سرینگر //کشمیر کی پہلی ٹروما کانفرنس ’’ٹروما کانگریس 2017‘‘ میں مقررین نے موجودہ سنگین صورتحال کے دوران زخمی ہونے والے افراد کیلئے مخصوص ٹروما سینٹر قائم کرنے پر زور دیا ہے۔ مقررین نے کہا ہے کہ کشمیر میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حالات دن بہ دن ابتر ہورہے ہیں اور ایسی صورتحال میں مخصوص ٹروما سینٹر لازمی بن گیا ہے۔ گورنمنٹ مڈیکل کالج سرینگر کے شعبہ سرجری اور منیمل ایکسس سرجریز کی جانب سے ہفتہ کو ڈینٹل کالج سرینگر کے آڈیٹوریم میں ’’ ٹروما کانگریس 2017‘‘کے نام سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میںگورنمنٹ ڈینٹل کالج سرینگر کے سابق پرنسپل صاحبان پروفیسر ڈاکٹر غلام جیلانی اور پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ میر ،پرنسپل میڈیکل کالج ڈاکٹر قیصر احمد کول، شعبہ سرجری اور مینیمل ایکسس کے سربراہ پروفیسرشوکت جیلانی کے اعلاوہ گورنمنٹ مڈیکل کالج کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ ڈاکٹروں کے علاوہ طالبہ علموں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے پرنسپل مڈیکل کالج ڈاکٹر قیصر احمد کول نے کہا ’’ سال1990سے لیکر ابتک کشمیر میں ٹروما مریضوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر قیصر احمد نے بتایا کہ گورنمنٹ مڈیکل کالج سرینگر کے شعبہ سرجری نے سال 2016کے 4ماہ کے دوران مثالی کام کیا ہے اور یہ سب دیگر محکمہ جات کے تعاون سے ممکن ہوسکا ۔ انہوں نے کہا کہ نامساعد حالات کے دوران گورنمٹ مڈیکل کالج سرینگر ، سکیمز اور دیگر اداروں کو آپسی تال میل کے ساتھ نمٹنا ہوگا جبکہ اس صورتحال میں نظم و ضبط کے فقدان کی وجہ سے صورتحال مزید سنگین ہوجاتی ہے اور اسلئے نظم و ضبط پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر قیصر احمد نے منتظمین نے کہا کہ وہ ٹروما کیلئے طبی سہولیات بہتر بہنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور ریاستی سرکار کا ہر دروازہ کھٹ کھٹائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ اس کانفرنس کے بعد ہمارے پاس ایک مسودہ تیار ہوگا جس پر ہم کام کریں گے۔ اس موقعہ پر شعبہ سرجری اور مینیمل ایکسس سرجری کے سربراہ پروفیسر شوکت احمد جیلانی نے کہا کہ دن بہ دن ٹروما مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور کوئی کانفرنس ، کانگریس یا سمینار اس صورتحال کو نہیں بدل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی نوجوان نسل مضروب ہورہی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے صرف ڈاکٹر ہی نہیں نپٹ سکتے بلکہ دیگر لوگوں کو بھی سامنے آنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تمام طبی اور نیم طبی عملے کو ٹروما سے متعلق تربیت فراہم کرنی ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹروما کے علاج کیلئے کوئی بھی مخصوص سینٹر موجود نہیں ہے مگر ہمیں اُمید ہے کہ بہت جلد یہاں ایک مخصوص ٹروما سینٹر قائم کیا جائے گا جو جدید ساز و سامان سے لیس ہوگا۔ اس سے قبل پروفیسر نظام الدین وانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ پچھلے تین دہائیوں سے کشمیر میں ہلاکتوں اور خون خرابے کا دور جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سال 2020تک ٹروما لوگوں کی جان لینے والی تیسری بیماری بن جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی صحت ادارے کے مطابق ہر سال 6لاکھ افراد زخموں کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ 60لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سال 1990سے لیکر ابتک نامساعد حالات کا نہ تھمنے والا سلسلہ دیکھتے آئے ہیں اور کشمیر عوام نے پچھلے 30سال میں کئی ایسے دور دیکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2008میں ہلاکتوں اور لوگوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ اچانک شروع ہوا جس میں کئی لوگوں کی جانیںگئی اور سینکڑوں افراد مضروب ہوئے۔ڈاکٹر نظام الدین وانی نے کہا کہ سال 2010اور 2012میں بھی ہمیں یہی صورتحال دیکھنے کو ملی جبکہ سال 2014کے سیلاب نے سب کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ سال 2014 کے سیلاب کے بعد جہاں شعبہ صحت کے بنیادی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچا ۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے تباہ شعبہ صحت کے ڈھانچے میں ابھی بہتری آہی رہی تھی کہ8جولائی 2016کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ پروفیسر نظام الدین نے کہا کہ سال 1990سے لیکر سال 2016 سرینگر کے صدر اسپتال میں 20ہزار زخمی افراد کا علاج و معالجہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ وادی میں بہت جلد ایک مخصوص ٹروما سینٹر قائم کیا جائے گا جو تمام تر سہولیات سے لیس ہوگا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق پرنسپل گورنمنٹ مڈیکل کالج سرینگر ڈاکٹر شاہدہ میرنے کہا کہ ٹروما میں کافی حدتک تبدیلی آئی ہے اور اسلئے ہمیں علاج میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اب گولی سے لیکر پیلٹ سے مضروب ہونے والے افراد کا بھی علاج و معالجہ کرنا پڑتا ہے اور اسلئے ضروری ہے کہ پچھلے کئی دہائی قبل بنائے گئے ٹروما سینٹر کے منصوبے کو عمل شکل دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ٹروما سینٹر کی اشد ضرورت ہے اور اسلئے ٹروما سینٹر کو قائم کرنے پر زور دیا جائے جبکہ ایک اور سابق پرنسپل ڈاکٹر غلام جیلانی نے کہا کہ ٹروما سینٹر کے قیام میں ہمیشہ سے ہی بیروکریسی رکاوٹیں کھڑی کرتی آئی ہے اور اسلئے یہ ٹروما سینٹر کے منصوبے مکمل نہیں ہوسکا۔