سرینگر// شمالی ضلع بانڈی پورہ کے نائد کھئے علاقے میں30ماہ قبل پولیس فائرنگ سے جاں بحق طالب علم کے لواحقین کے حق میں5لاکھ روپے کا معاوضہ فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ریاستی بشری حقوق کمیشن نے8ہفتوں کے دوران معاوضہ دینے کیلئے کہا ہے۔سوناواری کے نائید کھے میں 14مارچ2014 کی شام احتجاجی مظاہروں کے دوران فورسز اور نوجوانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں،جس کے دوران ایک نوجوان فرحت احمد جاں بحق ہوا تھا۔اہل خانہ نے بعد میںبشری حقوق کے ریاستی کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ بدھ کو چیئر مین انسانی حقوق کمیشن جسٹس(ر) بلال نازکی نے کیس کی حتمی سماعت کے دوران فیصلہ صادر کرتے ہوئے سرکار کو ہدایت دی کہ وہ مذکورہ طالب علم کے لواحقین کو5لاکھ روپے کا معاوضہ8ہفتوں کے اندر فرہم کریں۔ واقعے سے متعلق مقامی لوگوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی آر پی 8بٹالین کے کیمپ پر سنگباری کے دوران ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پولیس و فورسز اہلکاروںنے آنسو گیس کے گولے داغے اور پھر فائرنگ کردی اورگولیاں لگنے کے نتیجے میں 3 نوجوان زخمی ہوئے تاہم بعد میں 18سالہ فرحت احمد ڈار ولد غلام رسول ساکن شاہ گنڈ حاجن زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ بیٹھا۔مقامی لوگوں کے مطابق مزید ایک درجن سے زیادہ افراد کو چوٹیںآئیں تھیں۔ اس واقعے پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر بانڈی پورہ شاہ فیصل نے مجسٹریل تحقیقات کے احکامات صادر کئے جبکہ ڈی آئی جی شمالی کشمیر نے اس سلسلے میں باضابطہ طور ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔کئی دنوں تک اس واقعے کے خلاف سخت احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے،جبکہ اس وقت کی اپوزیشن جماعت پی ڈی پی نے نائید کھئے سمبل کے طالب علم کی ہلاکت پر ’عمر عبداللہ کی سربراہی والی سرکار کو آدم خور حکومت ‘قراردیا تھا۔موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس واقعے پرر دعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا’’ا گر چہ مفتی محمد سعید نے بھی ریاستی انتظامیہ اور پولیس کو ملک کی بہترین انتظامیہ قرار دیا ،تاہم اس بات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ’پولیس میں کالے بھیڑیے بھی موجود ہیں ‘‘۔