’’بیٹے۔۔۔اک بار میری بات مان لے، کامیاب رہے گا۔میرے چار بیٹوں میںتو سب سے زیادہ ضدی ہے۔ضدی آدمی اکثر پریشان رہتاہے۔اب کی بار یہ تمہارا تیرہواں انٹرویو ہے۔یہ رشی ، منیوںاور پیغمبروں کا زمانہ نہیں ہے بلکہ آج کل کے دور میںتو ہرچیز اور ہر معاملہ بازاری ہو گیا ہے۔تو کئی برسوںسے اپنی ذہانت،محنت، صلاحیت اورقابلیت کی بنیاد پر اپنا مقام ومرتبہ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ہر بار رشوت اور سفارش سے نالائق قسم کے لوگ اونچے عہدوں پہ فائز ہوجاتے ہیںلہذا اس بار میری بات مان لیــ‘‘
عادل کے ماتھے پہ اپنے باپ قمرالدین کی باتیں سن کرشکنیں سی ابھرآئیں۔باپ کے ادب واحترام کا خیال رکھتے ہوئے وہ بولا
’’پاپا۔۔۔کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔مجھے اللہ پہ کامل بھروسہ ہے کہ ایک دن ضرورمجھے میرا حق اللہ دلا دے گا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘
قمر الدین اپنے بیٹے کی باتیں سن کر رنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پشیماں بھی ہوئے۔ان سے چپ نہیں رہاگیاکہنے لگے’’ارے بیٹے اس طرح تجھے سرکاری نوکری ملنے سے رہی ۔تیری شادی کی عمرنکلتی جارہی ہے اور تو عجیب قسم کی امید لگائے بیٹھا ہے۔میں تیری سرکاری ملازمت کے لئے بینک سے سات لاکھ روپے قرض لے سکتا ہوں۔مگر تو روپے دے کرملازمت خریدنے کے لیے تیار تو ہو‘‘
’’پاپا۔۔۔بالکل نہیں ،میں کسی بھی صورت میںیہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں‘‘
عادل یہ کہتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا۔اس کے دوست باہر کھٹرے اس کا انتظار کر رہے تھے۔وہ ہر روز چار بجے کے بعدان کے ساتھ شہر کے اسٹیدیم میں کھیلنے جاتا تھا۔وہ نہایت ذہین اور محنتی تھا۔انفارمیشن ٹکنالوجی میںپی ایچ ڈی کے علاوہ نیٹ اور جے آر ایف کے امتحانات پاس کر چکا تھا۔دس کتابوں کا مصنف تھا۔امریکہ اور جرمنی میںاس کی کتابوںپہ ریسرچ ہورہی تھی۔متوسط گھرانے سے اس کا تعلق تھا۔عادل کے والد قمر الدین ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے رٹائر ہوچکے تھے۔عادل کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔تینوں بھائی سرکاری ملازم تھے اور بہنیں گریجویشن کر چکی تھیں۔عادل ملازمت کے لیے پریشان تھا اور اس کے ابا اس سے اس بات پہ نالاں تھے کہ وہ وقت اور حالات کی نبض نہیں پہچانتا ہے۔اب کی بار اس نے پھر ایک یونیورسٹی کے شعبئہ انفارمیشن ٹکنالوجی میں اسسٹینٹ پروفیسر کی پوسٹ کے لیے فارم بھرا تھا۔انٹرویو کارڈ گھر میں آچکا تھا۔اس میں ضروری ہدایات کے علاوہ انٹرویو کی تاریخ، وقت اور مقام درج تھا، جہاں انٹرویو منعقد ہورہے تھے۔ عادل دن دونی رات چگنی محنت کررہا تھا۔انٹرویو سے دو دن پہلے اس کے دل ودماغ پہ محنت،مقدر اور رشوت کی عجیب کشمکش سوارہوئی۔ انسان کو ڈھنگ طریقے اور ا صول و ضابطوں کے مطابق جیناآئے تو زندگی ایک سہانا سفر بن جاتی ہے اورجب فطری ضابطوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انسان دنیا میں جیتا ہے تو پریشان رہتا ہے۔عادل اصول پرست تھا۔وقتی طورپر اگرچہ وہ سرکاری ملازمت کے لیے پریشان تھا لیکن اس کا دل بہت حد تک مطمین بھی تھا۔وہ یہ جانتا تھا کہ عیاری،مکاری،غداری اورفریب کاری کی عمر لمبی نہیں ہوتی ہے۔اس نے سن رکھا تھا کہ جس یونیورسٹی میں وہ اسسٹنٹ پروفیسری کا انٹرویو دینے جا رہا ہے ،اس یونیورسٹی کا شیح الجامعہ نہایت ایماندار، نیک سیرت ،خوش اخلاق اور عدل و انصاف کا مالک ہے۔عادل نے اپنے تمام تعلیمی دستاویزات،اپنی تصانیف،انعامات واعزازات کی ایک طویل فہرست کو ترتیب سے رکھا اور دوسرے دن انٹرویو دینے چلا گیا۔امیدواروں کی ایک خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔ سبجیکٹ کے ماہرین کس امیدوارسے کیا کچھ سوالات پوچھیں گے،ہر امیدوار اسی تشویش میں تھااور جب کوئی امیدوارانٹرویو ہال سے باہر آتاتو بقیہ امیدوار اس کے اردگرد جمع ہوجاتے ۔ وہ اپنا حال بیان کرتا کچھ کو تسلی ہوتی اور کچھ پریشان ہوجاتے۔جب عادل کا نمبر آیا تووہ خدا کا نام لے کرانٹرویو ہال میں داخل ہوا۔شیخ الجامعہ ایک پر وقار ا ور متین شخصیت معلوم ہورہے تھے۔سبجیکٹ ماہرین کے علاوہ گورنر کی جانب سے بھی ایک مشاہدہ کار موجود تھا۔پچاس منٹ تک عادل کا انٹرویو ہوا۔سبجیکٹ ماہرین شکل و صورت اور طرز تکلم سے مومنانہ معلوم ہورہے تھے۔اس سے مشکل ترین سوالات پوچھے گئے ، جن کا اس نے تسلی بخش جوا ب دیا ۔اسکی ذہانت،قابلیت اورعلمی استعداد سے تمام سلیکشن کمیٹی کے ممبران حیران اور مطمین ہوئے۔کچھ دن کے بعد عادل کو یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ اسکا سلیکشن ہوچکا ہے۔ و ہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمایا۔ یہ اسکی زندگی کا سب سے بڑا خوشی کا دن تھا۔پورے خاندان کے لوگوں نے اسے مبارک باد دینے کے ساتھ اس کا منہ میٹھاکروایا ۔موبائل فون،واٹس ایپ اور فیس بک پہ اسکے کئی دوست و احباب نے اس کی کامیابی پہ خوشی کا اظہار کیا ۔پھر جس دن اسے آرڈر موصول ہوا تو اس کی ماں ہنستی مسکراتی ہوئی اس سے جھپٹ کے گلے ملی ،لیکن عادل اس خوشی کے موقعے پہ رو اٹھا۔ماں اپنے لخت جگر کے آنسودیکھ کر متحیرکن لہجے میںپوچھنے لگی
’’میرے جگر پارے۔۔۔میری آنکھوں کے تارے ، رونا کس بات کا؟ یہ خوشی اور یہ آنسو۔آخر کس بات پہ رونا آیا؟‘‘ا تنے میں گھر کے تمام افراد ا ٓ کے عادل کے آس پاس ششدر سے کھٹرے ہو گئے۔سب حیران عادل کو ٹکٹکی لگائے دیکھنے لگے۔جب سب نے باری باری عادل سے اسکے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا
’’مجھے اس بات پہ رونا آرہاہے کہ اس دنیا کے انٹرویو کے لیے مجھے کتنی مغز ماری کرنی پڑی۔میں نے راتوں کی نیند حرام کی۔انٹر ویو ہال میں جانے سے پہلے مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ مجھ سے کیا کچھ سوالات پوچھے جائیں گے۔انٹرویوکس تاریخ کو ہے اور کہاں ہے یہ تو انٹرویو کارڈ پہ درج تھا ،لیکن مجھ سے کیا کچھ سوالات پوچھے جائیں گے، یہ نہیں لکھا تھا۔یہ سوچ کے بھی روناآیا کہ مرنے کے بعدقبر میں جو انٹرویو شروع ہوگا وہ سوالات سب کو معلوم ہیںکہ جب فرشتے مجھ سے پوچھیں گے بتا تیرارب کون ہے؟تیرا دین کیا ہے؟اور تیرا نبی کون ہے؟لیکن قبر کے انٹرویو کا وقت اور مقام کسی کو معلوم نہیں۔مجھے قبر کی وحشت اور تاریکی یاد آئی۔فرشتے یاد آئے۔دنیا اور آخرت کا انٹرویو یا دآیا۔ان تمام باتوں نے میرے اندرون کو ہلا کے رکھ دیا ‘‘
عادل کی باتیں سن کرسب کے چہروں پہ مایوسی چھا گئی اورہر ایک کو اپنی قبر کا انٹر ویو یادآگیا۔
رابطہ؛ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛9419336120