Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

یوں بھی ہوتا ہے

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 11, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
 ہزاروں میل کی مسافت طے کرنے کے بعد جب اس نےوادئ یمبرزل میں قدم رکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ واقعی وہ یہاں پہنچ گئی۔ ماہ نور بچپن سے ہی وادئ یمبرزل کی دیوانی تھی۔ اس نے اپنے والدین اور اپنے بڑے بزرگوں سے اس وادی کی خوب تعریفیں سنی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی، یہاں کے خوبصورت جنگلوں، جھیلوں،آبشاروں اور ندی نالوں، چناروں، خاص کر یہاں کی زیارتوں کے بارے میں وہ بچپن سے سنتی چلی آ رہی تھی۔ اس کے بڑے بزرگوں کو یہاں کی زیارتوں سے بڑی عقیدت و محبت تھی۔اس لیے ماہ نور خوابوں اور خیالوں میں ہمیشہ یمبرزل وادی کی سیر کرنے کا ضرور سوچتی تھی۔ اس کا دل بے تہاشہ مچل جاتا تھا۔زبان سے کچھ نہ کہتی مگر دل ہی دل میں اللہ کے حضور دعا ضرور کرتی۔ وہ دعا مانگتی رہی اور اس کی دعا قبول ہو گئی۔ ماہ نور کے شہر میں شدت کی گرمی تھی اور ہرگزرنے والے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا تھا۔ اس کے چاچا چاچی نے اپنے بچوں کے ساتھ وادئ یمبرزل جانے کا پروگرام بنایا۔ماہ نور نے اپنے والدین سے اجازت لی اور چاچا کی فیملی کے ساتھ اپنی دو مہینے کی چھٹیاں گزارنےیمبرزل کے لیے روانہ ہو گئی۔ اسے یہ کسی حسین  خواب کی تعبیر کی طرح لگ رہا تھا۔
یہاں پہنچ کر وہ اپنے دوے کے رشتہ داروں کے یہاں ٹھہرے۔ ان کا استقبال بڑی عزت و احترام کے ساتھ کیا گیا۔ رشتہ داروں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔شاہ زیب اورشہریار اور ان کے بھائی بہن بہت خوش تھے کیونکہ اتنی دور سے آئے ہوئے مہمانوں کے آنے سے ان کے گھر میں ایک رونق سی آ گئی تھی۔ سب سے پہلے وہ ایک درگاہ پر حاضری دینے چلے گئے۔ شہریار اور شاہ زیب بھی ان کے ساتھ تھے۔
شاہ زیب گھر کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔وہ لمبے قد کا خوش شکل لڑکا تھا۔ اس کی چال شہزادوں جیسی تھی۔ بےحد خوش اخلاق ، خوش مزاج، نیک اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والا بہادر لڑکا تھا۔ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے ہمیشہ پیار کرنے والا دنیا کے فسادوں سے پاک و صاف۔ ہمیشہ دوسروں کے کام آنا اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس کے اندر محبت سے لبریز دل تھا۔ نور کو دیکھ کر اسے ایک عجیب سا احساس ہونے لگا۔ وہ بار بار اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت رک گیا ہو۔نور اس کے دل میں سما گئی۔ اس کی محبت کے پر پھڑپھڑانے لگے۔ دوسری طرف نور کا بھی یہی حال تھا۔ اسےلگ رہا تھا جیسے اس کا اور شاہ زیب کا ازل سے رشتہ تھا۔ دونوں زبانوں سے کچھ نہ بولے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میںباتیں ہوئیں۔
انہوں نے درگاہ پر حاضری دی۔ وہ لوگ زیارت سے باہر آئے ۔ شاہ زیب سے رہا نہ گیا۔ اس نے نور سے دھیمے سے پوچھا کہ اس نے رب سے کیا مانگا۔ "میں نے آپ کو مانگا رب سے اپنے لیے" نور کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ جیسے وہ شاہ زیب کو برسوں سے جانتی ہو۔ اس کے بعد وہ ایک جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ گاڑی میں سب کے درمیان بہت سی باتیں ہوئیں ۔وہ لوگ ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔کھانا کھا کر وہ لوگ جھیل کے کنارے بیٹھ گئے۔ نور سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے شاہ زیب اچانک  کھو سا گیا۔کچھ پل خاموش رہنے کے بعد نور نے شاہ زیب سے پوچھا: " آپ کن خیالوں میں کھو گئے "۔ شاہ زیب نے نور کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں محبت کی سچائی تھی۔ شام ڈھلتے وہ لوگ گھر پہنچ گئے۔ ماہ نور چند دنوں میں ہی شاہ زیب کے گھر والوں سے گھل مل گئی کیونکہ وہ بہت ملنسار تھی۔ شاہ زیب نے ان لوگوں کو پوری وادی کی سیر کرائی۔ موسم بہار اپنے شباب پر تھا۔ ماہ نور کو یہ جگہ دنیا کی حسین ترین جگہ لگی۔ مسلسل دو مہینےصبح سے شام تک کا ساتھ رہا۔ لیکن جو مہمان ہوتا ہے اسے ایک دن واپس ضرور جانا ہوتا ہے۔ ان کی مہمان داری بھی خوب ہوئی۔ اچھا وقت گزر گیا۔ دو مہینے کیسے بیت گئے کسی کو پتہ نہ چلا۔ وہ لوگ ڈھیر ساری یادیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے لیکن نور کی روح یمبرزل وادی میں ہی رہ گئی۔ وہ محبت کے رنگ میں رنگ چکی تھی۔
ماہ نور کے چلے جانے کے بعد شاہ زیب گم صم رہنے لگا۔ ان کا ملنا جلنا محال تھا کیونکہ وہ ایک دوسرے سے کوسوں میل دور تھے۔ لیکن دوریوں میں بھی ایک دلکش احساس ہوتا ہے، پاس پاس ہونے سے بھی زیادہ۔ اب وہ دونوں اپنے جذبات ایک دوسرے تک خط کے ذریعے پہنچانے لگے۔ جب بھی شاہ زیب خط لکھتا تو اس میں سب سے پہلے یہ شعر ضرور لکھتا تھا
“تصور میں ہمارے کب تیرا چہرہ نہیں ہوتا
بہیں گے جب تلک نہ چند آنسو یہ غم ہلکا نہیں ہوتا"
اس کے بعد ڈھیر ساری باتیں ہوتیں، ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں وعدے ، اقرار ہوتا۔ کبھی کبھی ایک دوسرے سے روٹھ جاتے، جھگڑتے ،ایک دوسرے کو مناتے اور پھر صلح کرتے۔ وہ دونوں مستقبل کے خواب ترتیب دیتے۔ وہ دونوں باتوں ہی باتوں میں محبت کی کشتی میں سوار ہو کر بہت آگے نکل جاتے ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کے دلوں میں محبت کی شدت آ گئی۔
ایک دن اچانک نور نے پہلی بار شاہ زیب کو فون کیا اور بتایا کہ اس کے گھر والے اس کا رشتہ طے کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ جتنی جلدی ہو سکے اپنے ابا کو میرے گھر رشتہ لے کر بھیج دو۔ نور کی باتیں سن کر شاہ زیب اداس ہو گیا۔ اس کی محبت کا ہمراز اس کا بڑا بھائی شہر یارتھا۔ شاہ زیب نے ساری بات اس کو سنائی۔ شہر یار نے اسے یقین دلایا کہ ان کے ابا ان کی بات نہیں ٹالیں گے۔ شہر یار نے شاہ زیب کا رشتہ ماہ نور سے طے کرنے کی بات کی تو سب لوگ حیران رہ گئے کیونکہ شاہ زیب گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ لیکن انسان کو اپنی اولاد سے بے پناہ محبت ہوتی ہے ۔ اس کے ابا بہت دور اندیش تھے۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ اولاد انمول دولت ہے۔ اولاد کا دل رکھنا ہی بڑی بات ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔شہر یار کے کہنے پر وہ ماہ نور کے گھرپہنچے اور اس کے والدین سے نور کا رشتہ شاہ زیب کے لیے مانگا۔رشتے کی بات سن کر نور کے ابا نے صاف صاف انکار کر دیا۔ انکار کی کوئی خاص وجہ نہ تھی بس اتنا کہ وہ اتنی دور اپنی بیٹی کو نہیں بیاہنا چاہتے تھے۔ شاہ زیب کے ابا نے ان کی کافی منتیں کی مگر وہ نہ مانے اور اپنی ضد پر قائم رہے۔ گھر میں عجیب تناو بھرا ماحول بن گیا۔ ایک طرف باپ کی ضد اور دوسری طرف بیٹی کی عجیب خاموشی۔کئی دنوں بعد مایوس ہو کر شاہ زیب کے ابا اپنے گھر کی اور روانہ ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد نور کا اداس چہرہ دیکھ کر اس کی امی اس کے پاس آئی تو انہیں اپنی بیٹی کی خواہش کا پتہ چلا ۔ وہ اسے منانے لگی، دنیا کی اونچ نیچ سمجھانے لگی۔ نور نے ماں کے سینے سےلگ کر کہا :" ماں میں آپ دونوں کی رضامندی کا انتظار عمر بھر کروں گی"۔ نور کی یہ بات ان کے دل پر ایک تیر کی طرح لگی۔ وہ موم کی طرح پگھل گئیں۔ 
شاہ زیب کے ابا جب گھر پہنچے تو گھر کے سارے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے ۔شاہ زیب کے ابا کا مایوس چہرہ دیکھ کر ان لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ نور کے گھر والوں نے رشتے سے انکار کر دیا ہے۔عین اسی وقت کمرے میں رکھا ہوا ٹیلیفون بج اٹھا ۔شہر یار نے فون رسیو کیا تو دوسری طرف نور کے ابا تھےجو اس کے ابا سے بات کرنا چاہتے تھے۔ بات کرنے کے بعد انہوں نے رشتہ قبول ہونے کی خوش خبری سنائی۔ شاہ زیب کے ابا نے اطمینان کی سانس لی۔ شاہ زیب کے گھر والوں نے سجدہ شکر ادا کیا۔ اس طرح نور اور شاہ زیب کا رشتہ طے ہو گیا۔ باقاعدہ سگائی ہوئی۔ دونوں خاندان مطمئن اور خوش تھے۔ سارے مشکل راستے ہموار ہو چکے تھے۔ نور اور شاہ زیب کو اپنی خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ سب سے زیادہ مطمئن شاہ زیب تھا۔ شاید اس لیے کہ اسے اپنی منزل مل گئی تھی۔
وقت کی ندی اپنی رفتار سے بہتی رہی۔ آنے والے موسم بہار میں شادی کی تاریخ طے ہوئی ۔ دونوں گھر شادی کے مرحلے طے کرنے میں مصروف ہو گئے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ شاید اس دن ماحول پر خاموش سی اداسی چھائی تھی۔ موسم بے حد سرد۔ شام کو اچانک شاہ زیب کی طبیعت خراب ہو گئی اور یہ شام شاہ زیب کی آخری شام ثابت ہوئی۔
دونوں خاندانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ سب کچھ بکھر گیا۔ ہر طرف ماتم اور صرف ماتم۔ وقت تھم سا گیا تھا۔ جیسے سورج اور چاند اپنا وجود چھپا چکے تھے۔ ایک تیز طوفان آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔ نور کے معصوم ارمان خاک میں مل گئے۔ اس نے کبھی سوچا نہ تھا کہ شاہ زیب اسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ نور فریاد کرتی تو کس سے۔ جس کے سہارے اسے زندگی کا سفر طے کرنا تھا وہ اسے بیچ سمندر میں ہی تنہا چھوڑ کر خود اکیلے بہت دور چلا گیا۔
 شاہ زیب کی موت نے سب کی کمر توڑ دی لیکن کسی کے چلے جانے سے زندگی نہیں رکتی۔ وقت کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ زخموں پر مرہم کا کام کرتا ہے۔ اچھا ہو یا برا، گزر ہی جاتا ہے۔ اپنے پیچھے تلخ و شیریں یادیں چھوڑ کر۔ شاہ زیب ایک خوشبو کے جھونکے کی طرح آیا اور ہوائوں میں تحلیل ہو گیا ۔ وقت گزرتا گیا۔ شاہ زیب کے گھر والے کچھ حد تک سنبھل گئے۔ نور کے والدین بھی اس صدمے سے باہر آئے مگر نور کی حالت پاگلوں جیسی تھی۔ آخر کار شاہ زیب کے والدین نے کچھ سوچ سمجھ کر ایک بار پھر ہمت کی اور ایک بار پھر رشتے کی جھولی پھیلانے نور کے گھر پہنچے ۔۔ان کی حالت دیکھ کر اور نور کی حالت دیکھ کر نور کے ابا انکار نہ کر سکے۔ اس طرح نور کا رشتہ شاہ زیب کے بڑے بھائی شہر یار کے ساتھ طے کیا گیا۔ اب کی بار نور بالکل ہی خاموش تھی۔ اس نے بولنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ وہ بس اپنی انگلیاں مروڑتی رہی۔ نور آسمان کی طرف دیکھتی اور خلاوں میں جیسے کچھ تلاش کرتی۔ ایک سال بعد بڑی خاموشی اور سادگی کے ساتھ نور کے ہاتھوں میں شہر یار کے نام کی مہندی سج گئی۔ جب نور دلہن بن کر یمبرزل وادی آئی تو آج اس کا ہم قدم شاہ زیب نہیں شہر یار تھا۔ ان کی گاڑی میں بجتا سہیل حیدر کا یہ گانا اس کے دل کی ترجمانی کر رہا تھا:
’’سنے نہ کوئی دل کی سدا تیرے سوا
میرے خدا یہ کیسی ملی مجھے سزا
وہی راستہ وہی رہگزر، بنا جس پہ وہ میرا ہمسفر 
تیری یاد کی وہ نشانیاں ہیں جا بہت جا بکھری ہوئی
انہیں روک لوں انہیں تھام لوں
تیری ذات پھر سے سمیٹ لوں
کیا میرا بھی یہی نصیب ہے
جو ہے اجنبی وہ قریب ہے
مانگا جسے وہ ملا نہیں 
رہی پیار کی یہی ریت ہے
مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں 
جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر“
اس بے بسی پر نور کی آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو بہہ رہے تھے۔ ہر طرف یادیں تھیں ۔ ہر راستہ جانا پہچانا تھا۔ شاہ زیب اور نور کی محبت کی گواہ پوری وادی تھی۔ یہاں کی فضا تھی۔ ہر موڑ پر جیسے شاہ زیب کھڑا اس کا مسکرا کر استقبال کر رہا تھا۔
نور کو اپنے ابا سے کوئی گلہ نہ تھا۔ اس کے دل میں ان کے لیے ادب احترام اور محبت تھی جنہوں نے اس کی خوشی کی خاطر اپنے دل پر پتھر رکھا تھا۔ اس کو سب سے محبت تھی۔ البتہ عمر بھر کے لئے اس کے دل میں ایک ملال رہ گیا تھا۔ وہ آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے شاہ زیب کا چہرہ نہ دیکھ پائی اور ساتھ ساتھ یہ سوچ رہی تھی کہ اب زندگی کا سفر کیسا ہوگا اس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتی تھی کیونکہ شہر یار کے حصہ میں صرف ایثار آیا تھا۔ شہر یار کے ایثار نے شاہ زیب کی محبت کو  امر کر دیا۔ اس کے ذہن میں ایسے بہت سے سوال گونج رہے تھے۔ جن کا جواب ان کے پاس نہ تھا۔ شاہ زیب کے چلے جانے سے سب بہت بے بس ہو گئے تھے۔ ماہ نور کو محبت نے گہرا زخم دیا تھا۔ اور وقت درکار تھا مرہم کے لیے۔ محبت انسان کو نہ ملے تو انسان پھر بھی زندہ رہتا ہے۔ زندگی بھی گزارتا ہے مگر ایک کسک کے ساتھ۔ ۔ آج شاہ زیب کی یاد سب کو تڑپا رہی تھی جو اپنے گھر سے تھوڑی دور گلستان نما آبائی قبرستان میں منوں مٹی کے نیچے گہری نیند سویا ہوا تھا۔ 
جدا ہونے کا اندیشہ جدا ہونے سے پہلے تھا
وہ مجھ سے انتہائی خوش، خفا ہونے سے پہلے تھا
 
—-
پہلگام، اننت ناگ،
رابطہ : 9419038028، 8713892806
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

انڈیگو پرواز پرندے سے ٹکراؤ، انجن میں خرابی کے باعث پٹنہ میں ہنگامی لینڈنگ
تازہ ترین
سری نگر میں این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت لاکھوں روپیے مالیت کی غیر منقولہ جائیداد ضبط:پولیس
تازہ ترین
ہسپتالوں میں طبی عملے کی کمی سنگین مسئلہ، راتوں رات حل نہیں ہو سکتا : سکینہ ایتو
تازہ ترین
موسم میں بہتری اور عوامی رائے کے پیش نظر اسکولوں کے اوقات کار میں تبدیلی ممکن:سکینہ ایتو
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?