پرویز احمد
سرینگر //کشمیر صوبے میں 25فیصد خواتین اپنے نوزائیدہ بچوں کو ڈبہ بند دودھ پلانے کی عادی بن گئی ہیں۔ جبکہ 75فیصد پڑھی لکھی خواتین بچوں کو زیادہ دیر تک اپنا دودھ نہیںپلاتی ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کو کم وقت تک ماں کا دودھ پلانے کی بنیادی وجوہات میںطبیعت ٹھیک نہ ہوناہے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خواتین کی تعلیم اور بہترین طبی سہولیات جہاں بچوں کو ماں کا دودھ پلانے میں کافی مددگار ثابت ہورہا ہے وہیں دوسری جانب سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کی چھٹی کم ہونے کی وجہ سے بچوں کو زیادہ دیر تک اپنا دودھ نہیں پلا پارہی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 70فیصد پڑھی لکھی خواتین بچوں کو ایک سال تک اپنا دودھ پلاتی ہیں جبکہ کم پڑھی لکھی 85فیصد خواتین بچوں کو اپنا دودھ پلا تی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر صوبے میں 55فیصد خواتین بچہ ہونے کے ایک گھنٹہ بعد ہی بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں جبکہ ان میں صرف 50فیصد خواتین 6ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں 65فیصد خواتین بچوں کو اپنا دودھ پلانے کی حمایت کرتی ہیں جبکہ 40فیصد خواتین میں دودھ کم پیدا ہونے کی شکایت ہوتی ہیں۔اس تحقیق میں جموں، کشمیر اور لداخ کے تین الگ الگ علاقوں میں ماں کے دودھ پلانے کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔ 0-2 سال کی عمر کے بچوں والی 1293 ماں کو بے ترتیب طور پر منتخب کیا گیا۔ جموں سے 680، کشمیر سے 512 اور لداخ سے 101 مائوں کا انتخاب کیا گیا۔ پہلے سے ٹیسٹ شدہ سوالناموں کا استعمال کرتے ہوئے دودھ پلانے سے متعلق طریقوں کا اندازہ کیا گیا۔ نتائج نے دودھ پلانے کے طریقوں میں انتہائی اہم بین علاقائی فرق کی نشاندہی کی۔ 0-6 ماہ میں EBR خصوصی دودھ پلانے کی شرح جموں، کشمیر اور لداخ میں 52.0%، 52.1% اور صرف 15.8% تھی۔ مطالعہ سے پتہ چلا کہ کھانا کھلانے کے غلط طریقوں نے آبادی کی نفسیات میں گہرا اثر ڈالا ہے۔ آئی ایم ایس ایکٹ کی قانون سازی کے باوجود تجارتی شعبہ اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے ایسے طریقے اور ذرائع تلاش کرتا رہتا ہے جو تینوں خطوں میں دودھ پلانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جموں و کشمیر میں دودھ پلانے کے رواج عام طور پر زیادہ ہیں، جہاں زیادہ تر مائیں دودھ پلانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے تجویز کردہ پہلے چھ مہینوں کے لیے خصوصی طور پر دودھ پلانا کم عام ہے، خاص طور پر لداخ جیسے کچھ علاقوں میں۔
دودھ پلانے کا زیادہ پھیلائو
جموں و کشمیر میں بہت سی مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، جن میں نمایاں فیصد پیدائش کے فورا ًبعد ماں کا دودھ پلانا شروع کر دیتی ہے، خاص طور پر ان میں سے جنہیں ایک سے زیادہ بچے ہیں یا جنہیں خصوصی دودھ پلانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔لیکن پہلے چھ ماہ کے لیے خصوصی دودھ پلانا، جہاں صرف ماں کا دودھ دیا جاتا ہے، مطلوبہ شرح سے کم ہے۔ بہت سی مائیں پیدائش کے بعد ایک گھنٹے کے تجویز کردہ وقت کے اندر اپنا دودھ پلانا شروع کر دیتی ہیں۔کچھ مائیں دودھ پلانے کے بارے میں غلط فہمیاں رکھتی ہیں، جیسے کہ یہ ماننا کہ گائے کا دودھ متبادل ہو سکتا ہے یا جب دودھ چھڑانا شروع کیا جائے تو دودھ پلانا بند کر دینا چاہیے۔جرنل آف فیملی میڈیسن اینڈ پرائمری کیئر میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، دودھ پلانے کے طریقوں کو بہتر بنانے کے لیے، یہ ضروری ہے کہ ماں کو ان کے قبل از پیدائش کے دوران کسی بھی غلط فہمی کو دور کرنے اور خصوصی دودھ پلانے کے ساتھ ساتھ دودھ چھڑانے کے مناسب طریقوں کو فروغ دینے کے لیے مشورہ دیا جائے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماں کا دودھ بچوں کی نشوونما کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے اور یہ زچگی کے بعد ماں کی جلد صحتیابی کیلئے بھی فائد ہ مندہے۔ یہ بچوں کا نہ صرف معدافتی نظام مضبوط بناتا ہے بلکہ بچوں کو آنے والی زندگی کے دوران چھاتی کے مختلف امراض جیسے دمہ ، نمونیا ، کانوں کی مختلف بیماریوں، بچپن کے موٹاپے اور دیگر بیماریوں سے بھی دور رکھتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دودھ پلانے والی مائوں کیلئے بھی کافی فائدہ مند ہوتا ہے اور یہ خواتین کو آنے والی زندگی میں پستان کے کینسر، ہیضہ دانی کے کینسر، تھائروڈ کینسر، ہائی بلڈ پریشر اور ہائی کولسٹرال جیسی بیماریوں سے دور رکھتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے مائوں کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔