قانون 70 سال پرانا ہے، عمل کے لئے محکمہ بھی ہے لیکن لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ناک کے نیچے لاکھوں کم سنوں کا استحصال ہورہاہے۔ ہر سال یکم مئی کو پوری دْنیا میں مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے۔1917میں روسی انقلاب کے بعد جب کئی یورپی ممالک میں کیمونسٹ حکومتیں قائم ہوئیں، اور سوشلٹ و کمیونسٹ نظریات نے پوری دنیا کو متاثر کردیا، تو مزدوروں کو علم ہوا کہ وہ بھی انسان ہیں اور ان کے بھی حقوق ہیں اور یہ کہ وہ بھی ان حقوق کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔1886 میںیکم مئی کے روز امریکہ کے 13ہزار کارخانوں سے3 لاکھ مزدور اور دوسرے ورکرس نے استحصال کے خلاف احتجاج کیا۔تب سے پوری دنیا میں ٹریڈ یونین اور مزدوروں کی دوسری انجمنیں ’مے ڈے‘ یعنی یوم مئی مناتی ہیں۔’مے ڈے‘ کے حوالے سے ہی ریاض ملک نے کئی ایسے نوجوانوں کے ساتھ بات کی جو مناسب مواقع کی عدم موجودگی میں استحصال کی بھٹی میں برسوں سے پک رہے ہیں۔فکر ِمعاش میں کپوارہ سے سرینگر آئے 22سالہ محمد سلیم ڈلگیٹ کے ایک ہوٹل میں ویٹر بھی ہیں ،خاکروب بھی او ر چوکیدار بھی۔کپوارہ سے نکلنے پر سلیم نے حسین خواب سجائے تھے، اسے یقین تھا کہ شہرمیں کام کرکے وہ ایک نئی دنیا بسائے گا۔لیکن نہ بہتر روزگار ملا اور نہ ہی مناسب اْجرت۔سلیم کہتے ہیں: ’’اسی ہوٹل میں 2سال سے ہوں ،پانچ ا?دمی کا کام کرتا ہوں، میں ا?ل اِن ون ہوں، لیکن تنخواہ صرف6ہزار روپے ملتی ہے۔ نہ گھر کا گزارا چل پاتا ہے اور نہ ہی اپنے خرچے پورے ہورہے ہیں‘‘۔لیبر قوانین سے بے خبر سلیم کو ہفتہ وار چھٹیاں ملتی ہیں اور نہ سی پی فنڈ کا ہی اسے کوئی علم ہیں۔وہ کہتے ہیں:’’میں تو24گھنٹے ڈیوٹی پر ہی ہوتا ہے۔آرام کا کوئی تصور نہیں ہے اور جب مالک سے کہوں کہ مجھے گھر جانا ہے تو پھر ان کا غصہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ہفتے کی چھٹیاں تو دور کی بات ہے،مجھے تو مہینے کی چھٹیاں بھی نہیں ملتیں‘‘۔اگر اتنی سختی ہے تو کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ ،’’کیسے چھوڑ دوں۔غریب گھر کا ہوں ،کام چھوڑوں گا تو گھر میں سب فاقہ مریں گے ،اس لئے برداشت کررہا ہوں تاکہ کم از کم گھر میں ماں باپ اور بھائی بہن کو دو وقت کی روٹی میں دے سکوں‘‘۔سرینگر کے مضافاتی علاقہ ناربل کا ایک نوجوان بھی کپوارہ کے سلیم کی طرح ہی غربت اور بے روزگاری کا ستایا ہے۔ لالچوک کے ایک بڑے شوروم میں سیلز مین کی حیثیت سے کام کررہا ہے۔اس سے بات کیجئے تو وہ کچھ نہیں بولتا ، اپنا نام تک نہیں بول پاتا۔اس کے چہرے پر عجیب سی مایوسی ہے۔ مالک کو سامنے دیکھ کر اْس کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ کچھ کہہ پائے لیکن اشاروں میں اْس نے سمجھا دیا کہ اگر اْس نے زبان کھولی تو اْس کی نوکری سمجھو گئی۔ وہ صرف اتنا کہہ پایا: ’’ہمیں چھٹیاں نہیں ملتیں ،دو دن گھر جاتے ہیں تو واپس بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر وقت پر نہیں پہنچے تو نوکری سے نکال دئے جائو گے‘‘۔ ریذیڈنسی روڑ سرینگر پرجوتے کی ایک دکان پر ایک خوب رو سیلز مین سے جب بات کرنے کی کوشش کی گئی تو اْس نے مجھے دکان سے باہر نکال کر کہا کہ اندر بات نہیں ہوسکتی تھی۔مزمل گریجویٹ ہے اور سرکاری سیکٹر میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے سیلز مین بننے پر مجبور ہوا ہے۔مزمل کا کہناتھا: ’’میں پڑھا لکھا نوجوا ن ہوں ،لیبر قوانین اور اپنے حقوق سے واقف ہوں لیکن بات نہیں کرسکتا کیونکہ پھر چھٹی ہوگی ،اسی لئے خاموشی کے ساتھ اپنے مالک کا حکم بجا لاتا ہوں، روزانہ 10سے12گھنٹے کام کرتا ہوں حالانکہ لیبر قوانین صرف8گھنٹہ کام کرانے کی اجازت دیتے ہیں‘‘۔مزمل مزید کہتے ہیں ’’چھٹیاں تو خال خال ہی ملتی ہیں ،ہاں ہڑتال ہو، تو راحت ملتی ہے لیکن اگر ہڑتال بھی طول پکڑے تو و ہ بھی مصیبت لیکر آتی ہے کیونکہ پھر تنخواہیں کٹتی ہیں ‘‘۔سی پی فنڈ تو ملتا ہوگا؟، ’’کہاں کا سی پی فنڈ ؟۔یہاں دس دس سال سے لڑکے کام کررہے ہیں ،ان کا کوئی سی پی فنڈ کھاتہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی اضافی وقت یعنی اوور ٹائم کا کوئی تصور ہے۔تنخواہ مالکان خود مقرر کرتے ہیں اور ا سکا کوئی ڈھانچہ نہیں ہے۔اعتراض کریں تو گھر بیٹھنا ہوگا۔اسی لئے خاموشی سے یہ استحصال سہن کررہے ہیں کیونکہ دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے‘‘۔ لالچوک میں ہی ٹیلیفون ایکس چینج کے بالمقابل گاڑیوں کے کئی ورکشاپ ہیں جہاں درجنوں کم سن لڑکے اور چھوٹے بچے مزدوری میں مصروف ہیں۔ڈیزل اور گریز سے اٹے ان کے ہاتھوں نے کبھی بلا اْٹھایا ہے نہ کسی گیند کو چْھوا ہے۔ ان بچوں کو معلوم ہی نہیں کہ ماہانہ تنخواہ کِس چڑیا کا نام ہے۔ وہ یومیہ اْجرت پر کام کررہے ہیں۔ایک نوجوان سے بات کی تو اْس نے کہا’’ کوئی تنخواہ نہیں ملتی ہے ،لیکن دن میں 100روپے یا پھر اْس سے زیادہ بھی کما لیتا ہوں۔ استاد جس گاڑی کے ٹائر یا پھر انجن کھولنے کیلئے کہتا ہے تو میں وہ کرتا ہوں ،پھر جس مالک کی گاڑی ہوتی ہے، وہی خوشی سے 20یا 30روپے بخشش دیتا ہے جو جیب خرچہ بنتا ہے۔‘‘ ان ننھے بچوں کو چھٹیوں کے حقوق کا کوئی علم ہے اور نہ ہی کسی سی پی فنڈ سے متعلق کوئی جانکاری۔’’نکھرے کریں گے تو مالک کام پر نہیں رکھے گا ،پھر نہ کام سیکھیں گے اور نہ ہی کوئی کمائی ہوگی ‘‘۔واضح رہے کم سے کم اْجرت یعنی مِنی مم ویجزنام سے ایکٹ 1948میں بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت جاری کئے گئے ایس ا?ر او 03محرر4جنوری2013کے تحت ہنر مندوں،نیم ہنر مندوں اور غیر ہنر مندوں کیلئے حکومت کی جانب سے کم سے کم یومیہ اجرت نوٹیفائی کی گئی ہے جس کی رو سے انہیں کم از کم225 روپے روزانہ ملنے چاہئیں، تاہم اس کا کسی کارخانہ پر اطلاق ہوتا ہے نہ کسی بڑے سیٹھ پر۔ مزدروں کے حقوق کے ضامن لیبر محکمہ کے پاس کشمیر میں مزدور طبقہ کے صحیح اعدادوشمار تک موجود نہیں ہیں۔پبلک و پرائیو ٹ سیکٹر میں کام کررہے ورکروں کے معیادِ کار اور ان کی بہبود کو یقینی بنانے کیلئے 16مرکزی لیبر قوانین اور3ریاستی قوانین کو نافذ کرنے کی ذمہ داری رکھنے والے لیبر محکمہ کی ناک کے نیچے مزدوروں کا استحصال ہورہا ہے۔اس حوالے سے جب ڈپٹی لیبر کمشنرکشمیرغلام رسول کمار سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا’’اس میں کوئی شک نہیں کہ مزدور طبقہ کا استحصال ہورہا ہے تاہم ہم اس کو کم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور جب بھی شکایت آتی ہے تو اس پر کارروائی ہوتی ہے ‘‘۔انہوں نے اعتراف کیا کہ محکمہ نے منظم و غیر منظم سیکٹر میں مزدوروں کی صحیح تعداد کا پتہ لگانے کیلئے کوئی ٹھوس سروے نہیں کیا ہے تاہم مختلف لیبر قوانین کے تحت جن اداروں نے محکمہ کے ساتھ رجسٹریشن کی ہے ،ان میں کام کررہے ملازمین کی تعداد موجود ہے‘‘۔انہوںنے کہا کہ جن دکانوں پر دس یا اس سے زیادہ ملازمین ہوں ،ان پر پاویڈنٹ فنڈاور گریجوٹی کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ اس سے کم ملازمین پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مارچ کے اختتام تک کشمیر صوبہ میں 201672ادارے شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ ایکٹ1996 کے تحت محکمہ کے ساتھ رجسٹر ہیں جن میں کام کرنے والوں کی تعداد95648ہے جبکہ بلڈنگ اینڈ کنسریکشن ایکٹ1996کے تحت 173293مزدور مزدور محکمہ کے ساتھ رجسٹر ہیں جبکہ اس کے علاوہ فیکٹریز ایکٹ 1948کے تحت بھی کارخانے رجسٹر ہیں جہاں چند ہزار مزدور کام کررہے ہیں۔