وَن انڈیا وَن پول کے بارے میں سوچئے۔ ۴ برسوں سے اس کا راگ الاپ رہے ہیں اور اس دوران نہ جانے کتنے الیکشن ہوئے لیکن کوئی بھی ایک یا دو روز میں تکمیل کو نہیں پہنچے۔ ابھی ابھی ۵ ریاستوں کے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے ، اس کی رُو سے انتخابات کا عمل تقریباً ۲۵ دنوں میں پورا ہوگا اور تمام کے تمام نتائج ۴ دنوں کے بعد یعنی ۱۱ دسمبر کو آئیں گے۔ یہ اگر ۵؍ریاستوں میں انتخابات کی تکمیل کا حشر ہے تو پورے ہندوستان میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا کیا جواز ہے؟مودی کے حساب سے کہیں ایسا تو نہیں کہ الیکشن کمیشن تاریخوں کا اعلان کر دے اور ۴-۴ماہ انتخابات کا عمل جاری رہے اور سہولت سے ۶ماہ بھی کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ الیکشن مہم کا زیادہ سے زیادہ اور طویل مدت تک لطف لے سکیں کیونکہ انہیں ہمیشہ ہی 'الیکشن مہم موڈ '(mode)میں محسوس کیا جاتا ہے۔شاید اس کے علاوہ انہیں کسی اور چیز میں مزہ نہیں آتا۔پارٹی کو اپنی اچھائی کیلئے یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعظم کسی اور کو بناتی اور الیکشن مہم کیلئے مودی جی کو استعمال کرتی تو ملک کا بھی بھلا ہوتا اور پارٹی کا بھی لیکن مودی جی استعمال ہونی والی شخصیت نہیں ہیں بلکہ وہ لوگوں اور سسٹم کو استعمال خود کرتے ہیں۔
ان ۵ریاستوں میں تاریخوں کا اعلان ساڑھے۱۲بجے دن میں کمیشن کرنے والا تھا لیکن اس نے اچانک وقت بدل کر ساڑھے تین بجے دن کر دیا کیونکہ مودی جی اسی دن اجمیر میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرنے والے تھے اور وہاں کی وزیر اعلیٰ سندھیا بھی موجود تھیں۔اگرچہ مودی نے کوئی اعلان نہیں کیا لیکن وسندھرا نے کسانوں کی ۱۰ہزار روپے تک کے سالانہ بجلی بل کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا اور یہ سب اعلانات ساڑھے تین بجے سے پہلے ہوئے۔اعلانات کے تناظر میں مودی اور وسندھرا میں کوئی فرق ہے کیا؟نہیں تو۔کس طرح مودی نے الیکشن کمیشن کا استعمال کر لیا اور دنیا دیکھتی رہ گئی اور قانون بیچارہ پٹی باندھے کھڑا رہا۔چیف الیکش کمیشن کا یہ جواز کہ کچھ ٹیکنیکل خرابی آگئی تھی، کتنا بچکانہ ہے۔ہندوستانی نظریے سے پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جوآبادی اور رقبے کے اعتبار سے بھلے ہی اُتر پردیش کے برابر ہے ، ایک روز میں انتخابات کا عمل پورا ہوتا ہے اور نتائج بھی دوسرے دن کیا اُسی رات(انتخابات ختم ہونے والے دن)سے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ تمام انتخابات بیلٹ پیپر سے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ۵صوبائی الیکشن بھی۔جب وہاں ایسا ہو سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں؟زیادہ سے زیادہ ۵دن کیا جا سکتا ہے یعنی کہ پانچ گنا، لیکن آنے والا۲۰۱۹ء کا الیکشن ۲ماہ تک ہوگا تاکہ مودی جی ملک کی گلی گلی میں جا سکیں اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ الیکشن کمیشن مہیا کروائے گا۔اس لئے وَن انڈیا وَن پول محض ایک چھلاوہ ہے۔
وَن انڈیا وَن لاء کی تشہیر میں حکومت نے سارا زور لگا دیا۔ اسی کے تحت راجیہ سبھا میں ناکامی کے بعدطلاق ثلاثہ کا آرڈینینس بھی پاس کیا گیا جو قانونی شکل اختیار کر لے گا اگر اس کی عدالت میں مخالفت نہیں کی گئی۔اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ اس قانون کو رد کرے۔خیریہ سلوگن بھی ایک دھوکہ ہے جو ہندوستان جیسے ملک میں ممکن نہیں کیونکہ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک اتنے قبیلے اور ذات پات کے لوگ بستے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں کہ ون انڈیا ون لاء کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ملک عزیز میں آج بھی روایت کی پاسداری اور اپنے کلچر کے تحفظ میں لوگوں کو کٹتے مرتے دیکھا گیا ہے جس کی بے شمار مثالیں شمال مشرقی ریاستوں اور جنوب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔یہ سلوگن بھر ہو سکتا ہے ،حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔اگرچہ آر ایس ایس ایسا ہی چاہتا ہے لیکن اس کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے،افرا تفری اور بدامنی کے علاوہ۔۔۔اور مودی جی آر ایس ایس کے پرم پرچارک ہیں۔
اب ہم آتے ہیں’ وَن انڈیا وَن نیشن ‘ کی طرف۔یہ بہت اچھی بات ہے…. اگر ایسا ہو جائے اور ایسا ہونا بھی چاہئے لیکن ایسا کیا ہوا کہ اس کی نفی گجرات سے شروع کی گئی؟ گجرات چونکہ تجربہ گاہ ہے اور ہر طرح کے تجربے یہاں کئے جاتے ہیں۔اس سے قبل گجرات کو ہندتوا کی لیباریٹری کے طور پر یا د کیا جاتا ہے کہ کس طرح یہاں پر نت نئے نئے تجربے کئے گئے جس سے ہندتوا کے کاز کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔خواہ اس کیلئے ملک کیوں نہ گڑھے میں چلا جائے۔گودھرا میں جلے ہوئے ایس ۶کوچ کے مسافروں کو کس طرح احمد آباد لایا گیااور سڑکوں پر مارچ کرایا گیا تاکہ گجراتی اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہو جائیں اور انتقام لینے کیلئے کچھ بھی کر گزریں۔پھر دنیا نے دیکھا کہ کہ بی جے پی نے اس کا کس طرح فائدہ اٹھایا اور آج تک اٹھا رہی ہے۔ اسی طرح شمالی ہند کے باشندوں کا خروج جو عمل میں آیا ہے وہ یوں ہی نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔اس پر ابھی تک وزیر اعظم نے لب کشائی نہیں کی ہے اور ویسے بھی اس طرح کے واقعات پر وہ کہاں منہ کھولتے ہیں؟
اگرچہ ان کے لوگ کانگریس کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ کانگریس کے ایک ایم ایل اے الپیش ٹھاکور کے سینا نے یہ سب کیا ہے لیکن سچائی کچھ اور ہے۔مودی کے ٹاپ پوسٹ پر براجمان ہونے کے بعد’گجراتیت‘ اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اسے ہر جگہ اور ہر شعبے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔گجراتی بنیادی طور پر تاجر ہوتے ہیں اور تاجر خون خرابہ نہیں چاہتے ہیں لیکن مودی کے مسلسل ۲۰برس کے قریب اقتدار میں رہنے کے بعد مودی نے ایک ایسی ہوا چلائی ہے جس کی وجہ سے گجراتیوں کی روش تبدیل ہو گئی ہے۔ دیکھا جا رہا ہے کہ اب وہ صرف تجارت نہیں کر رہے ہیں۔
بہار اور یو پی سے ہجرت کر کے ایک کثیر تعداد میں مزدور گجرات کی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ ان کی تعداد ۱۰لاکھ کے قریب ہے۔ظاہر ہے کہ یہ وہاں اور دیگر جگہوں پر اس لئے کام کرنے جاتے ہیں کیونکہ بہار اور یوپی میں روزگار نہیں ہے۔یہ کم اجرت پر کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے دھنا سیٹھوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔یہ تو نام نہاد وکاس پْرْش نتیش کمار کو سوچنا چاہئے کہ ان کے صوبے سے اتنی زیادہ تعداد میں ہجرت کیوں ہوتیہے؟وہ بھی۱۵برس کے قریب حکومت میں ہیں اور اب تو انہیں لالو پر وار کرنا بند کر دینا چاہئے۔سچ پوچھئے تو اس سیکٹر میں نتیش نے کوئی کام نہیں کیا ہے کہ ہجرت رک سکے۔یوپی کے آدتیہ ناتھ یوگی سے ایسی کوئی امید ہی فضول ہے۔آپ پوچھیں گے کچھ اور جواب ملے گا کچھ۔اس لئے یہ دونوں ہی اس غیر قانونی خروج پرخاموش ہیں کیونکہ نتیش کو ابھی بھی لالچ ہے کہ بی جے پی سے انہیں فائدہ ملے گا۔وہ ہمیشہ ہی بیساکھی کے سہارے رہے ہیں۔کبھی بھی اکیلے کچھ کرنے کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔خیر گجراتیوں نے جس طرح سے بہاریوں کو در بدر کیا ہے وہ ملک کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔آئین کی دفعہ ۱۹کے تحت کوئی بھی شہری ملک بھر میں کہیں بھی جا سکتا ہے،نوکری کر سکتا ہے،رہ سکتا ہے۔اس طرح یہ اس دفعہ کی سراسر خلاف ورزی ہے۔کبھی بال ٹھاکرے نے بھی ایسا ہی کیا تھا اوراْتر بھارتیوں کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔اس سے اگرچہ شیو سینا کو فائدہ ہوا اور خود ٹھاکرے کو بھی لیکن ملک کا تو نقصان ہی ہوا تھا۔ممبئی سے اگر اْتر بھارتی نکل جائیں تو ممبئی میں بچے گا کیا؟آج کے موجودہ شیو سینا میں یہ بات نہیں ہے لیکن راج ٹھاکرے کبھی کبھی اس موضوع کو اٹھاتے رہتے ہیں جس سے دہشت کا ماحول قائم رہتا ہے۔اس لئے اگر وَن انڈیا وَن نیشن پر عمل کرنا ہے تو وزیر اعظم مودی کو اس معاملے میں دخل دینا چاہئے ورنہ ممکن ہے کہ بنارس کی گلیاں ان پر تنگ ہو جائیں۔ویسے بھی بنارس سے تو وہ الیکشن لڑنے سے رہے اور اس واقعے کے بعد شمالی ہند میں ان کی بھکتی میں یقیناً کمی آجائے گی۔اگر یہی حال رہا تو وَن انڈیا وَن ٹیکس(جی ایس ٹی) کا کیا ہوگا؟اور اسے لوگ کیوں قبول کریں گے؟یہ سوچنے کا مقام ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883