شیخ ولی محمد
تین چار دہائی قبل ریاست جموں و کشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں پرائیوٹ تعلیمی سیکٹر نہ ہونے کے برابر تھا ۔ چند مشینریزاسکولوں اور ٹرسٹوں کے سواء یہاں پر ہر طرف تعلیمی میدان میں فقط سرکاری تعلیمی ادارے ہی سرگرم عمل تھے۔ ان اسکولوں میں اساتذہ خلوص ، لگن اور امانت و دیانتداری کے ساتھ نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں مصروف تھے ۔ وسائل کی قلت تھی اور آج کل کے دور کی طرح نہ اسکولوں کی شاندار عمارتیں تھیں اور نہ ہی بیٹھنے کا کوئی آرام دہ انتظام ۔ انفارمیشن اورٹیکنالوجی کا کوئی نام و نشان نہ تھا ۔ بچے کھلے آسمان کے سائے تلے تعلیم حاصل کرنے میں خوشی و مسرت حاصل کرتے تھے ۔ استاد کے پاس جو معاون چیزیں اور کارآمد وسائل تھے ان میں بلیک بورڈ اور چاک کے علاوہ سرکار کی طرف سے رائج کی گئی یکسان درسی کتاب تھی ۔ اس وقت کے تقاضوں کے مطابق سیلبس ہلکا پھلکا تھا۔ اگر انگریزی زبان کی بات کی جائے تو پانچویں جماعت میں بچوں کو ABCسے متعارف کرایا جاتا تھا ۔ سیلبس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ مشرق سے لیکر مغرب تک شمال سے لیکر جنوب تک ریاست کے ہر علاقہ اور ہر جگہ سبھی اسکولوں میں یکسان درسی کتابیں رائج تھیں ۔ یکسان سیلبس کی بدولت بچے احساس کمتری یا برتری کے شکار نہیں ہو تے تھے اور اساتذہ بھی تعلیم کے ہر پہلوؤں سے واقف تھے ۔رفتہ رفتہ جب اساتذہ میں محنت ولگن کا جذبہ سرد پڑتاگیا اور نویں کی دہائی میں جب کشمیر میں نامسائد حالات کا سلسلہ شروع ہوا تو اسی دوران ہر طرف پرائیوٹ اسکولوں کی مشروم گروتھMashroom Growth کا آغاز بھی ہوا۔ ان تعلیمی اداروں میں تعینات عملہ قلیل کفافہ پر اپنی خدمات جانفشانی کے ساتھ انجام دیتار ہا اور دوسری طرف ان اداروں نے بچوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے ۔ایک طرف بچے کو گھر سے سکول تک لانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا معقول انتظام رکھا ۔ دوسری طرف بچوں کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لئے ہفتے میں تین چار وردیاں لازمی قرار دی گئی ۔اس کے علاوہ کسی اسکول کی خاص ا متیازی نشانی اور پہچان یہ قرار پائی کہ اس نے وادی سے باہر کسی بڑ ے پبلیشرکی کتابیں اپنے اسکول میں رائج کی۔ پری پرائمری سے لے کر سیکنڈی سطح تک کے ہر کلاس کے لئے مختلف مضامین کی درسی کتابوں کی ایک طویل فہرست مقرر ہوئی ۔جو یاں تو بچوں کو اسکولوں میں یا ا ن کے مخصوص بک سیلروں کے ذریعے موٹی موٹی رقوم کے عوض ملتی ہیں ۔ چونکہ یہ کتابیں پرائیوٹ پبلیشرز قومی سطح پر شائع کرتے ہیں لہذا ان کتابوں میں یہاں کے ماحول کے مطابق موضوعات نہیں ہوتے ۔ یہ کتابیں بہت ہی مہنگی ہوتی ہیں کیونکہ کاغذ اور پرنٹنگ کے لحاظ سے ان کتابوں کی کوالٹی Quality اچھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتابیں کافی مدت تک استعمال کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہاں کے پرائیوٹ اسکولوں نے تعلیمی سیشن کے دوران استعمال شدہ کتاب کو دوبارہ استعمال کرنے پر پہلے سے ہی پابندی عائد کی ہے ۔ لہذا والدین کو ہر سال اپنے بچے کے لئے نئی کتاب خریدنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے اقتصادی طور بھی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔
گذشتہ دوسال سے نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو عمل میں لانے کی کوششیں جاری ہیں ۔NEP 2020کے مطابق اسکولی تعلیم کے لئے قومی تعلیمی درسیات یا نصاب کا خاکہ(NCFSC)این سی ای آرٹی تیارکر رہی ہے ۔ یہ خاکہ قومی تعلیمی پالیسی 2020کے اصولوں پر مبنی ہوگا اور یہ تمام متعلقہ افراد، ادارے ، ریاستی حکومتیں ، وزارتیں ، ماہرین تعلیم کے مشوروں سے تربیت دیا جارہاہے ۔ علاقائی مواد اور چاشنی سے مزین قومی نصاب اوردرسی کتابیں تیار کی جارہی ہیں۔ جے اینڈ کے یوٹی میں اس وقت جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن سکولی تعلیم کے لئے درسیات/ نصابی کتب شائع کرنے کی خدمات انجام دیتا ہے ۔ چونکہ سرکاری سیکٹر میں تعلیم سے جڑ ے ہوئے محققین اور ماہرین کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ وہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور قومی پالیسی کے اصولوں کے عین مطابق نصاب کا کوئی بھی حصہ تشکیل سکتے ہیں ۔ ان افراد اور اداروں کے پیش نظر علاقی مانگ اور مقامی ماحول ہوتا ہے ۔جسکی بنیاد پر ہی کسی بھی درسی کتاب کا مواد ترتیب دیا جاتاہے ۔ جب کوئی بھی مضمون/ درس علاقائی اور مقامی رنگ میں ترتیب دیا جاتاہے تو طالب علموں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر کسی کتاب کا مواد مقامی ماحول سے ہم آہنگ نہ ہو، تو ذہین بچے بھی اس کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ پرائیوٹ اسکولوں میں رائج وادی سے باہر شائع ہورہے کتابیں اس قسم کی بہت ساری مثالوں سے بھری پڑی ہیں ۔ مثال کے طور پر ابتدائی کلاسوں کی کتابوں میں ایسے میوے ، فصلوں ، جانوروں ، پرندوں اور حیوانوں وغیرہ کے نام درج ہیں جنہیں یہاں کے بچے دیکھ کر حیران و پریشان ہوجاتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر یہاں کے ایجوکیشن بورڈ کی کتاب پر کشمیر میں پائے جانے والے جانور ، حیوانات ، پرندے ، سبزیاں ، پھل ، پھول کا تعارف کر ایا جائے تو ان چیزوں کو بچے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر ماحولیات ، تاریخ ، جغرافیہ ، زراعت ، دستکاری ، باغبانی ، صنعت کاری وغیرہ مقامی ماحول کے پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا جائے تو پڑھائی کے دوران یہ تصورات بچے کے ذہن میں راسخ ہو جائیں گے ۔ یکسان تعلیمی نصاب کا ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اب پرائیوٹ اسکول میں پڑھنے والا امیر کا بچہ اور سرکاری اسکول میں زیر تعلیم غریب والد کا بچہ یکسان سیلبس کے تحت ایک ہی کتاب پڑھے گا اور اس طرح دونوں طبقات کو آگے پڑھنے کے یکسان مواقع دستیاب ہوں گے ۔ اس سے غریب طبقات کی احساس محرومی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ یکسان نصاب رائج کرنے سے قومی ہم آہنگی بھی پر وان چڑھے گیاور ایک جیسی تعلیم حاصل کرنے سے ایک جیسی سوچ پیدا ہوسکتی ہے ۔سرمائی اور گرمائی تعطیلات کے دوران جب تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں ۔ہماے بچے مختلف ٹیوشن اور کوچنگ سینٹروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ چونکہ ان مراکز میں مختلف اسکولوں سے وابستہ بچے ہوتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سبھی اسکولوں کی نصابی کتابیں ایک جیسی نہیں ہوتی تو اس صورت حال میں اساتذہ پر یشانی کے شکار ہو کر الگ الگ اسکولوں سے وابستہ بچوں کو تھوڑا تھوڑا وقت دیکر اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بچے پوری طرح مطمئن نہیں ہوتے کیونکہ قلیل وقت میں استاد اپنے پیشے سے انصاف نہیں کرپاتا ۔ اب اگر یکسان نصاب کے تحت تمام اسکولوں میں درسی کتابیں ایک جیسی ہوں گے تو اس صورت میں استاد کیلئے پرائیوٹ ٹیوشن مراکز میں بچوں کو پڑھانا آسان ہوگا اور طویل پیریڈ میں طلبہ پڑھائی کے دوران استاد سے مکمل اور تفصیلی معلومات پاکر مطمئن ہوسکتے ہیں ۔
اب جب کہ نئے تعلیمی سیشن شروع ہونے میں تین چار مہینے رہ چکے گئے ہیں جے اینڈ کے بورڈ آف سکول ایجوکیشن کے لئے یہ بہترین موقعہ ہے کہ وہ ابتدائی کلاسوں سے ہی تمام سرکاری اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے لئے نصابی کتب کی اشاعت کا منصوبہ پائے تکمیل کو پہنچائے ۔ اس ضمن میں متعلقہ آفسراں اور ذمہ داروں کی خدمت میں یہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ نئی پالیسی کی روشنی میں درسی کتابوں کو تعلیم و تدریس کے جدید تقاضوںسے ہم آہنگ کرنا وقت کی ایک اہم پکار اور اشد ضرورت ہے ۔ کتابوںکو دور حاضر کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ترتیب دیتے ہوئے اس میں قومی ، سماجی اور اخلاقی اقدار کو ملحوظ نظر رکھا جائے ۔ ساتھ ہی طلباء ، والدین اور اساتذہ کی پر زور مانگ یہ بھی ہے کہ کتابوں کو جاذب نظر اور دلکش بنانے کے لئے بہترین پرنٹنگ کے ساتھ ساتھ معیاری کاغذ کا استعمال کیا جائے ۔ چھوٹے بچوں کی دلچسپی کے لئے ان کی نصابی کتابیں ہلکی پھلکی ہو لیکن ان کی پرنٹنگ رنگین Multi Colouredہو۔ یہ کتابیں ، کہانیوں کا ر ٹونوں اور کامکس وغیرہ سے پُر ہوں۔ بگڑتی ہوئی سماجی ، تہذبی ، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلبس میں مذہبی تعلیمات کو شامل کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے ہر کلاس میں دینی تعلیمات پر مبنی اخلاقی تعلیما ت کو نصابی کتاب میں متعارف کراناچاہئے تاکہ بچے مستقبل میں اپنے خالق کے فرماں بردار بندے اور سماج کے ذمہ دار شہری بن سکے۔ تعلیمی سیشن کے آغاز سے قبل ہی کتابوں کا اسٹاک بُک سیلروں کے ذریعے مناسب اور یکسان داموں پر دستیاب رکھا جاے تاکہ آگے بچوں کا قیمتی وقت کتابوں کو ڈھونڈنے میں ضائع نہ ہوسکے ۔
[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)