اسد مرزا
29 جولائی کو ساؤتھ پورٹ میں چاقو کے حملے کے دوران تین بچوں، ایلس ایگوئیر (9)، بیبی کنگ (6) اور ایلسی اسٹین کامبی (7) کی ہلاکت اور کئی دیگر کے زخمی ہونے کے بعد برطانیہ کے کئی قصبوں اور شہروں میں ہونے والے حالیہ فسادات نے ایک حیران کن تصویر پیش کی ہے کہ ایک ایسے ملک کی جو اپنے آپ کو کثیر الثقافتی اور ہم آہنگی کے مرکز کے طور پر پیش کرتا ہے۔بنیادی طور پر ان فسادات کے لیے چار محرک شناخت کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، سیاسی گفتگو میں ابھرتے ہوئے دائیں اور انتہائی دائیں بازو کے عناصر کا پھیلاؤ؛ دوم، اسلامو فوبیا میں اضافہ؛ تیسرا بریگزٹ کی وجہ سے بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور برطانیہ میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور آخر میں آج کی جدید دنیا میں سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ کا بڑھتا ہوا خطرہ۔پہلے تین عناصر سیاسی نظام میں قابل تغیر اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور اب تک انہیں 2022 یا 2011 میں لیسٹر فسادات جیسے واقعات کی بنیادی وجہ قرار دیا جاتا تھا، لیکن حالیہ فسادات میں آخری وجہ نے آگ میں گھی ڈالنے کا کردار ادا کیا۔ اور نہ صرف برطانیہ،بلکہ امریکہ، فرانس اور ہندوستان میں بھی ایسے بے قاعدہ رویوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے جس کا متحرک سوشل میڈیا ہی مانا جاسکتا ہے۔
اسلامو فوبیا میں اضافہ :یاسمین احمد، ڈائریکٹر ہیومن رائٹس واچ، یوکے نے ایک بیان میں کہا کہ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ برطانیہ میں بہت سے لوگ اس بات پر ناراض اور مایوس ہیں کہ ان کا معیار زندگی مسلسل گرتا جا رہا ہے اور مقامی سہولیات میں اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ساتھ ہی حکومت کی جانب سے دی جانے والی مدد میں کٹوتی، اور ان کو یعنی کہ انگریزوں کو نظر انداز یا بھول جانے کا احساس کافی شدت سے پھیل رہا ہے۔ اس مایوسی کا بڑے طور پر نسل پرست انتہاپسندوں کے ذریعے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، جو پیچیدہ مسائل کے سادہ ’’جواب‘‘ دینے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن معاشی اور سماجی استحکام کو برباد کرتے ہوئے۔پولیٹیکو میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون، جس کا عنوان ہے: ’’برطانیہ میں اسلام فوبیا کا پھیلاؤ‘‘، جس میں نسل پرستی مخالف گروپ ’’ہوپ ناٹ ہیٹ‘‘ کی گارڈین اخبار کی 2019 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’برطانیہ میں ایک تہائی سے زیادہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک خطرہ ہے۔ برطانوی طرز زندگی کے لیے۔ تقریباً ایک تہائی عوام (32 فیصد) مسلم مخالف سازشی تھیوریوں کو مانتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی دلیل دی گئی کہ مسلم مخالف تعصب انتہائی دائیں بازو کی ترقی میں کلیدی محرک رہا ہے۔
پولیٹیکو کی اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ساؤتھ پورٹ میں فسادات صرف آن لائن غلط معلومات کی مہموں کی وجہ سے نہیں ہوئے تھے بلکہ انہیں مرکزی دھارے کے معاشرے میں اسلامو فوبیا کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کی وجہ سے بھی ہوا ملی۔ اور اسلامو فوبیا بنیادی طور پر کئی دہائیوں کی منفی میڈیا کہانیوں اور نقصان دہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں آسمان کو چھو رہا ہے جس نے برطانوی مسلمانوں کو’’انتہا پسندی‘‘ کا شکار بنا دیا۔
غلط معلومات کا کردار :مزید برآں ان غلط معلومات اور غالباً ان غلط معلومات کی تشہیر کے پیچھے ایک غیر دستاویزی مہاجر ، مسلمان کا نام لیا جارہا تھا،جوکہ سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گیا۔ اس مقدمے کا مرکزی ملزم نہ تو مسلمان تھا اور نہ ہی سیاسی پناہ کا متلاشی بلکہ وہ 17 سالہ ایکسل روداکوبانا تھا جو کہ برطانیہ میں روانڈا سے تعلق رکھنے والے والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا جو 2002 میں برطانیہ آئے تھے اور اب برطانوی شہری ہیں۔ساؤتھ پورٹ کے قتل کے بعد، فسادیوں نے قصبے کی ایک مسجد پر حملہ کیا جب لوگ اس کے اندر موجود تھے۔ فسادات انگلینڈ کے دیگر مقامات بشمول لیورپول، لندن، مڈلزبرو کے ساتھ ساتھ شمالی آئرلینڈ میں بھی پھیل گئے۔برطانیہ کے وزیر اعظم کیر سٹارمر نے ان فسادات کے جواب میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی حکومت امن و امان کے معاملات پر مضبوطی سے قائم ہے اور وہ ان کے پھیلانے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے گی۔
ایلون مسک اور غلط معلومات :ان فسادات میں خاص طور پر سوشل میڈیا سائٹ X نے بڑی حد تک منفی کردار ادا کیا ۔ X کے مالک ایلون مسک بھی براہ راست اس تنازعہ میں شامل ہوگئے۔ یہاں تک کہ جب انھیں بحر اوقیانوس کے دوسری طرف یعنی امریکہ میں X کے Grok AI چیٹ بوٹ پر چیلنج کیا جا رہا تھا کہ وہ امریکی صدارتی انتخاب کے عمل کے بارے میں غلط معلومات فراہم کر رہا تھا تو اس وقت ایلون مسک برطانوی فسادات کے تعلق سے اشتعال انگیز میسجز Xپر ڈال رہے تھے۔نارتھ ایسٹرن گلوبل نیوز میگزین کے ایک مضمون میں نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں اپلائیڈ اخلاقیات کے اسسٹنٹ پروفیسر حسین دباغ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے گروہوں نے ساؤتھ پورٹ میں جو کچھ کیا اُسے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اورجرائم کے بارے میں وسیع تر سماجی اضطراب کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا، جس میں امیگریشن اور قومی شناخت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ دباغ کا کہنا ہے کہ حالیہ فسادات کے دوران سوشل میڈیا پر ’’ہجومی ذہنیت‘‘ میں اضافہ کرنے کے لیے اس کا منفی استعمال بڑے پیمانے پر کیا گیا۔آنے والے دنوں میں برطانیہ کی حکومت نے آن لائن ڈس انفارمیشن یعنی کہ غلط معلومات یا پیغامات کو روکنے کے سلسلے میں حکومتی اقدام میں تیزی لانے کا وعدہ کیا ہے۔ جوکہ نہ صرف ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے بلکہ ایک ایسا مسئلہ بھی ہے جو آج کی دنیا میں مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے توجہاں ایک طرف سوشل میڈیا اور بڑھتی ہوئی AIیعنی کہ مصنوعی ذہانت نے ہماری روز مرہ کی زندگی پر مثبت اثر ڈالا ہے وہیں دوسری جانب ان کے منفی اثرات بہت زیادہ ہیں۔ اور مختلف ممالک میں حکومتیں اور عالمی تنظیمیں ان منفی اثرات کو کم کرنے اور سوشل میڈیا کی ان کمپنیوں پر قدغن لگانے کے لیے نئے قوانین لانے پر کام کررہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں خاص طور پر X کے مالک ایلون مسک نے امریکہ اور پھر اب برطانیہ کی ملکی سیاست میں جو منفی کردار ادا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک وقت میں وہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مخالفین میں شامل تھے لیکن آج وہ ان کے سب سے بڑے حمایتی ہیں، اور جس طریقے سے وہ X کے ذریعے ڈونالڈ ٹرمپ کو اور ان کی منفی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں اور ان کی حریف کملا ہیرس کی شبیہ کو بگاڑنے کے لیے X پر جن الفاظ اور جملوں کا استعمال کررہے ہیں وہ پوری دنیا میں سیاست کو غیر مہذب راستے پر لے جارہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف یوروپی ممالک میں ہی سوشل میڈیا کا استعمال سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت خود ہمارے ملک میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں پر کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر غلط بیانیے کو فروغ دے کر حکومت پر قبضہ کیا گیا اور خاص گروپوں کو اپنا نشانہ بناکر اس کے سیاسی فوائد حاصل کیے گئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی سطح پر ایسے قوانین لائے جائیں جو کہ سوشل میڈیا کو قابو میں رکھنے کے لیے باآسانی استعمال کیے جاسکیں اور اس کے لیے نہ صرف سیاست دانوں بلکہ عدلیہ کا کردار بھی کافی اہم رہے گا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)