عظمت مزدور بھی ہے ، عظمت دہقان بھی ہے
سُرخ پرچم درحقیقت عظمت انسان بھی ہے
یوم مئی مزدوروں کا بین الاقوامی تہوار ہے۔ہرسال یکم مئی کے روز دنیابھرکے مزدوروں کے اجتماع منعقد ہوتے ہیں اوراس دن دنیا کے طول وعرض میں مارکس اور اینگلس کاد یاہوا نعرہ بیک زبان گونج اٹھتاہے۔ ’’دنیابھرکے مزدورو ایک ہوجائو‘‘۔ ہرایک ملک کے محنت کش عوام اس سرخ پرچم کوبلند رکھنے کاتجدید عہد کر لیتے ہیں جوآج سے ایک سو اکتیس سال پہلے امریکہ کے ا س وقت کے اہم صنعتی مرکز شکاگو میں مزدوروں کے خون سے رنگا گیاتھا۔محنت کش عوام اور استحصال پسند ظالموں کے درمیان ٹکر اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ مگر پچھلی صدی کے آخر میں شکاگو میں جو سنگرام چھڑا وہ اس لحاظ سے نئی طرز کاتھا کہ پہلی بار منظم صنعتی مزدوروں نے اپنے حقوق کیلئے سرمایہ دار مل مالکان کے خلاف لڑائی شروع کی تھی اوراس جہاد میںعظیم قربانیاں دی تھیں۔
سنگرام کاآغاز 1880ء کے لگ بھگ شروع ہوچکاتھا۔ مزدوروں کے بیدار حصوں نے جگہ جگہ اپنی تنظیمیں قائم کرکے ٹریڈ یونین حقوق، رہائش کے بہتر انتظامات، زیادہ اُجرتوں وغیرہ کے لئے آواز اٹھاناشروع کردیا تھی مگر جس نعرے سے سرمایہ دار مالکوں کو چونکادیاتھاوہ تھا کام کے اوقات میںکمی ۔اس سے مل مالکان کے مفادات اورمنافع خور ی کی اصل نیاد پرضرب کاری لگتی تھی کیونکہ منافع خوری کی بنیاد مزدوری کی اصل محنت کااستحصال ہی تھا۔ ان کو اُجرت صرف مختصر مدت کی ملتی تھی جب کہ مدت ِکار اس سے کہیں زیادہ لیا جاتاتھا۔ مارکس اور اینگلس نے قدرزائدکا اصول دریافت کرکے جس راز کو پہلی بار تحریری شکل میں آشکار کرکے علم اقتصادیات میں انقلاب برپا کردیاتھا، یہ مزدور کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھا وہ کام کے اوقات میںکمی کیلئے لڑرہے تھے۔
اس زمانے میںامریکی مزدوروں میںجدوجہد کی لہریں ابھریں، مختلف شہروں کے صنعتی مزدوروں نے ایک مرکزی تنظیم قائم کی۔ اپنے مطالبات کاچارٹر مرتب کیا۔ بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کیں۔ ان کابظاہر بے ضرر سا نعرہ ’’آٹھ گھنٹے کاکام۔ آٹھ گھنٹے کاآرام‘‘۔ آٹھ گھنٹے کی تفریح‘‘کی سیاسی اور اقتصادی نوعیت سے سرمایہ دار مالکان باخبر تھے اور یہی ان کی بوکھلاہٹ کی وجہ تھی۔ حکمران سرمایہ دار طبقوں نے اپنی حکومت کی پوری طاقت فوج پولیس قانون کے ذریعے اس ابھرتی ہوئی مخالف تحریک کو کچلنے کی ٹھان لی۔ 1882 میںایک بار نہیں بلکہ کئی بار امریکی مزدوروں پرگولیاں چلائی گئیںجن کو مجبور کیا جاتاتھا کہ وہ روکھی سوکھی روٹی اورگندی بستیوں میںرہائش کے عوض میںاپنی بیوی بچوں سمیت فیکٹریوں میںسولہ اور اٹھارہ گھنٹے کا م کریں۔ شکاگو میں مزدوروں کو سب سے زیادہ بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ روایت یہ ہے کہ جب1886ء میںایسی فائرنگ کے بعد مزدوروں نے اپنے ایک جان بحق ساتھی کے خون آلودہ قمیض کولٹکا کر اونچا کیا تواسے مزدوروں کاجھنڈا تصور کرلیاگیا۔شکاگو کے مزدوروں کی قربانیاں ضائع نہیں ہوئیں۔ انہوں نے ابتدائی کامیابی حاصل کرکے بین الاقوامی مزدور تحریک کو ایک نئی طاقت بخشی۔ اس جدوجہد نے سارے یورپ کومتاثرکیا۔ مزدوروں نے اپنے بہت سے مطالبات منوانے میںکامیابیاں حاصل کیں اورآخر کار اٹھارہ گھنٹے کام لینے والے سرمایہ دار ملکوں اور ان کی نمائندہ سرکاروں کو مجبور کردیا کہ وہ مزدوروں سے دس گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیں۔شروع شروع میں شکاگو کے مزدوروں کی جانی قربانیوںکے سلسلے میں مزدور جتھہ بندیاں امریکہ اوربعض دوسرے ملکوں میںالگ تھلگ طورپر یادگاری تقریب منعقد کرتی رہیں مگر یہ لینن تھے کہ جنہوں نے شکاگو کے مزدوروں کی اہمیت سمجھی اور دنیا بھر کے مزدوروں کو آوازدی کہ وہ ایک خاص دن چن کر اس روز ملک میں بیک وقت اجتماع اور مظاہرے منعقد کریں اور اسے حقیقی معنو ں میں پرولتاری بھائی چارے کاعلم بنا دیں۔ یہ دن یکم مئی چناگیا۔ تب سے پہلی مئی مزدوروں کے بین الاقوامی تہوار کی صورت میں منایا جاتاہے ۔ کافی سوچ وچار کے بعد مزدور جتھہ بندیوں کے پرچم کارنگ سرخ تجویز کیاگیا کیونکہ مزدوروں کے بہتے ہوئے لہو کی اس سے بہتر نمائندہ کوئی یادگار نہیںہوسکتی تھی۔ تب سے سرخ رنگ کا پرچم انقلابی تحریک کاواحد نشا ن بن گیاہے۔ لینن کا مزدور تحریک کو صحیح راہ پر گامزن کرنے میں نمایاں حصہ ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مزور تحریک کی اہمیت واضح کی اور انہیں تنگ نظرسرمایہ دارانہ قوم پرستی سے نکلنے کی تلقین کی جس کی بنیاد پر سرمایہ دار حکمران دنیاکے مزدوروں میںپھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ انہوں نے مزدور جدوجہد کومحض اقتصادیات پسندی کے پیٹی بورژوا دائرہ سے نکال کر سیاسی جدوجہد کی راہ پرڈال دیا۔ لینن نے زور دے کرکہا کہ ہڑتالیں مزدور کے سیاسی سکول ہیں، وہ اسی سکول کے تربیت یافتہ مزدور تھے، جنہوں نے لینن کی رہنمائی میںملک گیر ہڑتالیں کیں۔ اپنی اس منظم ہمہ گیر اور جنگ جوآنہ کاروائیوں سے زار شاہی کی جابرانہ طاقت کومفلوج کرکے رکھ دیااور اکتوبر انقلاب کرکے 1917 ء میںدنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کی بنیادرکھی۔
1886ء سے لے کر آج تک لگ بھگ ایک صدی اکتیس سال سے زیادہ عرصہ ہونے کوآیاہے مگراس سارے عرصہ میںحکمران سرمایہ دار طبقہ کاکردارنہیں بدلا۔ آج بھی ایک سو سال پہلے کی طرح محنت کشوں کو گولیوں کانشانہ بنایا جاتاہے۔ اگرچہ اس عرصہ میں مزدوروں نے اپنی تنظیم قربانیوں کی بدولت اپنے بہت سارے بنیادی انسانی جمہوری اور اقتصادی حقوق حاصل کرلئے ہیںمگر جہاں جہاں سرمایہ داری قائم ہے یا ایسے ہی نام نہاد سوشلسٹ ملکوں میںجہاں سرمایہ داری دوبارہ رائج کی گئی ہے، مزدوروں کی اپنے حقوق کے لئے کسی نہ کسی صورت میں جدوجہد یں جاری ہیں۔ پچھلی صدی کے نصف میںکارل مارکس اور فریڈرک اینگلس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو شائع کیا ،جس نے یوروپ سے مظلوم اورسرمایہ دارانہ غلامی کی زنجیروں میںجکڑے ہوئے مزدورطبقہ کو بے حد متاثرکیا۔ پرولتاری طبقہ پہلی بار بورژوا فلاسفی اور نظرئے کے ابہام اورفریب سے نکل کر ایک واضح انقلابی طبقاتی نظریئے سے لیس ہوا جوکہ اس کااپناتھا۔ مینی فیسٹو کی آخری سطور میں دی گئی اس آواز نے بے سر وسامان اوردبے کچلے طبقہ میںایک نیا ولولہ پیداکیا۔ ’’دنیا کے مزدور و! ایک ہوجائو۔ تمہارے پاس کھونے کے لئے زنجیروں کے سوا کچھ نہیں اور پانے کے لئے ایک جہان ہے‘‘۔ مارکس اور اینگلس نے شکاگو سانحہ سے بہت پہلے ہی مختلف ممالک میں مزدوروں کی جتھہ بندیاں قائم کرنے اور انہیں اپنی قائم کردہ تنظیم ’’ورکنگ منیر ایسوسی ایشن‘ ‘ کے نام سے یکجا کرنے کے لئے انتھک کام کیا۔ ان انقلابی سرگرمیوں سے سرمایہ دار صنعت کار اوران کی نمائندہ سرکاریں اس قدر بوکھلا گئیں کہ مارکس ازم کویورپ سے نکل کر امریکہ جاکر بھی پناہ لینی پڑی۔ اسے وہاں سے بھی دوسرے ملکوں کے مزدوروں سے رابطہ قائم رکھا اور ان کی رہنمائی کی۔ اسی اثناء میں مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’سرمایہ‘‘ لکھی جس میںسرمایہ داری لوٹ کھسوٹ ، مکاری اورنام نہاد قوانین کے رویے میںلاقانونیت کی قلعی کھول کر رکھ دی اور یہ بات روزروشن کی طرح عیاں کردی کہ سرمایہ دار جس منافع کواپنا حق جائز کمائی اور اپنی لیاقت ومحنت کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔ وہ کچھ نہیں صرف مزدوروں کی فاضل محنت کا استحصال ہے۔ مزدوروں کوان کی دن رات کی محنت کا صرف ایک معمولی سا حصہ دے کر یہ ظاہر کیاجاتاہے کہ ان کو پورے کام کا معاوضہ دیاگیاہے، نہ صرف اتنا ہوتاہے جوانہیں دوسرے دن پھر اپنی محنت فروخت کرنے کے قابل رکھ سکے کیونکہ مزدور کوزندہ رکھنا بھی سرمایہ دارکے لئے ضروری ہے ،مگر وہ صرف زندہ ہی رکھتاہے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضرورتوں کے لئے سرمایہ دارکے قدموں میں گرارہے۔ مزدورکو اپنی کی گئی محنت کا بڑا حصہ نہیں ملتا،وہی منافعوں کی شکل میں سرمایہ داری کی جیب اور تجوری میں چلاجاتاہے۔ سرمایہ دارووں کی حکومتیں اس لئے دھوکہ دہی اور فراڈ کی کمائی کاقانونی تحفظ کرتی ہیں۔ یہ مارکس اور اینگلس ہی تھے جنہوں نے دنیابھر کے مزدوروں کو جدوجہدکا راستہ بتایا۔ یوم مئی کو تحریف پسند اور سرمایہ دار پارٹیوں کی دم چھلا مزدور یونینیں بھی مناتی ہیں لیکن وہ اس دن کے پیغام میں انقلابی روح کو حذف کردیتی ہیں۔ مزدور طبقہ کو اقتصادیات پسندی تک محدود رکھتی ہیں۔ مزدوروں کے سیاسی شعور کو کند کرنا اور اُن میںالجھائو اور انتشار ڈالنا ہی ان کاکام ہوتاہے۔ یہ موقع پرستانہ سمجھوتہ بازی کے ذریعے فیصلہ کن مرحلہ پرمزدور تحریک کی پیٹھ میںچھرا گھونپتی ہیں۔ تحریف پسندوں کو بے نقاب کرنا بھی یوم مئی کے اہم فریضوں میں شامل ہے۔
رابطہ؛[email protected]