نئی دلی کی طرف سے جموں کشمیر میں جنگجوئوں کے خلاف یکطرفہ طور سے آپریشن بند کرنے کے اعلان کی خبرابھی لوگوں تک پوری طرح پہنچ بھی نہیں پائی تھی کہ ریاستی پولیس کے سربراہ ایس پی وید نے یہ کہہ کر غبارے سے ہوا نکال دی کہ جنگجوئوں کو مرکز کی پیش کش کا خیر مقدم کرکے اپنے گھروں کو واپس آنا چاہئے ۔ جہاں سیز فائر کے اعلان کے بعد چند لمحوںکیلئے یہ امید بندھی تھی کہ شائد نئی دلی جموں کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے اب کی بار سنجیدگی کا مظاہری کر سکتی ہے وہاں اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں خاص طور سے جموں کشمیر پولیس اس اہم پیش رفت کو اپنے حقیر ذاتی مفادات کیلئے سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ جموں کشمیر پولیس میں اچھے لوگوں کی کمی ہے لیکن بد قسمتی سے پولیس کے اندر ایک ایسا استحصالی طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو نہ صرف نئی دلی کو ریاست کے حالات کو لیکر اکثر اوقات بلیک میل کرتا آیا ہے بلکہ اپنے ہی لوگوں کو انتہائی بے شرمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ۔ ایسے پولیس افسرو ں کی تعداد درجنوں میں ہوگی جنہیں صرف بے گناہ کشمیریوں کو عسکریت پسند کہہ کر موت کے گھاٹ اتارنے کے عوض انعامات سے نواز کر ترقیاں دی گئیں اور اگر یہاں ملی ٹینسی نہ ہوتی تو شائد یہ لوگ سب انسپکٹر کے عہدے تک بھی نہ پہنچ پاتے ۔ اتنا ہی نہیں عسکریت پسندی سے نپٹنے کے نام پر ان لوگوں نے کروڑوں کی جائیدادیں ریاست کے اندر اور باہر بنائی ہیں اور فی الحال نئی دلی کیلئے مفتی اور شیخ خاندان سے زیادہ اگر کسی کی جموں کشمیر میں اہمیت ہے تو وہ وردی پہنے اُن افسروں کی ہے جو کشمیر میں اپنے ہی ہم مذہب اور ہم نسل لوگوں کی نسل کشی کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہے ہیں ۔ خیر یہ دیکھنا مرکزی سرکار کا کام ہے کہ وہ اپنی اعتباریت قائم رکھنے کیلئے وردی پوش کالی بھیڑوں کو لگام دے اور انہیں ایسا کچھ بھی نہ کرنے دے جس سے مرکز کی طرف سے یکطرفہ جنگبندی کا سارا عمل دھڑام سے نیچے آ سکتا ہے ۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر جوں توں کرکے فی الحال تمام فریقین سیز فائر کا احترام کرتے ہیں تو ایک ماہ کی جنگبندی کے بعد آگے کیا ہوگا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیز فائر کا اعلان کرکے مرکزی سرکار نے عسکریت پسندوں کی طاقت اور حیثیت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ وہ لوگ جو عسکریت پسندوں کو چھوٹے بچے اور دہشتگرد کہہ کر بے رحمی کے ساتھ جان سے مارتے آ رہے تھے اب ان کی سوچ کے آگے ہاتھ کھڑا کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ یہ فیصلہ کرنا عسکری قیادت کا کام ہے کہ وہ نئی دلی کی پیشکش کا کس طرح اور کس انداز سے جواب دے۔ چاہے عسکریت پسند جنگبندی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں یا پھر اس کا جواب مثبت میں دیتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ انفرادی حیثیت سے نہیں بلکہ اجتماعی طور سے رد عمل اپنا سامنے رکھیں تاکہ نہ تو لوگو ں میں انتشار پیدا ہو اور ساتھ ہی ان کی طاقت اور باہمی اتحاد کا بھی مظاہر ہ ہو سکے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئی دلی کے خلوص پر انگلیاں اٹھانا عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ عام کشمیریوں کیلئے ناگزیر ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ کشمیریوں کے پاس نئی دلی کو اپنی بات منوانے کا فی الحال کوئی دوسرا معتبر اور موثر ذریعہ نہیں ہے ۔ بد قسمتی سے نئی دلی کی طرف سے ماضی میں اٹھائے گئے سارے اقدامات انجام کار فلاپ شو ثابت ہوئے ۔ میر واعظ کی نئی دلی سے بات چیت ، جے کے ایل ایف کا عسکریت کے بجائے سیاسی میدان کو ترجیح دینا ، پانچ عسکری کمانڈروں کی مرکز سے بات چیت ، اسمبلی کی اٹانومی قرار داد کا حشر اور بہت سارے اہم معاملات کا عبرتناک انجام ہر ایک کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کیلئے مجبور کرتا ہے ۔ بیشک نئی دلی کی طرف سے جنگبندی کا یکطرفہ اعلان مثبت فیصلہ ہے لیکن تب تک اس پیشکش کا کوئی فائدہ نہیں جب تک نہ نئی دلی مسئلہ کے دائمی حل کیلئے مزید سنجیدہ اقدامات اٹھائے ۔ کشمیریوں کی جد و جہد سیز فائر کیلئے نہیں بلکہ کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے ہے ۔ ایسے میں ریاستی پولیس سربراہ سمیت دیگر لوگوں کی یہ لنترانیاں کہ عسکریت پسند ہتھیار چھوڑ کر مین اسٹریم میں آئیں نہ صرف انہیں اکسانے کے عمل کے مترادف ہے بلکہ ایسا کہہ کر کشمیریوں کے زخموں پر بھر پور نمک پاشی کی جا رہی ہے ۔ متحدہ جہاد کونسل کی قیادت کا جو بھی رد عمل جنگبندی کے حوالے سے سامنے آ رہا ہے اس سے اتفاق اور اختلاف رکھنے کی کافی گنجائش موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نئی دلی صرف جنگبندی کی پیش کش کرکے خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہتی ہے یا پھر اسے باقی یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ جموں کشمیر کا تنازعہ پورے بر صغیر کیلئے ناسور سے بھی بدتر ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست آمد سے صرف دو دن قبل جنگبندی کا اعلان بلا شبہ کچھ لوگو ں کی خوش فہمی کیلئے سامان فراہم کر سکتا ہے ۔ اگر واقعی نئی دلی کے قول اور فعل میں تضاد نہ ہو تو وزیر اعظم کو چاہئے کہ سرینگر سے کشمیریوں اور پاکستا ن کی طرف دوستی کا واضح ہاتھ بڑھا کر بر صغیر میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی طرف پہل کریں ۔ اگر نریندر مودی سرینگر کے ایس کے آئی سی سی سے حریت اور یو جے سی کو مذاکرات کی بلا شرط دعوت دیتے ہیں تو نہ صرف عسکری جماعتوں بلکہ حریت کیلئے بھی ان کی پیشکش کو مسترد کرنا کافی حد تک مشکل ہو جائے گا۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہے اگر نریندر مودی سٹیٹس مین کی طرح ذاتی اور پارٹی مفادات سے اوپر اٹھ کر معاملے کو صرف اور صرف انسانی اور تواریخی عینک سے دیکھنے کی کوشش کریں ۔ ایک ایسے نازک مرحلے پر جب نئی دلی نے کشمیریوں کی قیادت کو سیز فائر کے نام پر مخمصے میں ڈالدیا ہے عسکری اور سیاسی قیادت دونوں پر لازم ہے کہ وہ ہر چیز اور ہر زاوئیہ پر غور سے سوچ وچار کریں کیونکہ بال فی الحال کشمیریوں کے کورٹ میں ہے اور ساتھ ہی زمین پر کشمیریوں کا ہی گرم گرم لہو گر رہا ہے اور واقعی خلوص کی بنیاد پر سیز فائر معرض وجود میں آتا ہے تو اس کا فوری فائدہ کشمیریوں کو ہی ہوگا ۔ یہ بات ہم سب کو سمجھنی ہوگی کہ شائد صرف بندوق کے بل پر ہم حق اور انصا ف کی اس لڑائی کو جیتا نہیں جا سکتا اور مذاکرات کی میز سے فرار بھی کشمیریوں کیلئے ممکن نہیں ۔ تاہم امن کی ضرورت صرف کشمیریوں کو نہیں بلکہ ا ن سے زیادہ نئی دلی کو کشمیر مسئلہ کے حل کے فوائد مل سکتے ہیں ۔ جہاں ایک طرف بدلتے عالمی حالات میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دشمنیاں مٹا رہے ہیں اور چین اس پورے خطہ میں اپنا اثر و نفوز پوری طرح بڑھا رہا ہے ایسے میں ہندوستان بلا وجہ اور بیک وقت پاکستان ، چین اور روس کی دشمنی مول نہیں لے سکتا ۔ عین ممکن ہے کہ پردے کے پیچھے کئی خفیہ بڑی طاقتیں ہندوستان اور پاکستا ن کو کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوں کیونکہ بین الاقوامی منظر نامہ میں کشمیر مخلتف مسائل میں سے ایک مسئلہ تو ہو سکتا ہے اور سب کچھ نہیں ۔کشمیریوں کی قیادت کو جہاں اپنی قربانیوں کا خیال رکھنا ہوگا وہاں لازم ہے کہ وہ اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ پاکستان ہمیشہ اپنے وجود اور اپنے مفادات کو مسئلہ کشمیر کی خاطر دائو پر نہیں لگا سکتا ۔ ایسے میں کشمیری قیادت تدبر سے کام نہ لے تو خود کشمیری ہر طرف سے دشمنوں کے گھیرے میں گرے گی ۔قیادت کو چاہئے کہ وہ جہاں ہندوستان کی ماضی کی وعدہ خلافیوں کو بھی مد نظر نہ رکھے وہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ کہیں ہندوستان خود کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے کشمیریوں کے گرد ایسا جال پھیلا رہا ہو جس کا شکار ہر حال میں کشمیریوں کو ہی ہونا ہے ۔ سیاسی اور عسکری قیادت اگر چاہے تو اس نازک ترین موڑ پر اپنی سوجھ بوجھ سے حالات کا رخ اپنی طرف پھیر کر کشمیر مسئلہ کے دائمی حل کیلئے تمام فریقین کو پیش رفت کرنے کیلئے مجبور کر سکتی ہے ۔