یہ سطور لکھے جانے تک کنٹرول لائین پر ہند پاک جھڑپوں کا نحوست آمیز اور خون آشام سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ۱۴؍فروری سے ۲۸ ؍ فروری تک ہماری رواں تاریخ نے جو کچھ دیکھا، وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ اس دوران چلچلاتی دھوپ میں صرف دوبار تازہ ہواکے جھونکے محسوس کئے گئے کہ جنہیں اگر لوگ امن وآشتی کی پہلی آہٹیں مانیں تو بات قرین عقل ہوگی ۔ ۲۷؍فروری سہ پہر کو بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے چین کے شہر ورژون میں روس اور چین کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں یہ مثبت پیغام دیا کہ نئی دلی اسلام آباد کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتی ، دوسری جانب ۲۸؍ فروری کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قومی اسمبلی میں پاکستان کی تحویل میں بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو جذبہ ٔ خیرسگالی سے اور پیغام ِامن کے طور رہا کر نے کا حکم دیا ۔ قبل ازیں ۲۷؍فروری کو ا سی روز جوابی کارروائی کر کے پاکستانی فضائیہ نے ایک گیم چینجر بن گئی تھی۔ اور ا س کارروائی کے بعد قوم کے نام اپنے مختصر خطاب میں عمران خان نے انڈیا کو براہ راست مخاطب کر کے دوبارہ امن مذاکرات کی پیش کش کی۔
ا سی روز جوابی کارروائی کر کے پاکستانی فضائیہ نے ایک گیم چینجر بن گئی تھی۔ فوجی ہواباز ابھی نندن کو جمعہ کی شام کو واگہہ بارڈر سے پاکستانی حکام نے بڑے وقار اور متانت کے ساتھ انڈیا کے حوالے کردیا۔ عالمی برادری نے اس اشارہ ٔ امن پر پاکستان کی تعریف وتوصیف کی اور توقع یہ کی جارہی تھی کہ اسلام آباد کی طرف شاخ ِزیتون پاکر بھارت حد متارکہ پر توپیں سرد کردے گا اور گولہ بارود کی بارشیں رُک جائیں گی مگر ابھی تک یہ خیال ومحال ہی دِکھ رہاہے ۔ حد متارکہ پر دوطرفہ گولہ باری جاری ہے اور نقصانات کا گراف بڑھ رہاہے ۔ دونوں طرفہ آتش وآہن سے سرحدی محافظین کا خون ہی نہیں بہہ رہاہے بلکہ سوئیلن افراد بھی بے موت مر رہے ہیں اور بستیاں مسمار ہورہی ہیں ۔ اس دھماکہ خیز صورت حال کے تعلق سے اقوام متحدہ، امریکہ ، چین، روس ، کینڈا،عرب ممالک اور دوسرے کئی دوست ممالک دلی اور اسلام آباد کوصبر وتحمل سے کام لینے کی فہمائش کر رہے ہیں ،انہیں متواتربتایا جارہاہے کہ فوراًسے پیش تر جھڑپیں اور حملے بند کر کے اپنے معاملات جنگ سے نہیں بلکہ گفت وشنید سے سلجھایں۔ انتہائی کشیدہ ماحول میںپاکستانی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بار بار حکومت ہند کوڈا ئیلاگ آفر اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ ان کی پیش کش عالمی رائے عامہ سے ہم آہنگ ہے ۔ سچ یہ ہے کہ عمران نے حالات مزید خراب نہ ہوں ،امن کا گفتار پورے سکون واطمینان سے جاری ر کھا ۔ ان کی زبان میں کوئی لکنت ہے نہ لب ولہجے میں کوئی جھنجلا ہٹ یا گھبراہٹ، وہ اپنی غیر جذباتی ہوکر اپنی سیاسی کپتانی کا بھرپور مظاہرہ کر تے جا رہے ہیں ۔فہم وفراست اور بقائے انسانیت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ بر صغیر میں جنگی جنون کو قطعی ہوا نہ ملے ،جوعناصر جنگ وجدل کی راگ الاپ کر اپنا سیاسی مفاد پرموٹ کر نے کی نیت سے چوتھی جنگ کی آگ بھڑکا رہے ہیں ،ان کی ایک بھی نہ سنی جائے۔ سوئے اتفاق سے اس تاثر کو زائل کر نے کے لئے کہ مودی سرکار جنگ سے انتخابی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، ابھی تک پاک وزیراعظم کی مذاکراتی پیش کش کا حکومت ہند نے نہ اشارتاً نہ کنایتاً مثبت جواب دیا ۔ لگتا ہے کہ مرکزی حکومت عمران خان کی امن کاوش کوخاطر میں لانا اپنے انتخابی مفادکے منافی ہی سمجھتی ہے، چنانچہ ابھی نندن کی رہائی پر بھی حکومت کا کڑا رُخ رہا اور بلا تکلف تاثر دیا گیا کہ یہ ہائی پروفائل رہائی نئی دلی کے دباؤ کا نتیجہ ہے ۔
ہند پاک محاذ آرائی کے حواس باختہ سلسلے پر عالمی برادری کو بجاطور تشویش ہے کیونکہ یہ دونوں ہمسایہ ملک ایٹمی قوت سے لیس ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ جنگ ہمیشہmiscalculation سے شروع ہوتی ہے اور تباکاریوں پر منتج ہوتی ہے، ایک مثبت سیاست کا غماز ہے ۔ تاریخ کے اسباق سے استدلال کرتے ہوئے اُن کی گفتنی سنجیدگی پر مبنی ہے ۔ مثلاً ہٹلر نے دوسری عالمی جنگ کے دوران طاقت کے نشے میں چُور ہوکر لٹے پٹے روس کو شکست فاش دینے کا عزم کیا مگر اُ س سے چُوک ہوئی اور نامہربان موسم نے آمر زماں کے ظن وتخمین کا قلعہ سر تاپا منہدم کیا ، وہ خود بھی اپنے غرور سمیت پاش پاش ہو کر رہا ، ویت نام میں امریکی جنگ کی طوالت نے بالآخرواشنگٹن سے دُھول چٹوائی، افغانستان میں سترہ سال سے امریکہ طالبان کے خلاف جنگ آزما رہا مگر اس کی یہ مہم بازی نقش برآب ثابت ہوئی اور آج صدر ٹرمپ کسی طرح اس دلدل سے امریکہ کو چھٹکارادلا نے کے لئے طالبان سے بات چیت اور پاکستان کی منتیں کررہے ہیں ۔ تاریخ کی ان مثالوں میں ہند پاک حکومتی قیادت کے لئے کئی سبق پنہاں ہیں ۔
ا س بار آر پار جنگ کا فوری محرک لیتہ پورہ پلوامہ کا خودکش حملہ بنا ۔ حملہ سی آر پی ایف کی ایک بڑی کانوائی پر ہوا جس میں ۴۹؍ اہل کار کام آئے۔ ۱۴؍ فروری کے اس فدائین حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ۔ اس کے ردعمل میں بیک وقت کئی چیزیں رونما ہوئیں: اول جموں اوردیگر ریاستوں میں کشمیری مسلم سٹوڈنٹس، کشمیری پھیری والوں ، کشمیری مزدوروں، کشمیری تاجروں، کشمیری بیماروں اور اُن کے تیمارداروں، کشمیر کے شدید سرما سے بچنے کے لئے دیار ِ غیر میں پناہ لینے والوں کی جان کے لالے پڑگئے ۔ دوم بھاجپا اور دیگر انتہا پسند گروپوں نے وار ہسٹریا پیدا کرتے ہوئے حملے کا انتقام پاکستان سے جنگ کر کے لیا جائے ۔ط اس پُر خطر آواز کو مزید تقویت دینے کے لئے حکومتی ہستیاں تک اپنے اپنے مفاد میں میدان میں کود گئیں، میگھالیہ کے گورنر بہادر نے ہندوستانی عوام کو نہ صرف کشمیری مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا مفت مشورہ دیا بلکہ دوسال تک امرناتھ یاترا پر نہ جا نے کا سجھاؤ بھی دے ڈالا۔ سوم کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر نے کے علاوہ اس کی لیڈرشپ اور عہدیداروں کو زینتِ زندان بنایا گیا ۔ اس سارے مخمصے میں سرکاری ا ور غیر سرکاری سطحوں پر جنگ جنگ جنگ چلّانے والے اتنے حاوی ہوگئے کہ کسی ایک کو بھی یہ نہ سوجھا کہیں یہ سب آنے والے انتخابات کامیدان مارنے کے لئے سی آرپی ایف اور عوام کے بلیدان کا ا ستحصال تو نہیں کیا جا رہاہے ۔ غور طلب ہے کہ اس شور شرابے کے بیچ بھارت کی اہل دانش کی آوازیں دب گئیں ۔ آج کی تاریخ میں وہ ا تنے بے دست وپا ہیں کہ اگر بالفرض محال وہ پلوامہ حملہ کے حوالے سے عمران خان کی actionable evidence پاکستان کو فراہم کر نے کی مخلصانہ صلاح دیں تاکہ پلوامہ میں اگر کوئی پاکستانی شہری ملوث پایاجائے اُسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے ، تو انہیں غدار قرار دینے میں ایک منٹ کا بھی وقفہ نہیں دیا جائے گا۔ عمران خان کی پیش کش کی اَن سنی کر کے پلوامہ حملے کے بارہ دن بعد۲۶؍ فروری کو جب برصغیر محوآرام تھا، بھارت کے کئی میراج بمبار طیارے ایل او سی پار کرکے بالا کوٹ (خیبر پختونخواہ) میں بھارتی دعوے کے مطابق جیش محمد کے تربیتی کیمپ کو تباہ کررہے تھے۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ اکیس منٹ تک’’ سرجیکل ٹو‘‘ نامی اس فضائی کارروائی میں تین سو عسکریت پسندابدی نیند سُلادئے گئے۔ پاکستان نے ان دعوؤں کو یکسر مسترد کر تے ہوئے کہا کہ بمباروں نے حدمتارکہ عبور کر کے تین چار منٹ تک ہوا میں گزارے اور جاتے جاتے کسی ویرانے میں بم پھینک کر واپسی کی راہ لی ۔ بالاکوٹ کی فضائی ایکشن سے پاکستان نے ایل اوسی کی خلاف ورزی پر نئی دلی سے زوردار احتجاج کیااور بلا کسی پس وپیش کے جوابی کارروائی ا پنی چوائس اور ٹائمنگ کے مطابق کرنے کا عندیہ دیا۔ اس کے اگلے ہی روز ۲۷؍ فروری کو پا کستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی سے بھارت کے دو فوجی طیارے مار گرا ئے گئے اور ایک انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو پاکستان کے زیر انتظام علاقے میں زندہ پکڑاگیا۔ اس کارروائی میں انڈین ائر فورس کا دوسرا طیارہ ضلع بڈگام میں دریند نامی گاؤں کے میدان میں گرکر تباہ ہوا۔کم نصیب طیارے کے دونوں پلائٹ، فضائیہ کے چار اہل کار اور ایک مقامی نوجوان۳۰؍سالہ نوجوان کفایت حسین موقع پر ہی دم توڑ بیٹھے۔ اپنی جوابی کارروائی کے کچھ ہی دیر بعد وزیراعظم پاکستان نے اپنی امن مذاکرات کی پیش کش کا اعادہ کیا اور پلوامہ تحقیقات میں تعاون دینے کا آفر دہرایا۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ عقل سے کام لیںکیونکہ وسیع پیمانے پر ہلاکت خیز ہتھیار جوہم دونوں ملکوں کے پاس ہیں ،کیاہمmiscalculation کر کے یہ اسلحہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرناafford کر سکتے ہیں؟ اور ایک بار جنگ چھڑ گئی تو اس پر قابو پانا نہ میرے بس میںاور نہ مودی کے ہاتھ میں ہوگا ۔ پاکستان کی فضائی کارروائی کے بعد فضائی حملے بند ہوئے مگر لائین آف کنٹرول پر دوطرفہ زمینی حملے برابر جاری ہیں ۔ تباہیوں کی یہ داستان کس تباہ کن موڑ پر ختم ہوگی ، اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ مودی سرکار چونکہ ایک دوماہ میں ہی پارلیمانی الیکشن کے وقت عوام کا سامنا کر رہی ہے ،اس لئے ناقدین کہتے ہیں کہ اس نازک گھڑی پر پلوامہ سانحہ کے تعلق سے اپناسارا زور جنگی جنون پیدا کرناایک الیکشن سٹنٹ ہے ۔ اگرچہ پہلے دن سے پاکستان پلوامہ واقعے پر اظہار تاسف کر تے ہوئے ا س میں اپنے کسی رول کی تردید کر رہاہے اور تجویز دے رہاہے کہ انڈیا اپنے ثبوت وشواہد اسلام آباد کو پیش کر ے تاکہ مبنی برحقیقت تحقیقات کی بنیاد پر اگر کسی پاکستانی شہری کو اس حملے میں ملوث پایاجائے تو اُس کے خلاف قرارواقعی ایکشن لیاجاسکے۔بھارت کی طرف سے اس تجویز کو قابل اعتناء نہ سمجھاگیا بلکہ صرف پاکستان سے بدلہ لینے کا راگ الا پا جاتا رہا ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کشمیر میں گزشتہ اٹھائیس سال سے قتل و خون اور بشری حقوق کی پامالیوں میں وردی پوشوں کا کلیدی کردار رہامگراس کےباوجود لیتہ پورہ پلوامہ کے فدائی حملے میں اتنے سارے متاثرہ سی آر پی والوں کی ہلاکت کادرد کشمیریوں نے انسانیت کے ناطے محسوس کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی کا سہاگ لٹ جانا ،کسی بچ یابچی کایتیم ہونا، کسی بزرگ کی لاٹھی ٹوٹ جانا ،کسی گھرانے کا کماؤ فرد کی دائمی مفارقت یا کسی خانوادے کا سکھ چین چھن جانا خود میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس حملے کے فوراً بعد بھارتی چینلزاور سوشل میڈیا کا کشمیریوں کے خلاف جذبات برانگیختہ کرنا اور جگہ جگہ انہیں ستانا، ماراپیٹنا ،دھمکانا اس بات پر دلالت کرتاہے کہ یہ صرف زندہ کشمیری قوم ہے جس کے خمیر میںا نسانیت کے تئیں پیار ہے۔ ٹیلی وی اینکرز نے جذباتیت اور منافقت کی خباثتیں اکھٹا کرکے ہر نہتے کشمیر ی کوایک دشمنِ جاں کی صورت میں پیش کر کے مشتعل لوگوں کو بلواسطہ یہ پیغام دیا کہ اگر دیش بھگتی ہے تو جس کشمیری پر ہاتھ پڑے اُس کی ہڈی پسلی ایک کردو،اُسے ہرقسم کا نقصان پہنچادو۔اب تاریخ کا ورق اُلٹ کر دیکھئے کہ کشمیریوں نے کس طرح ہمیشہ دھرم اور جاتی کے نام پر بھید بھاؤ سے اُوپر اُٹھ کر ہر بھارتی سیاح کا استقبال خندہ پیشانی سے کیا، ہر یاتری کو سر آنکھوں پر بٹھایا، ہر بہاری، بنگالی ، پنجابی مزدور اور کاریگر کو گھر میں کھلایا پلایا مگر اس کے جواب میں انہیں کیا ملا؟ وہ ایک کھلی کتاب ہے ۔ پاک فوج نے اسی روایت کے عین مطابق اپنی سرزمین پر پکڑے گئے بھارتی فضائیہ کے پائیلاٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کے ساتھ مہان نوازی اور حسن سلوک سے پیش آئے جب کہ راجستھان کے جیل میں پاکستانی قیدی شاکر اللہ کو ۲۱؍ فروری کو پتھر مار مار کر جان بحق کیا گیا ۔ یہ شخص ۱۷؍ سال قبل راستہ بھٹک کر اس پار غلطی سے آیاتھا اور پکڑا گیا ۔خیر یہ تلخ حقیقت نظر انداز کر نا شتر مرغ کی چال چلنے کے برابر ہے کہ کشمیر حل کئے بغیر وادی میں مزیدخون خرابہ نہ ہو ، یا انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیاں بند ہوں ، یا ہند پاک فوجی ٹکراؤ سے مستقبل میںدشت وجبل میں انسانی جانوں کا اتلاف نہ ہو۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیری نمائندوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کا ایسا قابل قبول اور منصفانہ ودیرپا حل نکا لیں تا کہ یہ خطہ مزید کسی تباہ کن اتفاقی حادثے یا بدترین انسانی المیے سے بچ سکے۔ حالیہ جنگی جنوں اورزمینی حقائق بھارتی حکام اور قومی رہنمائوں کے لئے بھی نہایت سبق آموز ہیں کہ جب تک وہ کشمیر مسئلہ کو ووٹ بنک سیاست کی عینک سے دیکھیں گے اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو اپنی ہر مصیبت اور ہر ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے،اُن کے ہاتھ میںقوم سے غربت، جہالت اور بیماری کھدیڑنے کے لئے کچھ بھی نہ بچے گا کیونکہ اسے قوم کا ساراسرمایہ مغرب کی اسلحہ ساز کمپنیوں اور امبانی جیسے اُن کے مقامی دلالوں اور ٹھیکیداروں کی تجوریاں بھرنا پڑے گی ۔ اس بات کو نہ صرف بھارت کے دانش ور اور اعتدال نواز حلقے محسوس کرتے ہیں بلکہ دوست ممالک میں بھی اس ٹھوس حقیقت سے باخبر ہیں۔یہ ایک قابل تردید حقیقت ہے کہ جموں کشمیر واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے جس کو دفعہ 370 اور 35Aکے تحت حاصل شدہ اختیارات پر کئی عناصر کی میلی آنکھیں روزاول سے ٹکی ہوئی ہیں ۔آج جب یہ عناصر کشمیر کے زخم کو سہلانے کے بجائے ریاست کی پہلے ہی کمزور کی گئی خصوصی پوزیشن بھی آئین ہند سے حذف کرنے کی بے ہودہ کوششیں کریں تو ردعمل میں کشمیر یوں کا احساس بیگانگی کیوں نہ تقویت پائے؟ بھارتی عوام کو سمجھناہوگا کہ کشمیر یا پاکستان اُن کا دشمن نہیں بلکہ ان کے دشمن اصلاًوہ مطلبی سیاست دان ہیں جو دیش بھگتی اور قومی ایکتا واکھنڈتا کے نام پر محض فرقہ وارانہ منافرت و کدورت سے اپنا سیاسی اُ لو سیدھا کرتے ہیں ۔ ا س لئے اگربھارتی عوام واقعی اچھے دن کی آمد کے منتظر ہیںتواُنہیں ا س بار ہوش کے ناخن لے کر اپناقیمتی ووٹ صرف اس کو دینا چاہیے جو اپنی کرسی اوروں کے بلیدان پر کھڑا نہیںکرتا اور جو وشال دیش کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر کوامن ، سلامتی ، خوش حالی، تعمیر وترقی، بقائے باہم ، بھائی چارے اور عوامی بھلائی کا پیامی بنے ، جو کشمیر کے جنجال سے چھٹکارا پانے کے لئے ہندپاک مذاکرات کامعمار بنے۔ بصورت دیگر کرسی کے بھوکے ، پتھردل اور خود غرض سیاست دان نما سوداگر انڈیا اور پاکستان کو مستقل دشمنی کے اندھے کنویں میں پھینک دینے میں کامیاب ہوں گے ، بھلے ہی ایسا کر تے ہوئے یہ برصغیر کو نیوکلیائی جنگ کی آگ میں بھسم کر کے ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی بدتر خطہ بنا کر تاریخ کو صدیوں رُلائیں ۔