سرینگر/ / اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ٹی آ ر سی میں سڑک کی کشادگی اور فلائی اوور کی تعمیر کے دوران 11چنار وں کو کاٹنے پر تعمیراتی کمپنی ERAنے محکمہ فلوری کلچر سے کوئی بھی صلاح ومشورہ نہیں کیا اور محکمہ کے ساتھ تال میل کے بغیر ہی یہ چنارکاٹے گئے ہیں۔ٹی آر سی کے پاس سڑک کی کشادگی اور فلائی اور کی زد میں آئے درجنوں چناروںکی کٹائی کا معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے جہاں چنار بچاﺅ کمیٹی نے گذشتہ دنوں احتجاج کرتے ہوئے اُسے ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا وہیں ماہرین ماحولیات بھی درختوں کی کٹائی کو ماحول کےلئے خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔ چناﺅ بچاﺅ کمیٹی کا کہنا ہے کہ سڑکیں اور فلائی اور وقت کی اہم ضرورت ہے تاہم اس طرح چناروں کو کاٹنے سے پہلے ماحولیاتی ماہرین سے صلاع ومشورہ کرنا بھی ضروری تھا ۔ماحولیات سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار جان بوجھ کر کشمیر کا تشخص اور اس کی شان و شوکت کو ختم کررہی ہے اور وقت کے حکمرانوں کی خود غرضی کی وجہ سے چناروں کا صفایا کیاجارہاہے۔چنار بچاﺅ کمیٹی کے چیئرمین ظریف احمد ظریف نے کہا کہ چنار کشمیر کی قومی شان ہے اور برسوں پرانے یہ درخت ہمارا قومی ورثہ ہے اور ان کو کاٹنا ہماری تہذیب کو مٹانے کے مترادف ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر وادی میں پہلے انسانیت اور اب ماحولیات کاقتل ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر چنار کے درختوں کو نیست ونابود کرنے کا عمل بند نہیں ہوا تواندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہماری نئی نسلیں چنار کا صرف نام کتابوں میں ہی ڈھونڈیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے سونہ وار سے قاضی گنڈ تک سڑک کی تعمیر کے دوران 97چنار وںکو نیست ونابود کیا گیا جبکہ ناربل سے گلمرگ تک بھی بڑے پیمانے پر چنارکاٹے گئے ۔ ظریف نے کہاکہ کئی برس قبل چناروں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے محکمہ فلوریکلچر نے اس مقصد کیلئے ایک الگ شعبہ قائم کیا اور اس شعبہ میں چنار آفسر کی تقرری عمل میں لائی گئی مگر وہاں موجود عملے کو اس سلسلے میں کوئی جانکاری ہی نہیں کہ چنار کون کاٹ رہا ہے ۔انہوں نے کہا” 35برس قبل غلام محمدشاہ کی حکومت میں ہم نے 8چنار کے درخت ٹورسٹ سنٹر سرینگر میں لگائے تھے اور تب وہاں تین پرانے درخت بھی موجود تھے لیکن اب وہاں ایک بھی درخت موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 1947سے قبل کی سروے رپورٹ کے مطابق شخصی دور میںیہاں42ہزار چنار تھے اور اس وقت گاﺅں کے چوکیدار کو ہر ایک نکڑ اور چوراہے پر ایک چنار لگانے کا حکم دیا جاتا تھااور بعد میںاس درخت کو اُس وقت کے پٹواری ریکارڈ میں رکھا جاتا تھاجبکہ تحصیلداراور نائب تحصیلدار کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی تھی کہ وہ ان کی دیکھ ریکھ کو یقینی بنائیں۔ ظریف کہتے ہیں کہ اُس وقت سخت قانون تھا،اخروٹ ، شہتوت اور چنار وں کو کاٹنے پر پابندی تھی اور قانون اتنا سخت تھا کہ اگر کوئی ان درختوں کی ٹہنی بھی کاٹتے تھے تو اُس کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جاتی تھی لیکن آج کی عوامی حکومت میں یہ قانون صرف کتابوں تک ہی محدود ہے اور سیاسی کھڑپنچ یا پھر اثر ورسوخ رکھنے والے قانون کو بالائے طاق رکھ کر اس کا بڑی بے دردی سے صفایا کرتے ہیں ۔ کشمیر یونیوسٹی میں شعبہ ارضیات کے پروفیسر شکیل احمد رامشو نے بتایا کہ جس جگہ ایک چنارکاٹا جاتا ہے وہاںایک سو درخت لگانے کی ضرورت ہے۔کیونکہ چنارکو کاٹنے سے ماحول پر کافی برا اثر پڑ سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ نئی تعمیرات اور ترقی وقت کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ماحولایات کو صاف ستھرا رکھنے میں بھی کوششیںکرنی کی ضرورت ہے ۔ ڈائریکٹر فلوری کلچر محمد حسین میر نے بتایا کہ چناروںکو کاٹنے کےلئےERA نامی کمپنی نے محکمہ سے کوئی اجازت نامہ نہیں لیا ۔انہوں نے کہا کہ متبادل راستہ نکالنے کےلئے محکمہ نے ضلع ترقیاتی کمشنر کو بھی آگاہ کیا تھا لیکن انہیں بھی شائد اس کا متبادل نہیں ملا ہے اس لئے یہ چنار کاٹنے کی ضرورت پڑی ۔انہوں نے کہا کہ ڈویژنل کمشنر کی صدارت میں ہوئی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں بتایا گیا تھا کہ اگر کسی مجبوری کے وقت چنار کٹ جاتا ہے تو ایسے میں ایک چنار کے بدلے پانچ چنار لگائے جائیں ۔محکمہ کے ایک اعلیٰ آفیسرنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ چنار ڈیولپمنٹ افسر کا کام ہاٹی کلچر افسر دیکھتا ہے لیکن اُسے بھی اس حوالے سے کوئی جانکاری نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا کام چنار کو بچانا ہوتا ہے کٹوانا نہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک چنار کے درخت کو جوان ہونے میں ڈیڑھ سو سال لگ جاتے ہیں اور محکمہ کا کام ان کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔تعمیراتی کمپنیERA کے ڈائریکٹر سوشیل رازدان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ فلوری کلچر محکمہ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کےلئے ایک چنار ڈیولپمنٹ افسر ہوتا ہے جس کو باضابطہ طور پر چنگلات کے ڈی ایف او کے ذریعے ایک ریکویشن گئی ہے جس کے بعد ہی ڈی سی سرینگر کی طرف سے اجازت ملی ہے ۔انہوں نے کہا ” ہم نے چنار ڈولپمنٹ افسر کو کہا ہے کہ جتنے چنار کٹے اس کے عوض دس فیصد اور چنار لگانے کےلئے سٹیمیٹ بھجیںتاہم انہوں نے اس پر دھیان ہی نہیں دیا“۔