آئین ہند کادفعہ 35A؍آج کل عدالت عظمیٰ کی میز پر میں لائے جانے کے سبب سرخیوں میں ہے۔عدالتی دائرے میں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اِس دفعہ کو قانون ساز اداروں میں کالعدم قرار دلوانے کی کوششوں میں آئینی مشکلات اور اڑچنیںحائل ہیں، لہٰذاسنگھ پریوار سے وابستہ اکائیوں کوعدالتی دروازے پہ دستک دینے کی سوجھی تاکہ جموں و کشمیر کی اسپیشل پوزیشن کے ضمن میں اس حیات دفعہ کو قانونی داؤ پیچ سے مشکوک اور پژمردہ بناکے حسب منشائے سنگھ پریوار فیصلہ حاصل کیا جا سکے۔کسی بھی آئینی دفعہ کو کالعدم قرار دینے کیلئے قانون ساز اداروں میںبحث مباحثہ ہوتا ہے اور اگر آئینی طریقہ کار مضمرات کو در نظر رکھتے ہوئے کسی بھی دفعہ کو کالعدم قرار دینے کو وقت کی ضرورت سمجھے تو اِس ضمن میں کاروائی کی جا سکتی ہے البتہ آئین کی کچھ دفعات کا تعلق عوام الناس کی اکثریت کی شناخت سے ہوتا ہے اور ایسی دفعات کسی بھی خطے کیلئے حیاتی ہوتی ہیں لہذا اُن کا تحفظ ہر حال میں ضروری ہوتا ہے۔ دفعہ 35A ایک ایسی ہی حیاتی دفعہ ہے جس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کی اکثریت مطلق کی مسلم شناخت سے ہے بنابریں اِس دفعہ کا دفاع باشندگاں ریاست پہ فرض ہے۔
1947ء کے ناگفتہ بہ حالات و واقعات کے پس منظر میں ریاست جموں و کشمیر بھارت سے ایک عارضی و شرائط پہ مبنی الحاق سے بندھ گئی۔اِس الحاق کو ادغام کا عنواں نہیں دیا جا سکتاالبتہ آئینی رشتے کو قائم رکھنے کیلئے دفعہ 370کا اطلاق ہوا۔ آئینی پل کی شق (1) کے تحت یہ قرار پایا کہ جب بھی ضرورت پڑے بھارتی آئین کی دفعات کو ریاست جموں و کشمیر پہ آئینی رشتہ قائم کرنے کیلئے لاگو کیا جا سکتا ہے اور لاگو شدہ دفعات کا اطلاق صدارتی حکم کے بعد ہوہی ہو گا۔ بھارتی صدر کا حکم نامہ ریاست جموں و کشمیر کی سرکار کی اِس ضمن میں سفارش پہ منحصر رہے گا۔1954ء میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے کئی اور دفعات کے ساتھ دفعہ 35A کا اطلاق ہوا۔ ریاستی سرکار کی سفارش کی بنیاد آئین ساز اسمبلی کی منظوری بنی جبکہ آئین ساز اسمبلی نے ڈرافٹ کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ اتفاق کیا۔ڈرافٹ کمیٹی میں گردھاری لال ڈوگرہ،سید میر قاسم ،غلام رسول رینزو، ڈی پی در اور ہربنس سنگھ آزاد شامل تھے۔ آئین ہند کی دفعہ 35کے تحت کسی بھی بھارتی شہری کو بھارت کی کسی بھی ریاست میں سکونت کے ساتھ روزگار کے حصول کا حق ہے۔ ڈرافٹ کمیٹی نے یہ سفارش کی کہ ریاست جموں و کشمیر میں سکونت ، روزگار و سرکاری وظائف کے حصول کا حق ریاست جموں و کشمیر کے پشتنی باشندگاں تک محدود رکھا جائے بنابریں دفعہ 35A ایک مختلف قانون کی شکل میں ڈرافٹ کمیٹی کی سفارشات میں شامل ہوا ۔آئین ساز اسمبلی نے اِس کی تائید کی اور ریاست جموں و کشمیر کی سرکار نے آئین ساز اسمبلی کی تائید شدہ سفارشات کو صدارتی حکم کیلئے پیش کیا۔
جموں و کشمیر کے پشتنی باشندگاں کی نشاندہی ڈوگرہ راج کے دوراں ہوئی۔ پشتنی باشندگاں کی تعریف دومراحل میں ہوئی ۔پہلی دفعہ 20اپریل 1927ء کی سرکاری نوٹس میںبرقم 1-L/84ثانیاََ 27جون 1932ء کے روز برقم 13/L۔تاریخ گواہ ہے کہ ڈوگرہ راج نے ریاستی باشندگاں کی شناخت اور نشاندہی کو اسلئے ضروری سمجھا تاکہ غیر ریاستی باشندے یہاں مستقل سکونت کے دعویدار نہ بن جائیں اور یہاں روزگار کے حصول سے ریاستی عوام کے حق روزگار کو محدود کرنے کا سبب نہ بن جائیں۔تاریخ اِس حقیقت کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ ریاستی اقلیتوں کو جن میں کشمیری پنڈت بھی شامل تھے یہ خدشات تھے کہ پنجابی مسلمان ریاست میں حق سکونت و حق روزگار سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔سیالکوٹ کے گرد نواح کی پنجابی آبادیاں ریاست جموں و کشمیر سے کافی قریب تھیں۔1947ء کے واقعات کے پیش منظر میں جب کہ ہند و پاک کی نوزاد مملکتیں وجود میں آئیں اور ریاست جموں و کشمیر کا بھارت سے الحاقی سمبندھ بنا ریاستی آئین میں پشتنی باشندوں کی ایک اور آئینی اصلاح منظر عام پہ آئی ۔ریاستی آئین کی دفعہ 6 (2)کے تحت پشتنی باشندوں کی تعریف یوں ہوئی کہ اِس میں ہر وہ فرد شامل رہے گا جو 14مئی 1954ء سے پہلے کلاس اول و کلاس دوم کے تحت ریاستی باشندہ تھا اور وہ سب بھی جو اول مارچ 1947ء کے بعد اُس علاقے میں ہجرت کر گئے جو اب پاکستان کہلاتا ہے اگر وہ ایک پرمٹ یا ایک ایسے قانون کی تعمیل میں جو ریاستی قانون سازیہ نے بنایا ہو کے تحت ریاست میں مستقل سکونت کیلئے واپس آ جائیں اُنہیں ریاست کا مستقل باشندہ مانا جائے گا۔
دفعہ 35Aکو وسیع دائرے میں پرکھا جائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ آئینی اصلاح نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی مسلم شنا خت کی حافظ ہے بلکہ ریاستی اقلیتیوں کے حقوق کی بھی ضامن ہے کیونکہ ماضی میں اگر خدشات یہ رہے کہ پنجاب کے مسلمان یہاں کی سکونت اختیار کر کے ریاستی باشندوں کے حقوق میں رخنے کا سبب بن جائیں گے تو دفعہ 35A کے کالعدم ہونے سے یہ خطرہ بنا رہے گا کہ ارد گرد کی ریاستوں کے افراد یہاں سکونت اختیار کر کے مجموعاََ ریاستی عوام کے حقوق میں رخنے کا سبب بن جائیں گے۔اگر یہ تجزیہ صیح ہے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ بھاجپا جو عصر حاضر میں پی ڈی پی کے ساتھ مل کر ریاست میں ایک کولیشن سرکار چلا رہی ہے دفعہ 35A کو کالعدم قرار دلوانے کے درپے کیوں ہے؟ دیکھا جائے تو بھاجپا کا حمایتی حلقہ جموں کے میدانی علاقوں تک محدود ہے گر چہ یہ سچ ہے کہ بھاجپا کو 1914ء کے اسمبلی الیکشن میں جموں کے پہاڑی علاقوں میں جہاں مسلم اکثریت ہے کچھ سیڑیں ملیں لیکن ایسا تب ہوا جب اکثریتی مسلم وؤٹ نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس میں بٹ گیا۔صرفنظر از اینکہ کہ بھاجپا کا انتخابی حلقہ کہاں ہے اور کہاں سے یہ پارٹی وؤٹ بٹنے سے کامیاب قرار پائی دفعہ 35Aکے کالعدم قرار پانے کے منفی اثرات سب ہی علاقہ جات پرپڑیں گے۔اِس حقیقت کے باوجود بھاجپا دفعہ 35Aکو کالعدم قرار دلوانے کو اپنی پارٹی کا نصب العین مانتی ہے البتہ دوہرے معیار کو قائم رکھتے ہوئے یہ بھی کہا جا تا ہے کی ایجنڈا آف الائنس پہ عمل کرتے ہوئے وہ موجودہ آئینی حثیت کو قائم رکھنے کی وعدہ بند ہے۔یہ دوہرا معیار، یہ دوغلی بات در اصل سنگھ پریوار کا پرانا کرتب ہے جس پہ پریوار کئی دَہائیوں سے عمل پیرا ہے۔اِس دوہرے معیار کی کئی مثالیں حالیہ دنوں میں دیکھنے کو ملیں جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ بھاجپا اور پی ڈی پی کا گٹھ جوڑ صرف و صرف ریاستی سیاسی طاقت کی بندر بانٹ ہے جہاں دونوں احزاب نے اصول و اخلاقیات کو پاؤں تلے روندا ہے۔
بھاجپا کے دوہرے معیار کی حالیہ مثالوں میں بھاجپا کے دہلی میں چیف سپوکس مین سنیل سیٹھی کا وہ بیاں قابل ذکر ہے جو 8آگست کو گریٹر کشمیر میں چھپا۔ بیاں میں موصوف نے یہ فرمایا کہ بھاجپا اپنے نظریاتی عقیدے پہ قائم ہے کہ دفعہ370 کو جانا چاہیے اور 35-Aنے ریاست جموں و کشمیر کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔اِس واضح بیاں کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ ہم ایجنڈا آف الائنس کے رہنے تک جموں و کشمیر کی آئینی پوزیشن کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طرف تو بھاجپا کا سیاسی سٹینڈ یہ ہے کہ ایجنڈا آف الائنس اُن کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سنگھ پریوار سے وابستہ کئی اکائیاں کہیں دفعہ370کو اور کہیں دفعہ 35A کو بھارت کی مختلف عدالتوں میں چلینج کر رہی ہیںاور یہ اقدامات ریاست کی آئینی ساخت کو زک پہنچانے کیلئے کئے جا رہے ہیں ۔بھاجپا اِن اکائیوں سے کوئی بھی تعلق ہونے سے انکار کر رہی ہیں لیکن یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ یہ عدالتی چلینج کیوں اور کیسے 2014ء کے انتخابات کے بعد اُبھر آئے جب بھاجپا بھارتی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھارت میں حزب اقتدار کے طور پہ منظر عام پہ آئی اور اِسی کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ ایک کولیشن سرکار تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی ؟کولیشن کو چلانے کیلئے گر چہ ایک ایجنڈا قرار پایا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر اِس ایجنڈے پہ عمل ہوا تو وہ اُس کی خلاف ورزی کی صورت میں منظر عام پہ آیا۔اِس ایجنڈے میں آئینی پوزیشن بر قرار رکھنے کے ساتھ پن بجلی منصوبوں کی واپسی پہ مطلوب تھی جس پہ آج تک عمل نہیں ہوا اور جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ اُن کی واپسی میں اقتصادی اور قانونی مشکلیں حائل ہیں۔
بھاجپا کا سٹینڈ اِس حقیقت سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ جب سپریم کورٹ میںدفعہ 35Aپہ بحث ہو رہی تھی تو دہلی سرکار نے اِس دفعہ کو جوں کا توں رکھنے میںریاستی سرکار کا ساتھ دینے کے بجائے اُسے حساس قرار دینے کی طرح چھیڑی اور اِس دفعہ کو یہ کہہ کر شک کے دائرے میں لایا گیا کہ اُس پہ ایک بڑے بینچ کے سامنے بحث کی ضرورت ہے ۔حساسیت اور وسیع بحث پر اصرار کے بجائے ایجنڈا آف الائنس پہ عمل کرتے ہوئے دہلی سرکار کو ریاستی سرکار کی مانند سپریم کورٹ کے سامنے دفعہ 35Aکا دفاع کرنا چاہیے تھاچونکہ دہلی سرکار کی زمام عصر حاضر میں بھاجپا کے ہاتھ میں ہے اور یہ پارٹی ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ ایک کولیشن میں بندھی ہوئی ہے۔یہ کولیشن ایک عہد سے بندھی ہے جسے ایجنڈا آف الائنس کہا گیا ہے ۔ایجنڈا کے تحت بھاجپا وعدہ بند ہے کہ ریاست کی موجودہ آئینی پوزیشن جوں کی توں رہی گی لیکن دہلی سرکار نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک مختلف پوزیشن اختیار کی اور ایسے میں وعدہ خلافی کی مرتکب ہوئی۔دہلی میں بھاجپا کے ترجمان سنیل سیٹھی اپنی پارٹی کے دفاع میں یہ کہتے ہیں کہ ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں جو پوزیشن اختیار کی ہے اُس میں بھاجپا کو شامل سمجھنا چاہیے چونکہ وہ سرکار میں شامل ہے۔اگر اِس دلیل کو حق بجانب مان بھی لیا جائے تب بھی یہ سوال رہتا ہے کہ دہلی سرکار نے وہی پوزیشن کیوں اختیار نہیں کی جس کو لے کر ریاستی سرکار سپریم کورٹ میں پیش ہوئی؟
ریاست جموں و کشمیر کا دہلی سے سمبندھ کئی جہت سے بندھا ہوا ہے جس میں 1947ء کا الحاق،1952کا دہلی ایگریمنٹ اور 1954کا صدارتی آرڑر کلیدی حثیت رکھتے ہیں چونکہ یہ آئینی ناطوں کی دلیل فراہم کرتے ہیں۔اِن آئینی ناطوں کی پاسداری نہ صرف ریاستی سرکار پہ فرض ہے بلکہ دہلی سرکار پر بھی فرض ہے صرفنظر از اینکہ ریاستی سرکار یا دہلی سرکار کونسی حزب یا کونسی کولیشن تشکیل دیتی ہے ۔آج تک اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کسی آئینی دفعہ کو عدالتوں میں چلینج کیا گیا تو ریاستی سرکار اور دہلی سرکار نے ایک مشترکہ سٹینڈ لیاچونکہ یہ ریاست اور یونین آف انڈیا کے درمیاں قول و قرار کی حثیت رکھتے ہیں بھلے ہی ریاست و دہلی میں حزب اقتدار کی نوعیت کچھ بھی ہولیکن جب سے بھاجپا نے دہلی سرکار کی کماں سنبھالی ہے یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ ریاست کی آئینی شناخت کو مختلف چلینجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اِسے اتفاقات سے تعبیر نہیں جا سکتی بلکہ اب ریاستی حلقوں کیلئے یہ ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے پس منظر میں منصوبوں کی ایک کڑی ہے جسے مختلف طریقوں سے عملایا جا رہا ہے۔ جہاں سنگھ پریوار کو سیاسی سطح پہ یا قانون ساز اداروں میں اپنے منصوبوں کو عملیانے میں مشکل پیش آرہی ہے وہاں دوسرے اداروں میں اپنے منصوبوں کو عملیانے کی کوششیں کی جا رہی ہے اور اِن دوسرے اداروں میں عدلیہ شامل ہے جہاں آئینی دفعات کے سلسلے میں انواع و اقسام عرضیاں داخل کرنا ایک معمول بنتا جا رہا ہے اور اِن کا حدف ریاست کے مسلم تشخص پہ یلغار ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے علاوہ بھارت میں کئی ریاستیں ہیں جن کے تشخص کو بر قرار رکھنے کیلئے دفعہ 371؍کی کئی شقوں کو لاگو کیا ہے۔اِن میں شمال مشرقی ریاستیں جیسے ناگا لینڈ شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ گجرات اور ہماچل پردیش کو بھی امتیازات حاصل ہیں حتّی کہ ہماچل پردیش میں بھی غیر ریاستی باشندوں کو زمیں حاصل کرنے میں مشکلات حائل ہیں لیکن سنگھ پریوار کو یہاں کوئی اعتراض نہیں اعتراض ہے تو جموں و کشمیر کے اکثریتی تشخص پہ اور اِس ضمن میں دفعہ 35Aکو سب سے بڑی رکاوٹ مانا جاتا ہے لہذا اُس پہ یلغار جاری و ساری ہے۔یہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ دفعہ 35Aکے ضمن میں پہلی دفعہ سب ہی احزاب چاہے وہ مین اسٹریم کی ہوں یا مزاحمتی خیمے کی ،سول سوسائیٹی ،تجارتی انجمنیں اور بار ایسویشن ایک ہی صف میں بلکہ ایک ہی صفحے پہ نظر آرہی ہیں چونکہ یہ ریاست جموں و کشمیر کیلئے ایک حیاتی مرحلہ ہے۔ اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور آئینی دفعات کے دفاع میں یہ جنگ قانونی محاز پہ لڑنی ہی لڑنی ہے۔
Feedback on<[email protected]>