سرینگر// یہ کون سے انتخابات ہیں ؟ کیسے انتخابات ہیں؟ جن میں نہ کہیں جوش و خروش نہ گہما گہمی ہے۔پارلیمانی ضمنی انتخابی مہم سے متعلق اس وقت صرف اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر سخت گیر سیاسی بیان بازیاں ہو رہی ہیں باقی کسی جگہ کوئی شور شرابہ دیکھنے کو نہیں ملتا ۔مقامی سیاسی لیڈران اور ورکر خود یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر میں پارلیمانی ضمنی انتخابات کروانے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب یہاں حالات اس کیلئے بالکل بھی سازگار نہیں ہیں۔ 9اور 12اپریل کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جماعتوںنے اگرچہ اپنی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے ورکروں میں بے دلی زیادہ خوش دلی کم دکھائی دے رہی ہے۔ماضی میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ انتخابی ماحول کو گرما نے کیلئے چناوی نغموں کے ذریعے پرچار کیا جاتا تھا۔گاڑیوں کو انتخابات کیلئے کرائے پر لیا جاتا تھا اور ان پر پبلک ایڈرس سسٹم نصب کر کے دن بھر امیدواروں کے حق میں پرچار کیا جاتا تھا۔جبکہ دیہات میں خواتین امیدواروں کے حق میں گیت گایا کرتی تھیں ۔کہیں ایسا بھی ہوتا تھا جب کوئی سیاسی لیڈر کسی علاقے میں جاتا تھا تو وہاں ڈول بجائے جاتے تھے اور انتخابی جلسہ گاہ میں سیاسی جماعتوں کی لال، سرخ اور نیلی پیلی جھنڈیا ںلگی ہوتی تھیں اور ساتھ میں دیواروں پر پوسٹر بھی چسپاں ہوا کرتے تھے ۔ شہر کی گلیوں اور چوراہوں پر سیاسی جماعتوں کے کارکن کیمپ لگا کر اسپیکروں پر سیاسی گیت اور نغمے عوام کو سنایا کرتے تھے اور جذباتی سیاسی کارکن ان نغموں پر والہانہ رقص کیا کرتے تھے، لیکن اس مرتبہ صورت حال ماضی کے بالکل برعکس ہے اور عوامی رجحان بھی تبدیل ہوا نظر آرہا ہے ۔اس وقت وادی میں سب کچھ بدلا بدلا سا نظر آتا ہے۔آجکل کی انتخابی مہم صرف پارٹی ورکروں تک محدود رکھی گئی ہے۔1996میں جب وادی میں پر تشدد حالات اور بے شمار ہلاکتوں کیبعد انتخابات ہورہے تھے تو اس وقت بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال تھی، لیکن تب چناوی جلسے بھی کہیں کہیں ممکن ہوسکے اور گاڑیوں کے نمبرات چھپا کر امیدواروں کو ووٹ دینے کیلئے لوگوں کو متوجہ بھی کیا جاتا رہا، لیکن اب کی بار صورتحال یکسر مختلف ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے نہ کہیں پوسٹر دکھائی دیتے ہیں، نہ جھنڈے اور جھنڈیاں، نہ بینر نہ کہیں ڈھول بجتے ہیں نہ بانگڑا ہورہا ہے، نہ کہیں کسی پارٹی کا انتخابی آفس دکھائی دے رہا ہے اور نہ کہیں کھلے میدانوں میں عوامی جلسے منعقد کئے جارہے ہیں۔سڑکوں اور چوراہوں پر نہ کہیں چناوی میٹنگیں ہورہی ہیں اور نہ کسی امیدوار یا لیڈر پر بھول نچھاور کئے جارہے ہیں۔بیشتر سیاسی جماعتیں اس بات کا اعتراف کررہی ہیں کہ کشمیر وادی میں پچھلے 8ماہ سے حالات کو دیکھتے ہوئے انتخابات کرانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔کیونکہ جب کوئی پارٹی چناوی پرچار بھی نہیں کرسکتی، کسی جگہ امن سے جلسہ منعقد نہیں کرسکتی، ورکر اور عام لوگ کھلے زہن سے کسی جگہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار نہیں کرسکتے، میٹنگوں میں جانے کیلئے اپنے منہ چھپانے پڑیں تو اسے چنائو نہیں بلکہ چنائو کے نام پر ڈرامہ ہی کہا جاسکتاہے۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار وادی میں انتخابات کرانے کیلئے ماحول سازگار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2014میں جب یہاں اسمبلی انتخابات ہوئے تو یہاں پر لوگ انتخاب کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ وہ ابھی سیلاب کی مار جھیل رہے تھے لیکن اُس وقت بھی لوگوں پر انتخابات تھونپے گئے اور ایسا اس بار بھی کیا گیا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سرینگر نشست کے چنائو میں صرف چار دن باقی رہ گئے ہیں لیکن حالیہ بیس روز میں کہیں پر بھی چنائو کی گہما گہمی تو دور کی بات ہے چنائو ہونے کا عندیہ بھی نہیں ملا۔ایسی ہی صورتحال جنوبی کشمیر کی بھی ہے۔