بالآخر وہ ہوکر ہی رہ گیا جس کی قیاس آرائیاں گزشتہ کچھ عرصہ سے جاری تھیں۔یوٹی حکومت نے بدھ کے رز جموں و کشمیرمیں یکساں تعلیمی کلینڈرکے نفاذ کیلئے باضابطہ طور پر احکامات صادر کئے۔اس سلسلے میں حکم نامہ گورنمنٹ اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے پرنسپل سکریٹری آلوک کمار نے جاری کیا اور اس مقصد کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا گیا ہے۔ اب 10ویں،11ویں اور 12ویں جماعت کے بعد اول تا نہم جماعتوں کے امتحانات بھی مارچ میں کرانے کا اعلان کیاگیا۔ستمبر کے اوائل میں ہی 10ویں،11ویں اور12ویں جماعت کیلئے مارچ سیشن کا اعلان کرتے کہاگیاتھا کہ جموںوکشمیر کے مشکل علاقوں کو چھوڑ کر مارچ میںامتحانات منعقد ہونگے اور جون میں نتائج کا اعلان کیاجائے گاجبکہ بائی انیول یا پرائیوٹ امتحانات اگست میں ہونگے اور اکتوبر تک نتائج کا اعلان ہوگا۔مارچ میں 10ویں اور11ویں جماعت کے امتحانات میں شامل ہونے والے امیدواروں کوگیارہویں اور بارہویں جماعت میں عبوری داخلہ دیاجائے گا اور امتحانی نتائج میں کامیاب ہونے کی صورت میں داخلہ مستقل کیاجائے گا اور کامیاب نہ ہونے کی صورت میں انہیں اگست کے بائی انیول یا پرائیوٹ امتحان میں شریک ہونے کی پھر اجازت دی جائے گی اور نئی جماعت میں عارضی داخلہ تب تک برقرار رہے گا تاہم اگر وہ اس امتحان میں بھی کامیاب نہ ہوسکے تو عبوری داخلہ منسوخ ہوگا اور کامیاب ہونے والے امیدواروں کا داخلہ حتمی کیاجائے گا۔یکساں تعلیمی کلینڈر جاری کرنے کے پیچھے قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کو جواز کے طور پیش کیاجارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ایسا کرکے پورے ملک میں یکساں تعلیمی کلینڈر کا نفاذ یقینی بن گیا اور اب جموںوکشمیر کے طالب علم بھی ملک کے دیگر طالب علموں کی طرح ایک ساتھ امتحانات میں شامل ہونگے اور ایک ہی سیشن میںفارغ بھی ہوجائیں گے ۔جموںوکشمیر کے تعلیمی کلینڈر کوقومی تعلیمی کیلنڈر سے ہم آہنگ کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہے اور یقینی طور پرحکومت کے پاس تعلیمی سیشن کو تبدیل کرنے کی کوئی نہ کوئی معقول وجوہات ہوں گی لیکن اس طرح کا حساس فیصلہ لینے سے پہلے تمام فریقین کے ساتھ وسیع مشاورت ہونی چاہئے تھی جو نہ ہوسکی ۔تعلیم بہت اہم شعبہ ہونے کے ناطے اہم فیصلے کرنے سے پہلے اس طرح کی مشاورت اور رائے کی ضرورت ہے۔ یہ یک طرفہ معاملہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کو لاگو تو کیاگیا لیکن جموںوکشمیر کے ممتاز ماہرین تعلیم ،سابق سرکاری عہدیداروں و سیول سوسائٹی ممبران کی آراء کو در خور اعتناء تک نہیں سمجھا گیا جنہوںنے باضابطہ طور ایک میمورنڈم کی صورت میں سرمائی زون میں تعلیمی کلینڈر تبدیل نہ کرنے کی گزارش کی تھی اور اس کے دفاع میں ٹھوس دلائل بھی دئے تھے ۔حکومت ’مرغی کی ایک ٹانگ ‘والے محاورے کے مصدا ق کسی بھی طرح یکساں تعلیمی کلینڈر نافذ کرنے کے حق میں تھی اور اس کیلئے مسلسل قومی تعلیمی پالیسی کے صد فیصد نفاذ کا سہارا لیاجارہا تھا اور ایسا ہی ہوا۔اب جبکہ اول سے بارہویں جماعت تک مارچ سیشن کا اعلان ہوچکا ہے تومزید بات کرنا عبث ہے لیکن کیا حکام سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوںنے مارچ سیشن کے انعقاد کیلئے یہاں کیا تیاریاں کی ہیں؟۔ اب تو کہاجارہاہے کہ دسمبر کے آخر تک کلاسز چلیں گے اور پھر سرمائی تعطیلات کے بعد امتحانات منعقد ہونگے لیکن ہمارے سرکاری سکولوں کی خستہ حالی سے کوئی نابلد نہیں ہے ۔اب تو واضح ہوگیا کہ حکام کوجنوری اور فروری کے2 کٹھن ماہ طلباء کو گھر بٹھانے کا ارادہ ہے تاکہ وہ گھر میںہی امتحانات کی تیاری کرسکیں۔اگر یہ منصوبہ ہے تواس پر افسوس ہی کیاجاسکتا ہے اور اگر یہ منصوبہ ہے کہ دسویں سے بارہویں جماعت تک سرما میں بھی تدریسی عمل ان کلاسوں کیلئے جاری رکھا جائے گا تو موجودہ تعلیمی ڈھانچہ میں وہ قطعی ممکن نہیں ہے کیونکہ ہمارے سکولوں میں سرما کی کٹھن سردی سے نمٹنے کا کوئی انتظام نہیںہے ۔ ممکن ہے کہ کمیٹی نے اپنی سفارشات کو ان مسائل کو بھی ایڈرس کیاہو لیکن چونکہ اس ضمن میں ابھی تک کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آئی ہے توبادی النظر میں یہ ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کیلئے عجلت میں لیاگیا فیصلہ ہی نظرآرہا ہے۔ورنہ اگر فیصلہ لینے سے قبل کوئی ہوم ورک کیاگیا ہے تو محکمہ تعلیم کو اُس کا خاکہ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے تاکہ عوام میں اضطراب کی کیفیت ختم ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکساںتعلیمی کلینڈر کا نفاذ | فیصلہ پر اعترا ض نہیں لیکن تیاریوںکا کیا؟
