Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

۔ 35۔۔۔ محافظت کا فرض پوری قوم پر A

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 14, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 35A کی منسوخی کے لیے عرضی قبول کرنے اورگورنمنٹ آف انڈیا کواس ضمن میں اپنا جواب داخل کرنے کی نوٹس روانہ کئے جانے سے ریاست جموں وکشمیر کے عوامی و سیاسی گلیاروں میں ہل چل پیدا کردی ہے۔ متحدہ مزاحمتی قیادت نے ریاستی کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھڑ چھاڑ کے خطرناک نتائج سامنے آنے کی پہلی بار کھل کر بات کہی اور ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف بھر پور ایجی ٹیشن چھیڑنے کا عندیا بھی دیا ہے جب کہ ہند نواز جماعتوں کے کان بھی اس مسئلے کو لے کر کھڑے ہوگئے۔ نیشنل کانفرنس کے سرپرست اور سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اپنی رہائش گاہ پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی جب کہ اس میٹنگ کے اگلے ہی دن وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے سیاسی حریف فاروق عبداللہ کے ساتھ خود ان کے اپس جاکر ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی۔ محبوبہ مفتی نے کانگریس کے ریاستی صدر کے ساتھ بھی ملاقات کی جب کہ چند اسمبلی ممبران نے بھی اُن کے ساتھ ملاقات کرکے اُنہیں پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ مزاحمتی قیادت نے بھی حسب حال مؤقف اختیار کرکے تمام تر مشکلات کے باوجودکشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے اور اس کی خصوصی پوزیشن کو زک پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہارکیا۔کشمیری ٹریڈ یونینوں نے بھی ریاست کی خصوصی پوزیشن کے خلاف ہورہی کھلی سازشوں کے خلاف صف آراء ہونے کا اعلان کیا ہے۔ عوامی سطح پر بھی ریاست بالخصوص وادی میں کافی اضطراب پایا جارہا ہے اور عام لوگ بڑی ہی باریک بینی سے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ سیاسی موت وحیات کے کسی آئینی مسئلے میں ریاست کی جملہ سیاسی طاقتیں بظاہر ایک ہی صفحہ پر کھڑی نظر آرہی ہے۔ گو کہ تمام اسٹاک ہولڈرس بھارت کی جانب سے کسی بھی ایسے اقدام کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتا دے گا کہ کون کہاں پر کھڑا ہے، کس میں کتنا خلوص ہے اور کون کس حد تک بھارت کی جانب سے کسی بھی ایسے اقدام کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ غور طلب ہے کہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی دیگر مصروفیات یکسر چھوڑ کر فوراًدلی کا رُخ کیا جہاں پہلے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ اور بعدازاں وزیراعظم مودی کے ساتھ پندہ منٹ طویل ملاقات کر کے ریاست کی خصوصی پوزیشن پر عدالت عظمیٰ میں زیرسما عت مقدمے پر ریاستی عوام کی تشویش سے آگاہ کیا ۔ مودی نے بقول محبوبہ ایجنڈا آف آلائنس پر کار بند رہنے کی یقین دہانی دلائی۔ واضح رہے کہ بھاجپا نے اپنے دیرینہ سیاسی موقف کے علی الرغم پی ڈی پی کے ساتھ اس میثاق ِاتحاد میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کی برقراری کا عہدوپیمان کیا ہے ۔ 
10 ؍ اگست کو انگریزی روز نامہ’’ گریٹر کشمیر‘‘ میں نیشنل کانفرنس کے کار گزار صدر وسابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں اُنہوں نے آرٹیکل 35A کی منسوخی کے خلاف ریاستی سرکار کے جواب ِدعویٰ کو کمزور قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت کیس کی پیروی اُس انداز سے نہیں کررہی ہے جس طرح کی جانی چاہیے۔ اُنہوں نے اپنے انٹرویو میں مزاحمتی قیادت بالخصوص بزرگ لیڈر سید علی گیلانی کو آڑے ہاتھوں لے کر کہا ہے کہ حریت کو اس مسئلے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ ہندوستانی آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں۔اس کے برعکس ہند نواز جماعتیں آئین ہند کو تسلیم کرتی ہیں اور وہی مسئلے کے خلاف سینہ سپرہونے کے حق دار ہیں۔ عمر عبداللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ 2010 میں جب اُن کی سرکار نے’’ نیشنل فورڈ سیکورٹی ایکٹ‘‘ لاگو کرنے کی کوشش کی تو اُس وقت سید علی گیلانی نے ایجی ٹیشن شروع کرنے کی دھمکی دی جب کہ GST لاگو ہونے کے موقعے پر اُنہوں نے موجودگی سرکار کو’’ رعایت‘‘ فراہم کر دی ہے۔عمر عبداللہ کے اس انٹرویو میں بہت ساری باتوں کا جواب موجود ہے۔ سب سے بڑی بات جو انہوں نے کہی، وہ یہ ہے کہ حریت کے بجائے ریاست کی خصوصی پوزیشن کا دفاع ہند نواز جماعتوں کا حق ہے۔ حریت لیڈروں کے بغض میں ہی سہی عمر عبداللہ نے پتے کی بات کہی ہے۔ ہندنواز جماعتیں یہاں ہر ہمیشہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ وہ کشمیر میں ریاست کے مفادات کا تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ہندوستان میںکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے نام پر بی جے پی نے اپنا ہر الیکشن لڑا ہے اور بھارتی عوامی بالخصوص فرقہ پرست اکثریت نے اُنہیں اِسی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ووٹ دئے ہیں، جب کہ اس کے برعکس کشمیر میں یہاں کی سیاسی جماعتوں نے ہر الیکشن کے موقعے پر کہا ہے کہ وہ کشمیریوں کے مجموعی مفادات بالخصوص ریاست کی آئینی پوزیشن کی حفاظت کریں گے اور اس پر کسی بھی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ انہی جماعتوں نے وقتاًفوقتاً کشمیرکے اکثریتی جذبات اور احساسات کے برعکس بھارت کی اجارہ داری کو کرسی کے عوض یہاں قائم کیا ، یہاں کے لوگوں کی اُمنگوں کا خون کرکے انہوں نے اب تک دلی کی حکمرانی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ۔ دلی کو یہاں کے وسائل تک رسائی فراہم کی ، اُن کے ہر جائز و ناجائز مفاد کی آبیاری کی ، بدلے میں دلی کے حکمرانوں کو ریاست میں اپنے ان ہمدردوں اوربہی خواہوں کا بھی ’’خیال ‘‘رکھنا چاہیے تھا ،سو ا س نے کبھی رکھا، کبھی وشواس گھات کیا۔ بہر کیف ہند نواز جماعتیں آج تک کشمیر میں جس اقتدار کا مزہ لیتی رہیں ، عوام الناس نے انہیں یہ اقتدار ہمیشہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کی حفاظت کے وعدے پر دیا، آج کی تاریخ میں ایک اور بار ان جماعتوں کو اپنے دعوے سچ ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے۔ 
بے شک مزاحمتی جماعتوں اور ہند نواز جماعتیں دو متضاد راہوں پر گامزن ہیں۔ مزاحمتی جماعتیں کشمیر میں بھارت کو موجودگی کو ناجائز تسلط سے تعبیر کرتی ہیں اور اس متنازعہ مسئلہ کے لئے اخیر دم تک جدوجہد کرنے کا بار بار اعادہ کرتی ہیں ، اس کے برعکس ہند نواز جماعتیں بھارت کے ساتھ کشمیر کے محدوداورمشروط الحاق کو حتمی قرار دے کر ہندوستانی آئین کے دائرے میں کشمیر کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خود مختاری دینے میںیقین رکھتی ہیں۔یہ جماعتیں بار بار یہاں کے عوام کو یقین دلانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں کہ ہندوستان میں ہی اُن کے جملہ مفادات محفوظ ہیں۔ جہاں تک مزاحمتی جماعتوں کا تعلق ہے وہ شروع سے لے کر آج تک اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کے لیے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ان جماعتوں نے کشمیری قوم کے دلوں سے حق خود ارادیت حاصل کرنے کے جذبے کو کبھی مرنے نہیں دیا ، یہ لوگ مسئلہ کشمیر کو بڑی حد تک عالمی سطح پر زندہ رکھنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اُن کے طریقے کار میں سستی ،کاہلی اور حکمت عملیوں کے فقدان کاعمل دخل ہو سکتا ہے لیکن اُن کی نیت اور جدوجہد کے تئیں والہانہ لگاؤ سے کوئی عقل کا اندھا ہی انکارکرے گا۔ مزاحمتی جماعتیں آج بھی دلی کے حکمرانوں کے لیے بڑا سر درد بنی ہیں، اسی لیے اُنہیں طرح طرح کے بے جا کیسوں میں پھنسانے اور جیل خانوں میں ڈال کر ہراساں کرنے کا سلسلہ شدو مد سے جاری ہے۔اس کے برعکس ہند نواز جماعتوں نے ریاست کے لئے کیا کیا سوائے اس کے کہ اُنہوں نے اقتدار کے خوب مزے لئے ، مگر بہ حیثیت مجموعی یہ جماعتیں ریاست کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہیں۔ان جماعتوں کی وجہ سے ہی روزاول سے کشمیر کی اندرونی خودمختاری آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہاں کے آبی وسائل تک دلی کو گرو رکھنے میں ان کا گھٹیا کا کردار کارفر ما رہا ہے؟ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں مزاحمتی جماعتوں نے اپنے نصب العین کی جوں توں ہمیشہ آبیاری کی ، وہیں ہند نواز جماعتوں نے اپنے اُس مقصد ِوجود جس کا وہ دعویٰ لے کر وہ سرگرم عمل ر ہیں کی ہمیشہ قبا ہی چاک کر ڈالی۔ آج تک ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے علاوہ ریاست سے وابستہ جتنے بھی مفادات کو زک پہنچایا گیا، اُس میں یہاں کی ہند نواز جماعتوں کا کلیدی رول رہا ہے۔
ہندنواز جماعتیں اقتداری سیاست سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کا مادہ ہی نہیں رکھتی ہیں۔ آرٹیکل 35A ؍کی منسوخی کے مسئلہ کی ہی اگر بات کریں، تو اس میں بھی یہاں کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس تنظیمی اور اقتداری مفادات کے تناظر میں ہی بات کر کی نظر آتی ہیں۔ جہاں تک پی ڈی پی کا سوال ہے، ایک جانب اُس کی صدر صاحبہ کہتی ہیں کہ اگر دفعہ370؍ کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو کشمیر میں ترنگا ہاتھ میں اُٹھانے والا کوئی نہیں رہے گا، موجودہ صورت حال میں بھی پی ڈی پی صدر کافی متحرک ہوگئی ہیں لیکن جس جماعت کے ساتھ پی ڈی پی تاحال کولیشن سرکار میں موجود ہے، وہ تو آرٹیکل 370 کے خاتمے کی سب سے بڑی وکیل ہے۔حتیٰ کہ2014ء میں جس "We The Citizens" نامی غیر سرکاری تنظیم نے آرٹیکل35A ؍کی منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے، وہ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے اور اس کے صدرسندیب کلکرنی جواب مرچکے ہیں، آرایس ایس کے متحرک کارکن رہ چکے تھے۔اس وقت جب محبوبہ مفتی بظاہر 35A؍ کو بچانے کے لیے’’ ایڑی چوٹی کا زور‘‘ لگا رہی ہیں لیکن اُن کی حکومت میں شامل کولیشن پارٹی بی جے پی کے ریاستی ترجمان کھلم کھلااعلان فرماتے ہیں کہ’’دفعہ370 اور35A کو الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ ایک ہی سرکار دو متضاد لائنوں پر اگر کام کرے تو اس میں شامل پارٹیوں کی کس بات پر اعتبار کیا جائے گا؟دوسری جانب نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر عمر عبداللہ کی بیان بازی سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے کہ آرٹیکل35A ؍کی پریشانی سے زیادہ اقتدار کے ایوانوں پر ان کی نظریں مرکوز ہیں۔ وہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کے بجائے محبوبہ مفتی کے ہر اقدام میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ وہ اپنے ٹویٹس کے ذریعے سے ریاستی سرکار کے اقدامات پر بار بار انگلی اُٹھا رہے ہیں جیسے وہ دودھ کے دُھلے ہیں۔ بالفاظ دیگر خلوص اور ریاستی مفادات کی فکر کہیں نہیں ہے۔ ہندنواز اقتدار کے بھوکے ہیں ، اقتدار کی لالچ میں ہمیشہ ہمیش دلی کے سامنے معذرت خواہانہ لب و لہجہ اختیارکرکے وقت کی مرکزی سرکار کو اس قدر جری بنادیتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت ریاست جموں وکشمیر کے مفادات کے ساتھ کسی طرح کی چھیڑ چھاڑکرنے کی ہمت کرتے رہتے ہیں۔
35A؍ پر حملہ اور دفعہ370؍ کے خلاف ہورہی سازشوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کیا جائے۔ یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔ اسرائیلی طرز پر ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے گزشتہ کئی برس سے ٹھوس کام ہورہا ہے اور اس کام میں سرعت لانے اور اسے قانونی حیثیت دینے کے لیے لازمی ہے کہ مذکورہ دونوں دفات کو ختم کیا جائے۔ اس کے لیے کشمیر دشمن طاقتیں سرکاری آشیر باد سے کام کررہی ہیں۔ اس لئے اپنے مسلم تشخص کو بچانے کی خاطر ہمیں بحیثیت مسلمان یک جٹ ہونے کی ضرورت ہے۔اقتدار پرستی اور حقیر مفادات کے بجائے قومی مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
حریت کانفرنس کے سینئر لیڈر میرواعظ عمر فاروق نے بجا فرمایا ہے کہ آرٹیکل 35A ؍کی حفاظت کی ذمہ داری ہند نواز جماعتوں کی ہے۔ یہ ہندنواز جماعتوں کے لیے امتحان کی گھڑی ہے۔ اپنی قوم کے ساتھ دہائیوں سے کیے جانے والے وعدوں کے ساتھ وفا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس مرتبہ اگر یہ جماعتیں ریاستی عوام کے ساتھ دغاکرتی ہیں تو یہاں ان کے لیے زمین تنگ ہوجائے گی۔ لوگ ان کی فریب کاریوں اور چال بازیوں کو سمجھ جائیں گے اور پھر وہ یہاں کے معصوم عوام کو بہلا اور ورغلا نہیں سکتے ہیں۔اگر ہندنواز جماعتیں اس بار ناکام ہوجاتی ہیں تو پھر مزاحمتی جماعتوں کے لیے کوئی چارۂ کار ہی باقی نہیں بچتا کہ وہ ریاست میں عوامی ایجی ٹیشن شروع کریں۔ ریاستی مفادات کا تحفظ ہر فرد پر واجب ہے،دینی و ملی شناخت کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس مرتبہ دلی میں موجود فرقہ پرست طاقتوں کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کی ہر سازش کو  یہاںٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ ریاست کے مجموعی مفادات کے لیے یہ قوم پہلے بھی متحد رہی ہے اور آج بھی متحد ہے۔ بحیثیت قوم بھی ہمیں پارٹی، جماعتوں ، نظریات سے اوپر اُٹھ کر صرف قوم کی حیثیت سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے تشخص اور وجود پر حملہ ہے، اس لیے اپنے وجود اور ملی تشخص کے لیے تمام تر اختلافات کو چھوڑ کر ہمیں ان گھمبیر حالات کا بڑی ہی بہادر ی اور ودر اندیشی کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔بصورت دیگر ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ آخر پر یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر جموں کی ہندو اور لیہہ لداخ کی بودھ آبادی اس معاملے پر دور رس نگاہوں سے دیکھنے کی زحمت گوار کریں گی تو ہ لازماً اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ ریا ست کا آئینی تشخص ان کے لئے بھی آبِ حیات کا درجہ رکھتا ہے ، اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ ہونا ان پر بھاری ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہ کلیدی حقیقت سمجھنے کے لئے انہیں قوموں کی تاریخ کا فہم وادراک ، سیاست کے اُتار چڑھاؤ کا غیر جذجاتی مطالعہ اور ٹھوس معاشی حقائق کا تجزیہ درکار ہے ۔  

 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کٹھوعہ میں پٹواری رشوت لیتے ہوئے گرفتار
جموں
ساکری راجوری میں گیسٹرو کے واقعات،مزید3داخلِ ہسپتال جموں اور راجوری کے میڈیکل کالجوں میں2خواتین کی موت،7زیرعلاج
پیر پنچال
چناب میں پانی کی سطح بڑھنے پر سلال ڈیم کے دروازے کھول دئے گئے
جموں
ادھم پور میں امسال 87منشیات فروش گرفتار | 2.42کروڑ ر کی منشیات اور4.69کروڑکی جائیداد ضبط
جموں

Related

طب تحقیق اور سائنسمضامین

زندگی گزارنے کا فن ( سائنس آف لیونگ) — | کشمیر کے تعلیمی نظام میں ایک نئی جہت کی ضرورت فکرو فہم

June 30, 2025
کالممضامین

“درخواست برائے واپسی ٔ ریاست” جرسِ ہمالہ

June 30, 2025
کالممضامین

! ہمارا جینا اور دکھاوے کے کھیل

June 30, 2025
کالممضامین

مقدس امرناتھ جی یاترا | تاریخ اور بین ا لمذاہب ہم آہنگی کا سفر روحانی سفر

June 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?