہ میں 6،کولگام میں 5، بانڈی پورہ میں 4اور شوپیان میں 16فیصد مریضوں میں پتھری موجود پائی گئی ۔ صورہ میں کڈنی ٹرانسپلانٹ یونٹ اور شعبہ یورولاجی کے سربراہ ڈاکٹر محمد سلیم وانی نے بتایا ’’ گردوں کا عالمی دن ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد گردوں کی بیماری کے بارے میں جانکاری کی کمی اور اس کمی کو کم کرکے لوگوں اور متعلقہ حکام تک بیماری کی شدت کی جانکاری پہنچانا ہوتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر سلیم نے کہا کہ گردے جسم کا اہم اعضاء ہوتے ہیں جو جسم سے گندگی کو صاف کرتے ہیں اور یہ بلڈپریشر کو قابو میں رکھنے اور ہڈیوں کے صحت کیلئے کافی ضروری ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ گردے خراب ہونے کو ہی ہم Chronic Kidney Diseaseکہتے ہیں ‘‘۔ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ شوگر ، بلڈپریشر، گردوں کی پتھری، انفیکشن اور دیگرچیزیں گردوں کو خراب ہونے کی بڑی وجہ بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم نے بتایا ’’ پوری دنیا میں ہر 10افراد میں ایک شخص گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور جموں و کشمیر میں بھی صورتحال یہی ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’ سال 2040تک دنیا میں سالانہ ہونے والی اموات کی وجوہات میںگردوں کی بیماری کا پانچواں نمبر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شوگر اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے،نمک اور زیادہ پروٹین والی غذا سے اجتناب کرنے اور ورزش اور دیگر سرگرمیاں گردوں کی بیماریوں سے دور رکھ سکتی ہیں۔