معراج زرگر
کائنات ایک کُتب خانہ ہے۔ ایک وسیع و عریض لامتناہی اور لامحدود پبلک لائیبریری۔ ہر ذی روح اس وسیع و عریض کتب خانے میں ایک کتاب کی طرح ہے اور ہر کتاب موضوع اور بناوٹ کے لحاظ سے شاندار اور معنی خیز۔ کوئی بھی شخص اگر اپنی اپنی کتاب کا کوئی بھی صفحہ پلٹ سکے تو وہ ہر ہر پنّے اور ہر سطر سے اپنی پہچان اور اپنے وجود کا احاطہ کر سکتا ہے۔ زندہ رہ کر گذارے ہوئے بے شمار پل جیسے بے شمار ابواب کی صورت میں نظر آئیں گے اور ہر ایک باب سے احساسات اور جذبات کا ایک خزانہ ہاتھ آئے گا۔ ہاں!اگر مردہ ہے تو پھر کھان پان، پینٹ شرٹ، پکنک شکنک ،گاڑی بنگلہ وغیرہ کے اشتہارات کے سواء اپنی کتاب کے اوراق پہ کچھ نہیں پائے گا۔
نوے کی دہائی کے آخری سال تھے۔ دسمبر یا جنوری کی سرد راتیں تھیں اور تقریباً رات کے آٹھ یا نو بج چکے تھے، باہر خوف کا عالم تھا۔ فوجی بنکروں سے وقفے وقفے سے سیٹیوں کی آوازیں دلوں پہ کسی بھاری بم کی طرح جیسے گررہی تھیں۔ ہم نے سارے گھر کی روشنیاں گل کی ہوئی تھی ،سوائے ایک کمرے کے جس میں سب لوگ بیٹھے تھے اور کمرے کی واحد کھڑکی کے شیشوں پر ایک کمبل چسپاں کی تھی تاکہ روشنی باہر نہ چھلک پڑے۔ اچانک باہر کسی نےآہنی گیٹ کو زور زور سے اور تابڑ توڑ بجانا شروع کیا۔ سارے گھر والے خوف سے زرد پڑ گئے۔ کیونکہ ان دنوں کے حالات کا کوئی بھی اندازہ کرکے اس بات کو خوب سمجھ سکتا ہے کہ رات کے وقت کسی کا یوں گیٹ بجانا کیا معنی رکھتا ہے۔ ہم سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر سہمے ہوئے دعائیں کرنے لگے کہ اللہ !آج تو بس خیر کرنا۔
گھر کے کسی بڑے نے ہمت کرکے اور ہاتھ میں ٹارچ یا لالٹین لیکر جب گیٹ کھولا تو اپنے ہی علاقے کی ایک عورت زبردستی اندر گھس آئی، جس کا دماغی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ اس عورت کا کبھی کبھی ہمارے گھر آنا جانا رہتا تھا اور کھانا وغیرہ کھانا سب ٹھیک تھا۔ مگر وہ کبھی کبھی اچانک رونا دھونا،اپنے رشتے داروں وغیرہ کو بد دعائیں دینا شروع کردیتی تھی اور جب اسے خاموش یا چپ رہنے کا کہا جاتا تو وہ اور زیادہ شور مچانا شروع کردیتی تھی۔ یہی وجہ تھی رات کے وقت انتہائی خوف کے عالم میں اس کا ہمارے گھر آنا کسی کو اچھا نہیں لگا۔ کھانا کھانے کے بعد جب اسے گھر والوں نے واپس جانے کا کہا تو وہ بالکل نہیں مانی اور عجیب طرح کا شور اور بد دعائیں دینے لگی۔ میں نے گھر والوں سے استدعا کی کہ اسے رات کے لئے رہنے دو۔ مگر اس کے واویلا کرنے کی وجہ سے گھر کے کسی بڑے نے اسے زبردستی نکالا اور گیٹ بند کردیا۔مجھے اس بات سے گہرا صدمہ لگا اور میں زار و قطار رونے لگا۔ سارے گھر والے مجھے چپ کرانے میں لگ گئے اور میں روئے جا رہا ہوں۔ کسی نے گیٹ کھول کر اس عورت کو ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی، مگر وہ جا چکی تھی۔ پھر میں نے خود کو کمرے میں بند کیا اور ساری رات روتا رہا۔ صبح طبیعت سنبھل گئی اور گھر والوں نے پیار سے اور اپنے طریقے سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی مگر دل پہ ایک شدید ضرب آچکی تھی۔
کچھ دن پہلے زندگی کی کتاب کا اچانک ایک اور ورق رقم کرنے کو ملا، دو صدیوں سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے بعد ایک ایسی ہی تمثیل سے واسطہ پڑا۔ ہوا یوں کہ ایک برخوردار نے فیس بک پر ایک پوسٹ ڈالی کہ اگر کسی ضرورتمند کو نییٹ کی کتابیں چاہئیں تو وہ مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے۔ میں نے فوراً اسے مسیج کیا کہ میں یتیم خانے لے جائوں گا تاکہ کسی ضرورت مند کے کام آسکیں۔ اگلے دن مجھے ایک طالبہ کا فون آیا اور اس نے پوچھا کہ کیا آپ ہی نے فلاں بھائی کو کتابیں لینے کا کہا تھا؟ تو میں نے ہاں بولا۔ اس طالبہ نے اپنا ایڈریس بتایا اور پوچھا کہ آپ کب آئیں گے۔ میں نے اسی دن شام کا آنے کو بولا۔
آفس سے سیدھے گھر آکر چائے پی تو اس طالبہ نے پھر سے مسیج کیا کہ میں کب آرہا ہوں؟ میں نے چھ بجے شام کا بولا اور اس نے بولا کہ ٹھیک ہے، پہنچ جائیے گا۔ میں اپنی اسکوٹی پہ اس طالبہ کے گائوں پہنچا جو تقریبا چار کلو میٹر دور ہے اور اس کو فون کرکے گھر کا پتا پوچھا۔ وہ معصوم باہر آئی اور میں اس کے ساتھ ان کے صحن تک آیا۔ گھر کے آ نگن میں ان کی والدہ، والد اور شاید چھوٹی بہن گھر کی صفائی کے کام میں مصروف نظر آئے۔ کچھ مستری لوگ کچن میں کوئی مرمت کا کام کر رہے تھے اور کچن اور گھر کا کافی سامان صحن میں ایک طرف پڑا ہوا تھا۔ ساتھ ہی کسی کپڑے کی شیٹ پہ کتابوں کا ایک انبار پڑا ہوا تھا۔ میں نے سب کو سلام کیا اور سب نے ایک روکھا سا جواب دیا۔ میں نے اس طالبہ سے پوچھا کہ اس کے لئے ایک بڑا سا بیگ چاہیے تھا اور اسکوٹی پہ یہ نہیں لادی جاسکتی۔ میں نے ٹرسٹ کے ڈرائیور کو فون کرکے بولا کہ آپ یہاں فلاں جگہ آجائو، کچھ کتابیں ہیں جو میں اسکوٹی پہ نہیں لاد سکتا۔اتنے میں اس طالبہ کی بہن نے دھیمے لہجے میں اپنی ماں سے مخاطب ہوکر بولا کہ اگر یہ کتابیں کسی دکاندار یا کسی دوسرے طالب علم کو دیتی تو نصف قیمت ہی وصول ہوجاتی۔ وہ طالبہ بے قرار سی دکھائی دینے لگی۔ میں اچانک چونک گیا۔ اتنے میںمذکورہ طالبہ کے والد نے مجھ سے پوچھا کہ آپ یہ کہاں لے جا رہے ہیں؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں یہ ایک یتیم خانے لے جا رہا ہوں، جہاں یہ مستحق بچیوں کے کام آئیں گی۔ اتنے میں مذکورہ طالبہ کی ماں نے مجھ سے کہا کہ ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم نے یہ کتابیں کس طرح خریدی ہیں۔ مذکورہ طالبہ اپنی ماں کے پاس چلی گئی اور اسے بے بسی اور پریشانی کے عالم میں کچھ سمجھانے لگی۔ میں نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مذکورہ طالبہ کے والد سے کہا کہ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہورہا ہے یا آپ کتابیں نہیں دینا چاہتے تو کوئی بات نہیں، میں چلا جائوں گا۔ طالبہ کے والد صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ آپ چلے جائیں، ہم ابھی یہ کتابیں نہیں دے سکتے۔ میں اطمینان سے وہاں سے نکل آیا اور ڈرائیور کو فون کرکے اُسے نہ آنے کا کہا۔
میں جب گھر آیا تو اس طالبہ نے مجھے کئی فون کئے تھے۔ میں نے واٹس ایپ چیک کیا تو اس معصوم طالبہ نے کئی مسیج کئے تھے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرکے مجھ سے معافیاں مانگ رہی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ بہت زیادہ رو رہی ہے اوراسے اس بات کا کافی دکھ ہو رہا ہے کہ گھر والوں نے اچھا نہیں کیا۔ وہ کتابیں ان کے گھر میں کسی کام کی نہیں ہیں اور اگر صدقہ کردی جاتی تو میرے ہی والدین کو ثواب ملتا۔ میں نے اسے اپنی طرف سے مطمئن کیا کہ مجھے نہ آپ سے کوئی شکایت ہے اور نہ آپ کے گھر والوں سے، اور یہ کہ اس کی نیت کے حساب سے اُسے اجر برابر ملے گا۔ میں نے اس طالبہ کو دلاسہ تو ضروردیا مگر میں جانتا ہوں کہ اس کے چھوٹے اور معصوم دل پہ کیا گذری ہوگی۔ ہم بحیثیت والدین، گھر کے بڑے، اساتذہ، اداروں کے ذمہ دار اور سماج میں کوئی حیثیت رکھنے والے اس بات سے انجان رہتے ہیں کہ نازک دلوں اور معصوم بچوں کے جذبات اور احساسات کی کس طرح حفاظت ضروری ہے اور ہماری جھوٹی اَنا اور بے جا اتھارٹی ایک معصوم کا یا ایک انسانی دل کا کیا ستیاناس کرسکتی ہے۔ ہم سب لوگ کتب خانہ جہاں کی کتابیں ہیں۔ اپنی کتابوں کو ڈرائونی اور بھیانک کہانیوں سے مت بھرئیے۔ کچھ صفحوں پہ پیار اور محبت کے گیت لکھنا بھی ضروری ہیں۔ کچھ پنوں پہ آڑھی ترچھی لکیروں سے ہنستی مسکراتی کچھ ٹیڑھی میڑھی ہی سہی، شکلیں بنانا بھی ضروری ہیں اور کچھ صفحوں پر رقص کرتے ہوئے انسانوں اور چہچہاتے ہوئے پرندوں کی تصویریں بنانا بھی ضروری ہیں۔