’’عورت باپ بھی بن سکتی ہے ‘‘ آپ کو اس عنوان پر حیرانگی ہو گی لیکن مغرب میں یہ ڈسکشن جاری ہے کہ ایک عورت کا یہ بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی سکون اور اطمینان کے لیے سرجری کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کروا لے۔ اسے میڈیکل کی اصطلاح میں سیکس ری اسائنمنٹ سرجری (sex reassignment surgery) کہتے ہیں۔ باقی ڈیوڈ ریمر نے جنس تبدیل کروا کے ڈپریشن کے مارے خودکشی کر لی تھی تو خودکشی بھی تو اس کا بنیادی انسانی حق تھا نا۔ اس کی زندگی ہے، ہمیں کیا حق کہ مرے یا جیئے، مرد بن کر یا عورت ہو کر۔ ہمارے ہاں کے کندہ ٔ ناتراشوں کو ابھی یہی اعتراض ہے کہ عورت امام مسجد اور موذن کیوں نہیں بن رہی اور مغرب میں عورت، باپ بھی بن رہی ہے۔اسے کہتے ہیں ’’حقیقی مساوات‘‘۔ بس مرد کے برابر حقوق تو تبھی پورے مل سکتے ہیں نا جب عورت مرد ہی بن جائے۔ لبرل، سیکولر، ترقی پسند اور ماڈرن مسلمین سے گزارش ہے کہ عورت کو واقعی میں اگر برابر کے حقوق دینا چاہتے ہیں تو اسے باپ بنائیں، اب یہ بھی شنید ہے کہ مغرب میں ’’لبرل ‘‘عورت نے ماں بننے سے انکار کرنا شروع کر دیا ہے کہ اس کا یہ بنیادی حق ہے کہ بچہ جنے یا نہ جنے۔۔۔ اور اب آپ کو بچہ چاہیے تو چین کی گڑیا کو اس قابل بنانے پر ریسرچ کریں کہ آپ کا بچہ پیدا کر سکے۔ ویسے بھی مستقبل روبوٹس کا ہے، انسانوں کا نہیں۔عورت بچے بھی پیدا کرے، گھر سے نکل کر ملازمت بھی کرے، سیکورٹی فورسز میں بھرتی ہو کر میدان جنگ میں مرے بھی، اور مرد صاحب گھر بیٹھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے سگریٹ پھونکتے ہوئے یہ کہیں کہ ہم نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دے رکھے ہیں۔ یہ ہے عورت کے بارے مغربی بیانیے کا خلاصہ لیکن اب یہ بیانیہ کچھ سیانی عورتوں کی وجہ سے ان کو اُلٹ پڑنا شروع ہو گیا ہے اگرچہ عورتوں کی اکثریت کا حال اب بھی کسان کی بھینس کا سا ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک کسان کھیت میں بھینس کو جَوتے ہل چلا رہا تھا اور بیل ساتھ چھپر میں آرام سے بیٹھا تھا۔ کسی سیانے کا قریب سے گزر ہوا تو اس نے کسان سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ بھینس ہل چلا رہی ہے اور بیل کو تم نے چھپر تلے باندھ رکھا ہے۔ کسان نے کہا کہ یہ بھینس بی کا تعلق ’’وویمن رائٹ‘‘ کی تنظیم سے ہے، یہ شہر سے آئی ہے۔ اس کی سہیلیوں نے اسے کہا تھا کہ دیہات میں عورتوں کو حقوق نہیں ملتے ،لہٰذا تم نے پہلے دن ہی اپنے مالک کو جا کر یہ کہنا ہے کہ یہاں جو مردوں کے حقوق ہیں، وہ سب مجھے بھی ملیں گے،تو جب یہ میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے بیل کے حقوق مانگے تو میں نے کہا کہ بیل تو باہر جا کر کام کرتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ مجھے بھی ’’آزادی اور مساوات‘‘ چاہیے، میں بھی باہر جا کر کام کروں گی۔ میں نے کہا ٹھیک اور اسے ہل میں جوت دیا۔ اب بیل کے پاس کوئی کام نہ تھا تو اسے میں نے بھینس کی جگہ گھر بٹھا دیا۔ یہ ہے وویمز رائٹس کی کل حقیقت کہ حقوق کے نام پر ان سادہ لوح عورتوں کے گلوں میں مردوں نے اپنی ذمہ داریوں کے طوق بھی ڈال دئے اور انہیں یہ لولی پاپ دے رہے ہیں کہ تمہیں حقوق مل رہے ہیں۔