سرینگر//سپریم کورٹ میں جموںوکشمیر بحالی ایکٹ مجریہ 1982کیخلاف پنتھرس پارٹی کی جانب سے دائر عرضی کوزیر سماعت لاتے ہوئے سرکاری وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے فی الحال سماعت التواء میں رکھنے کا حکم صادر کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ ، جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس ایس کے کول شامل تھے ، نے ریاستی سرکار کے قانونی صلاحکار ایڈوکیٹ شعیب عالم کی جانب سے پیش کردہ دلائل بغور سنے ۔ایڈوکیٹ عالم نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ جموںوکشمیر بحالی ایکٹ مجریہ 1982 کیخلاف دائر عرضی پرمبنی کیس کی سماعت کو التواء میں رکھاجائے۔ خیال رہے کہ ریاستی اسمبلی میں 1982میں جموںوکشمیر بحالی ایکٹ مجریہ1982کو واضح اکثریت کیساتھ منظور کیاتھا اور اس قانون کے تحت 1947اور1954کے درمیان جموں وکشمیر سے پاکستان اور پاکستانی زیرانتظام کشمیر جاکر وہاں رہ رہے ریاستی باشندوں کو واپس اپنے آبائی علاقوں میں آکر بسنے کا حق فراہم کیاگیاہے ۔پنتھرس پارٹی کی جانب سے جمعرات کو سپریم کورٹ میں ایک یاددہانی عرضی دائر کی گئی ، جس میں بتایاگیا کہ جموںوکشمیر بحالی ایکٹ مجریہ1982کے سلسلے میں ہورہی سماعت کو جلد سے جلد مکمل کرکے اس کافیصلہ صادر کیاجائے۔ عرضی دہندہ نے اپنی عرضی میں اس بات کو اجاگر کیاہے کہ یہ معاملہ طویل وقت سے زیر التواء ہے اور اس پر فوری فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے ۔16اگست2016ء کو عدالت عظمیٰ نے پنتھرس پارٹی کی جانب سے دائر عرضی پر مبنی کیس کو زیر سماعت لاتے ہوئے کہاتھا کہ اگر ضرورت پڑی تو یہ معاملہ خصوصی آئینی بینچ کو بھیجاجائیگاجبکہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعتوں کے دوران یہ بھی رائے ظاہر کی تھی کہ اگر سماعت کے دوران ضرورت محسوس کی گئی اورکوئی آئینی اڑچن درپیش نہیں آئی تو اس معاملے میں ایک آرڈر جاری کیاجائیگا۔ پنتھرس پارٹی نے سپریم کورٹ کے ڈویژن بینچ پر 2008میں زور دیاتھاکہ اس کیس کے بارے میں فوری فیصلہ صادر کیاجائے لیکن تب کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے ایسے کسی بھی فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اس معاملے کو سہ رکنی ججوں کے بینچ کے پاس بھیجا تھا ۔ پنتھر س پارٹی کی مانگ ہے کہ 1947کے بعد ریاست جموںوکشمیر سے جولوگ پاکستان یا پاکستانی زیرانتظام کشمیر چلے گئے اور وہیں رہ رہے ہیں، اُن کو یہاں واپس آنے کی اجازت نہ دی جائے اورنہ ان کی اولاد کو واپس آکر ریاست جموںوکشمیر میں رہنے بسنے کاحق دیاجائے۔ پنتھرس پارٹی کا موقف رہاہے کہ 1982ء میں ریاستی اسمبلی کی جانب سے جموںوکشمیر بحالی ایکٹ مجریہ1982کو منظور کرنا دشمنانہ ، غیرآئینی اور غلط تھا۔ کیونکہ اس وجہ سے ریاست جموںوکشمیرمیں سیکورٹی خطرہ لاحق ہوسکتاہے ۔ پنتھرس پارٹی کے لیڈر اور سابق ممبر اسمبلی ہرش دیو سنگھ نے ریاستی اسمبلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی کے ذریعے چیلنج کیاہے اورانہوںنے یہ موقف اختیار کیاہے کہ اُس وقت کے گورنر بی کے نہرو نے ریاستی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ متعلقہ بل پردستخط نہیں کئے تھے اورانہوںنے یہ بل واپس اسمبلی کو بھیج دیاتھا۔ انہی دنوں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ، جو تب بھارتیہ جنتاپارٹی کے صدر تھے ، نے بھی سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی کی جانب سے جموںوکشمیر بحالی ایکٹ مجریہ1982سے متعلق بل کو منظور کئے جانے کے اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں ملک کے اعلیٰ ترین عدالت سے مداخلت کی اپیل کی تھی ۔ سال2001ء میں سپریم کورٹ کے ایک آئینی بینچ نے صدارتی ریفرنس پر مبنی مذکورہ بالائے ایکٹ کو زیر غور لایاتھا اورعدالت عظمیٰ نے تب تین باتوں کے ساتھ یہ بل صدر ہند کو بھیجا تھا، جس میں یہ وضاحت طلب کی گئی تھی کہ پاکستان اورپاکستانی زیرانتظام کشمیرمیں 1947ء کے بعد سے رہنے والے ریاستی باشندوں کی بحالی سے متعلق ریاستی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ بل میںواپسی ، عزت کیساتھ اوردیگر ایسے الفاظ کیوں لکھے گئے ہیں۔ جمعہ کے روز چیف جسٹس ،جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس ایس کے کول پرمشتمل دورکنی خصوصی بینچ نے پنتھرس پارٹی کی دائر کردہ عرضی پر مبنی کیس کی سماعت پر روک لگادی ۔