امداد کی تقسیم میںنقصان کے حساب سے ہوگی،جہاں نقصان ہوا ہے وہاں معاوضہ ضرور دیا جائے گا:وزیراعلیٰ
عظمیٰ نیوز سروس
سری نگر//وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے جاری خزاں سیشن کے وقفہ سوالات کے دوران مداخلت کرتے ہوئے بے زمین اَفراد کے لئے زمین کی الاٹمنٹ اور مختلف خطوں میں حالیہ نقصانات کے اَزالے کے لئے اِمداد کی تقسیم کے بارے میں اَپنی حکومت کے مؤقف کو دہرایا۔رُکن قانون ساز اسمبلی شیام لال شرما کی جانب سے ممبر اسمبلی پون کمار گپتا کی طرف سے اُٹھائے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ حکومت کوئی نئی پالیسی نہیں لا رہی ہے کیوں کہ موجودہ فریم ورک اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل کرتا ہے۔اُنہوں نے کہا، ’’وزیر نے درست جواب دیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پالیسی موجود نہیںبلکہ یہ کہ کیا نئی پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہم کوئی نئی پالیسی متعارف نہیں کر رہے کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘عمر عبداللہ نے زمین سے محروم اَفراد کے لئے حکومت کے اَقدام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’ہم پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ بے زمین کنبوں کو رہائشی مکانات کی تعمیر کے لئے پانچ مرلہ زمین دی جائے گی۔ ضروری دستاویزات کا عمل جاری ہے۔ رہائشیوں کے لئے زمین لیز پر دی جائے گی‘‘۔ علاقائی مساوات کے حوالے سے خدشات پر وزیر اعلیٰ نے سختی سے کسی بھی قسم کی امتیاز کی تردید کی۔اُنہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، ’’ہماری پالیسی کسی ایک خطے کے لئے امداد مانگنے اور دوسرے کو نظر انداز کرنے کی نہیں ہے۔ ہمارا ایسا کوئی اِرادہ نہیں۔‘‘وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مرکزی حکومت کی ٹیمیں جن میں مرکزی وزیر برائے داخلہ اور وزیر برائے زراعت بھی شامل تھے، مقامی حکام کے ساتھ مل کر متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکی ہیں۔عمر عبداللہ نے ایوان کو آگاہ کیا،’’مشترکہ جائزے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ صوبہ جموں کو کشمیر کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اِس کے مطابق ہم نے ایک اِمدادی پیکیج تیار کیا ہے جو مرکزی حکومت کو منظوری کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔‘‘اُنہوں نے یقین دِلایا کہ پیکیج کی منظوری کے بعد اِمدادی رقوم کی تقسیم بغیر کسی جانبداری یا طرفداری کے شروع ہوجائے گی۔وزیر اعلیٰ نے کہا، ’’اِمداد کی تقسیم میں نہ سیاست ہوگی، نہ مذہب، نہ علاقائی امتیاز، جہاں نقصان ہوا ہے وہاں معاوضہ ضرور دیا جائے گا۔‘‘اِس سے قبل وزیر برائے سماجی بہبود سکینہ اِیتو نے کہا کہ حکومت نے حالیہ سیلاب متاثرین کے لئے کوئی نئی بحالی پالیسی وضع نہیں کی ہے۔تاہم، ایک تجویز زیر غور ہے کہ آفاتِ سماوی (سیلاب، لینڈ سلائیڈ، بادل پھٹنے، زلزلے وغیرہ) سے متاثرہ بے زمین کنبوں کو رہائشی مقاصد کے لئے پانچ مرلہ ریاستی زمین لیز پر دی جائے۔
مانڈ میں 15000میٹرک ٹن پرانے کچرے کے تدارک کا کام مکمل :وزیر اعلیٰ
باقی 27000میٹرک ٹن پرانے کچرے کی بائیو مائننگ غور و فکر کے مراحل میں
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر //وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے قانون ساز اسمبلی کو بتایا کہ متعلقہ ایجنسی نے ادھمپور کے مانڈ میں 15000میٹرک ٹن پرانے کچرے کے تدارک کا کام مکمل کر لیا ہے ، جبکہ اس جگہ پر باقی 27000میٹرک ٹن پرانے کچرے کی بائیو مائننگ ، جو کہ سوچھ بھارت مشن ( شہری ) کے تحت ہے ، فعال غور و فکر کے مراحل میں ہے ۔ وزیر اعلیٰ ایم ایل اے آر ایس پٹھانیہ کی طرف سے پیش کردہ توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دے رہے تھے ۔ اودھمپور میونسپلٹی کی طرف سے گاؤں مانڈ میں کچرے کے ڈمپنگ کے بارے میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے آر ایس پٹھانیہ نے کہا کہ اس ڈمپنگ سے ناقابلِ برداشت بدبو ، بیماریاں اور جموں ۔ سرینگر شاہراہ کے ساتھ غیر خوبصورت ماحول پیدا ہوا ہے ۔ اس نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ علاقہ میونسپل کونسل اودھمپور کو ٹھوس فضلہ کے انتظام کے منصوبے کے قیام کیلئے منتقل کیا گیا تھا ، جس کیلئے میونسپل کونسل اودھمپور نے مانڈ میں موجود پرانے کچرے کی بائیو مائننگ کیلئے ممکنہ بولی دہندگان سے ٹینڈر طلب کئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ پرانے کچرے کی بائیو مائننگ کا کام رواں سال مارچ میں شروع ہوا تھا اور ایجنسی نے پہلے ہی 15000 میٹرک ٹن پرانے کچرے کے تدارک کا کام مکمل کر لیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے مزید بتایا کہ مانڈ کے آس پاس کے علاقے میں بدبو اور بیماریوں کے پھیلاؤ کے خطرے سے بچنے کیلئے وقتاً فوقتاً جراثیم کُش ادویات چھڑکنے والے کارکن تعینات کئے جا رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ جب تک حکومت کوئی مناسب متبادل جگہ تلاش نہیں کرتی یہ جگہ ڈمپنگ سائٹ کے طور پر استعمال ہوتی رہے گی ۔