معراج زرگر
جنرل ایڈمینسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سول سیکریٹیریٹ حکومت جموں و کشمیر کی طرف سے 30 جنوری 2025 کو جاری ایک حکم نامے کے مطابق ایک یونین ٹیریٹری سطح کی کمیٹی اور ایک پراجیکٹ منیجمنٹ کمیٹی کی تشکیل دی گئی ہے جو جموں و کشمیر میں نیشنل جیو اسپیشل نالج بیسڈ لینڈ سروے آف اربن ہیبیٹیشنز پائلٹ پروگرام (NAKSHA) کا جائزہ لیں گے اور اس کے ساتھ اس پراگرام کی نگرانی اور یونین ٹیریٹری میں اس پروگرام کے ممکنہ نفاذ پربھی کام کریں گے۔ یونین ٹیریٹری کی سطح پر چیف سیکرٹری صاحب اس کمیٹی کے چیرمین ہونگے اور فائنانشل کمشنر، ایڈمنسٹریٹیو سیکریٹری فائنانس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہائوسنگ اینڈ اربن ڈیولپمنٹ، پلاننگ ڈیولپمنٹ اینڈ مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ، ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اور کمشنر سیکڑیٹری، سروے اینڈ لینڈ ریکارڈس اس کے ممبران ہونگے۔ یہ کمیٹی اس پائلٹ پروگرام کے ممکنہ نفاذ اورپراگرس کا جائزہ لے گی اور سال میں کم از کم چار میٹنگوں کا انعقاد ممکن بنائیں گے تاکہ اس اہم نیشنل پراجیکٹ پر عملدرآمد کیا جا سکے۔
اسی متذکرالبالا حکم نامے کے مطابق یونین ٹیریٹری کی چار اربن لوکل باڈیز(اونتی پورہ، پٹن، بِشناہ، اور کٹرہ) میں اس نیشنل پروگرام کے نفاذ کے لئے ایک پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے، جس کے کنوینر کمشنرسروے اینڈ لینڈ ریکارڈس ہونگے اور اس کے ممبران میں ریوینیو ڈیپارٹمنٹ، ہائوسنگ اینڈ اربن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمایندے (جو ایڈمینسٹریٹیو سیکریٹری کی سطح کے ہونے چاہئیں)، ڈائریکٹر فائینانس آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے نمایندہ، تحصیلدار اونتی پورہ،بشناہ، کٹرہ، پٹن، متعلقہ یو۔ایل۔ بی کے ایگزیکیٹیوافیسر، پراجیکٹ کوارڈینیٹر، منیجر(جیو سپشیل ٹیکنالوجی)، پروگرامر(ایم۔آئی۔ایس اور جی۔آئی۔ایس)، جی۔آئی۔ایس ٹیکنیکل ایکسپرٹ، ریموٹ سینسنگ اینالسٹ اور ڈاٹا انٹری آپریٹر اس کمیٹی کے ممبران ہونگے۔
پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹ کا دائرہ کار نیشنل جیو اسپیشل نالج بیسڈ لینڈ سروے آف اربن ہیبیٹیشنز(نکشہ) پائلٹ پروگرام کا نفاذ ہوگا۔ یہ وہ واحد ایجنسی ہوگی جو مرکزی سرکار کے محکمہ لینڈ ریسورسز کے ساتھ رابطہ رکھے گی۔ اس کے علاوہ فیلڈ سروے ٹیموں، ڈرائیوروں اور معاون عملے کی تشکیل، پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹ کو درکار تکنیکی افراد، پراجیکٹ کے لئے درکار مشینری وغیرہ کی خرید و فروخت وغیرہ کی ذمہ داری بھی پی۔ایم۔یو کی ہوگی۔ یہ کمیٹی مستقل بنیادوں پر یونین ٹیریٹری لیول کمیٹی کو رپورٹس وغیرہ بھیجنے کی بھی ذمہ دار ہوگی۔ اس سارے پراجیکٹ میں محکمہ مال نوڈل ایجنسی کے بطور کام کرے گی۔
نیشنل جیو اسپیشل نالج بیسڈ لینڈ سروے آف اربن ہیبیٹیشنز ایک پائلٹ پروگرام ہے جو حکومتِ ہند نے ڈیجیٹل انڈیا لینڈ ریکارڈز ماڈرنائزیشن پروگرام کے تحت شروع کیا ہے۔ یہ اسکیم اکتوبر 2024 میں لانچ کی گئی اور اس کا مقصد شہری علاقوں کے زمین کے ریکارڈ کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل اور درست بنانا ہے۔ اس قومی سطح کے پروگرام کے مقاصد ایک تو شہری زمین کے ریکارڈ کی جدید کاری ہے۔ جس میں جدید جیو اسپیشل (Geospatial) ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زمین کے ریکارڈ کو اَپ ڈیٹ اور ڈیجیٹلائز کرنا ہے تاکہ یہ زیادہ قابلِ رسائی اور مستند ہو۔ اس کے علاوہ درست زمین کے ریکارڈ سے شہری منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور وسائل کی تقسیم میں بھی مدد ملے گی۔ مزید برآں شفاف اور مستند زمین کے ریکارڈ سے انتظامیہ کی کارکردگی بہتر ہوگی، زمین کے تنازعات کم ہوں گے اور عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
نیشنل جیو اسپیشل نالج بیسڈ لینڈ سروے آف اربن ہیبیٹیشنز (نکشہ) پائلٹ پروگرام کو ایک سال کی مدت میں 100 سے زائد شہروں میں نافذ کیا جائے گا۔ سروے آف انڈیا اس منصوبے میں تکنیکی شراکت دار ہوگا، جو جیو اسپیشل میپنگ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مہارت فراہم کرے گا۔ فضائی سروےکے ذریعے سے زمین پر جی۔این۔ایس۔ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور ہائی ریزولوشن ڈیجیٹل نقشے تیار کئے جائیں گے۔ مرکزی حکومت نے اس پائلٹ مرحلے کے لیے تقریباً ₹193.81 کروڑ روپے مختص کئے ہیں، جو فضائی اور زمینی سروے ڈیٹا پروسیسنگ اور ریاستی سطح پر اسٹیٹ پروگرام مینجمنٹ یونٹس (SPMUs) کے قیام پر خرچ ہونگے۔ فی الحال حکومت نے ان 100 شہروں کی مکمل فہرست جاری نہیں کی ہے، لیکن یہ شہروں کو مختلف ریاستوں اور خطوں میں متوازن نمائندگی دینے کے اصول پر منتخب کیا گیا ہے۔
چونکہ پورے ہندوستان اور ہمارے جموں و کشمیر میں سارا ریکارڈ کم حد تک یا زیادہ حد تک ناقابل رفتار ہوچکا ہے، جبکہ خصوصی طور شہری زمین کے ریکارڈ آبادی کے پھیلائو اور جدید ترقی کی وجہ سے کئی دہائیوں سے پرانے، غیر مستند اور غیر مربوط ہیں، بدیں وجہ زمین کے تنازعات، جائیداد کی غیر واضح ملکیت اور غیر منظم شہری ترقی جیسے مسائل درپیش ہیں۔ (نکشہ) نیشنل جیو اسپیشل نالج بیسڈ لینڈ سروے آف اربن ہیبیٹیشنز پائلٹ پروگرام انہی مسائل کے حل کے لیے ایک جدید اور ڈیجیٹل طریقہ کار متعارف کروا رہا ہے، جو ڈرون ٹیکنالوجی، جیو اسپیشل میپنگ اور جدید ڈیٹا پروسیسنگ سسٹمز کے ذریعے شہری زمین کے ریکارڈ کو اَپ ڈیٹ کرے گا۔
اس پروگرام کے تحت جدید ڈیجیٹل نقشے تیار کیے جائیں گےجو روایتی ہاتھ سے بنے ہوئے نقشوں کے مقابلے میں زیادہ درست اور تفصیلی ہوں گے۔ تھری ڈی ماڈلنگ کے ذریعے شہری زمین اور انفراسٹرکچر کی واضح تصویر کشی کی جائے گی۔ زمین کی ملکیت کے جدید اور مستند ریکارڈ ہونے سے غیر قانونی قبضے اور دھوکہ دہی میں کمی آئے گی۔ خریداروں، بیچنے والوں اور بینکوں کے لیے زمین کی ملکیت اور جائیداد کی قانونی حیثیت کی جانچ آسان ہوگی۔ تنازعات کے فوری حل کے لیے ڈیجیٹل پورٹلز اور آن لائن سرٹیفیکیشن کا نظام متعارف کرایا جائے گا۔
صحیح زمین کے ریکارڈ کے بغیر شہری ترقی غیر متوازن رہتی ہے۔ کئی جگہوں پر غیر قانونی کالونیاں، غیر مجاز تعمیرات اور ناقص بنیادی ڈھانچہ اسی وجہ سے بنتے ہیں۔
جدید زمین کے ریکارڈ کے ذریعے شہری ترقیاتی منصوبے زیادہ مؤثر اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق بنائے جا سکیں گے۔ سڑکوں، پارکوں، سیوریج اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے بہتر زمین مختص کی جا سکے گی۔ حکومت کو زمین پر غیر قانونی قبضوں کی شناخت میں مدد ملے گی اور دھوکہ دہی سے کی گئی رجسٹریشنز کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ ریئل اسٹیٹ ہندوستان کی معیشت میں 12 فیصد سے زیادہ کا حصہ رکھتا ہے، لیکن زمین کے غیر واضح ریکارڈ اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ زمین کے ڈیجیٹل ریکارڈ سے جائیداد کی خرید و فروخت آسان اور شفاف ہوگی۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو زمین پر قرض دینے میں زیادہ اعتماد ہوگا، جس سے معیشت میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ حکومت کو پراپرٹی ٹیکس اور دیگر محصولات جمع کرنے میں آسانی ہوگی، جو شہری سہولیات کی بہتری میں مدد دے گا۔ یہ اسکیم ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ اور ’’سمارٹ سٹیز مشن‘‘ جیسے قومی منصوبوں کی تکمیل میں بھی اہم کردار ادا کرے گی، جس سے بھارت کے شہری ترقیاتی نظام میں ایک انقلابی تبدیلی ممکن ہوگی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک شاندار پروگرام ہوگا، لیکن ضروری ہے کہ یونین ٹیریٹری لیول کمیٹی اور پراجیکٹ منیجمنٹ کمیٹی جموں و کشمیر میں زمینی حالات اور اراضی کے ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ذی مفاد فریقوں کی صلاح کو بھی مقدم رکھیں گے۔ کیونکہ حال ہی میں سوامیتا اور ڈرون سروے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جموں و کشمیر میں ریکارڈ کی نوعیت اور زمینی ہئیت کے ضمن میں بالکل احتمال ہے کہ اس قسم کی سروے ایک ٹھیک ٹھاک حد تک غلط بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جموں و کشمیر کے دو بڑے شہر یعنی جموں اور سری نگر پچھلی تین یا چار دہائیوں میں ہی بہت زیادہ پھیلے ہیں اور ان شہروں کے پھیلنے اور آباد ہونے میں بڑے بڑے اور قابل ستائش شہری پراجیکٹ یا ڈیزائن کا خیال نہیں رکھا گیا۔ جس طرح بھارت کے پرانے اور بڑے بڑے شہروں میں شہری پلاننگ کا خیال رکھا گیا ہے۔ ہماری یونین ٹیریٹری میں سارے بڑے بڑے شہروں اور قصبہ جات میں سڑکوں، کوہلوِں، سرکاری اراضی، شاملات، دریائوں وغیرہ پر بھی قبضہ ہوچکا ہے اور ریکارڈ کی نا دستیابی کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ استحقاق اور حقوق، جائز و ناجائز وغیرہ کو الگ نہ کیا جائے گا۔ اس لئے بہت ضروری ہے کہ محکمہ مال کے دیرینہ کارکنان اور ماہرین سے بھی مشورہ کیا جائے اور اگر ممکن ہو سکے تو بڑے پیمانے پر ورکشاپ یا سیمینار کرائیں جائیں تاکہ نیشنل سطح کے ایک شاندار پروگرام کا عملدرآمد بطریق احسن کیا جائے۔ مزید بر آں محکمہ مال میں مزید بھرتی کی جائے اورجدید طرز پر نئی بھرتیوں کی ٹریننگ وغیرہ ہوسکے۔
(کالم نگار محکمہ مال کے ایک دیرینہ کارکن ہیں)
رابطہ ۔9906830807