اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے کہ ملک عزیز میں مسلمانوں کی حیثیت صفر سے زیادہ نہیں ہے خواہ کتنے ہی خوش ہو لینے کے دعوے کئے جائیں حکومت کے ذریعے،تنظیموں کے ذریعے یا مقتدر افراد کے ذریعے۔دراصل خدا نے انسانوں کو اْن کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔عادتیں تو تبدیل ہوتی ہیں لیکن فطرت میں بدلاؤفطرت کے خلاف ہے۔تنظیم یا پارٹیاں انسانوں ہی کا مجموعہ ہیں اور یہی سبب ہے کہ تنظیم یا پارٹیوں کی بھی ایک مخصوص فطرت ہوتی ہے۔جیسے یہ مقولہ مشہور ہے کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گاکیا؟ٹھیک اْسی طرح افراد، تنظیم یا پارٹیاں بھی اپنے چارے کے ساتھ دوستی نہیں کر سکتیں۔جب اْن کی سیاست کا دارومدار ہی یک رُخی دشمنی پر منحصر ہو تو اْن سے کسی طرح کی دوستی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔یہ قطعی فریب ہے کہ اقتدار کی حصولیابی کے بعد کردار میں تبدیلی آجاتی ہے یا آجائے گی اور وہ پارٹی کرسی حاصل کرنے کے بعد اپنی روش ترک کر دے گی۔
۲۰۰۹ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات سے ہی ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح ایک خاص طبقے کو نشانہ بناکر کنارے لگایا جا رہا ہے اور آج۲۰۱۷ء میں اس کی شدت میں کس قدر اضافہ ہوا ہے کہ اتر پردیش ایک بڑا گجرات بن گیا ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ کی تاجپوشی ہندوستانی سیاست کیا بر صغیر بلکہ دنیا بھر میں کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ جانتے بوجھتے یہ قدم اٹھایا گیا ہے کہ ملک کے ایک خاص طبقے کو ہراساں اور خوف زدہ کیا جاسکے۔یہ بے چوں و چراں ایک سوچا سمجھا اقدام ہے۔اسی کو کہتے ہیں کہ مَرے پر سو دْرّے۔یوپی کے مسلمان سیکولر پارٹیوں کی ہار( اپنی مفروضہ ہار) سے ابھی اْبھربھی نہیں پائے تھے کہ یہ فیصلہ انہیں مزید مبتلائے غم و یاس کر گیا۔ایک ہفتے تک وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں جو ڈراما رچا گیا وہ دنیا کو دکھانے کے لئے تھا،فیصلہ تو چناؤ سے پہلے ہو چکا تھاکہ وزیر اعلیٰ کی کرسی کسے تفویض کرنی ہے۔اس انتخاب سے بھلے ہی ایک طبقہ بے حد خوش ہو لیکن باقی ماندہ لوگوں کو بھی ہم نوا ہو جانے میں کتنی دیر لگے گی!کیونکہ قومی میڈیا نے آدتیہ ناتھ کے گن گان کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا جس طرح شروع کر دئے ہیں،مودی بھی کہیں شرمسار نہ ہو جائیں کہ جو میڈیا ان (مودی) کے گن گان میں رات دن مشغول رہا کرتا تھا ،اب کہیں اس کی وفاداری یوگی کی جانب منتقل تو نہیں ہو گئی؟بہر کیف یہ تمام ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔باہر کے لوگ جو بھی سوچیں لیکن بھیتر سے یہ ہیں سب ایک ہی اور ضرورت پڑنے پر ان کا ایک ایک فرد قربانی دینا جانتا ہے اور اسی کو فرما ںبرداری کہتے ہیں جو دوسری اقوام اور پارٹیوں میں مفقود ہے۔اس کی مثال اڈوانی ،جوشی ،یشونت سنہا وغیرہ ہیں جنہوں نے ’چپی‘ کا جو مظاہرہ کیا ہے ،وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔تقریباً ۳؍ برسوں سے ان کے منہ پر تالا پڑا ہوا ہے۔ایک چپ ہزار چپ۔ایسا نہیں ہے کہ ان کے پیرو پارٹی اور پارٹی کے باہر نہیں ہیں بلکہ جس تربیت گاہ کے یہ پروردہ ہیں ،اس کے احکام کو بجا لانااور نبھانا یہ جانتے ہیں۔ان کے سامنے ایک ’واضح کاز‘ ہے اور اسی’ ہدف‘ کو پانے کے لئے اس تنظیم کے رضاکار کاربند ہیں اور پابند بھی۔باقی تمام چیزیں ان کے لئے ثانوی ہیں۔کیا یہ خوبی دوسری پارٹیوں یا اقوام کے رضاکاروں میں ہیں ؟اگر ہوتیں تو ۸۴؍برس کے ایس ایم کرشنا کانگریس چھوڑ کر ابھی ابھی بی جے پی میں نہیں جاتے!سنگھ پریوار میں ایک ساتھ رہنے کا جو ماحول ہے وہ ہندوستان کے کسی پریوار میںنہیں۔یوگی آدتیہ ناتھ کئی دفعہ بی جے پی اور اس کی شریک تنظیموں کو کھلم کھلا چیلنج کر چکے ہیں اور اپنی الگ شناخت کو برقرار رکھا ہے لیکن جو ہدف آدتیہ ناتھ کا ہے وہی ہدف سنگھ پریوار کا بھی ہے اور جب ’ہدف‘ ایک ہو تو ہدف حاصل کرنے والوں کو ایک ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
آدتیہ ناتھ کو سنگھ پریوار نے اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ مقرر کرنے سے زیادہ مسلمانوں پر مسلط کیا ہے۔یوپی میں مسلمان نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ بی جے پی اقتدار میں آجائے گی۔انہوں نے اپنی مقدور بھر جتن کئے کہ اْن کے ووٹ منتشر نہ ہوں لیکن دوسری پارٹیوں نے ان کی کاوشوں کا احترام نہیں کیا۔پارٹیوں کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں تھی۔ایک ہی سیٹ سے دو دو تین تین مسلمان امیدوار زور آزمائی کر رہے تھے جہاں پر مسلمانوں کی خاطر خواہ آبادی تھی۔چونکہ یوپی میں اوسطاً ۶۰؍فی صدووٹ پڑے ہیں اور ۴۰؍ فی صد کے قریب بی جے پی کی جھولی میںآئے ہیں۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ۶۰؍ فی صدلوگوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے جس میں مسلمانوں کا اوسطاً فی صد ۲۰؍ہو سکتا ہے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے مسلمان ووٹنگ میں دلچسپی نہیں لیتے۔یہ ایک الگ موضوع ہے کہ مسلمان ووٹنگ میں حصہ کیوں نہیں لیتے،اس حقیقت کی رُو سے مسلمانوں کے علاوہ ۴۰؍ فی صددوسرے اور ہیں جو بی جے پی کو نا پسند کرتے ہیں۔اکثر سیٹوں پر بہت کم ووٹوں سے ہار جیت کا فیصلہ ہوا ہے۔بی جے پی کی قسمت اچھی تھی ورنہ ووٹوں کے پڑنے والے پیٹرن کے معمولی ہیر پھیر سے نتیجہ اِدھر کا اْدھر ہو سکتا تھاکیونکہ کسی نے قسمت کے تعلق سے کیا خوب کہا ہے کہ’’بے شرم سے بَلا دور؛ جتنا مارو جوتے؛ اْتنا آئے نور!‘‘۔بی جے پی کاپے درپے جیت درج کرنا اور وہ بھی کوئی کام کئے بغیر یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا یہ کبھی کام بھی کریں گے؟کیونکہ اقتدار حاصل کرنا الگ بات ہے اور اْس کے بعد کام کرنا دوسری بات۔تقریباً ۳؍ برسوں سے ہندوستان میں کیا چل رہا ہے ، معیشت کیا کروٹ لے رہی ہے،بے روزگاری میں کس قدر اضافہ ہوا ہے،لوگوں کی خرید قوت کتنی متاثر ہوئی ہے،یہ تمام باتیں اور ان کے اثرات سے ملک کا ایک ایک فرد واقف ہے لیکن متعدد نئی حکومتیں ان کی اَن دیکھی کر رہی ہیں اور اس کے باوجود انتخابات بھی جیت رہی ہیں۔کام کئے بغیر اگر معاوضہ ملنے لگے تو کوئی کام کیوں کرے؟اسی لئے بی جے پی سے بھی کوئی امید نہیں ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں کوئی ترقیاتی کام کرے گی۔اس کا نعرہ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ ایک حسین فریب سے زیادہ کچھ بھی نہیںاور اس کے دام میں اکثریتی طبقہ بْری طرح پھنس چکا ہے۔ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی اگر اکثریتی طبقے کا ووٹنگ کرنے کا یہی انداز رہا۔کیونکہ جو قوت اس سے فراہم ہو رہی ہے وہ ملک کے لئے نہ صرف مہلک ہے بلکہ اس ملک کو منقسم کرنے کی جانب ایک قدم ہے۔اکھنڈ بھارت کا سپنا غیر مناسب تو نہیں لیکن موجودہ بھارت کو یکجا رکھنا کہیں مشکل نہ ہو جائے!
یوپی کے اس الیکشن میں مسلمانوں نے کوئی غلطی نہیںکی تو اس کا خمیازہ بھی وہ کیوں بھگتیں گے۔حکومت ضرور بدلی ہے ،اب تو یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کس طرح کرتی ہے۔شہریوں کو تنگ کرنا حکومت کا کام نہیں لیکن حکومت کی نظر میںجو غیرقانونی کام ہیں اْن پر قد غن لگانے سے حکومت کو روکا نہیں جاسکتا۔پس مسلمانوں کو چاہئے کہ قانونی طور پر اپنا کام انجام دیں۔قانون کے دائرے میں اپنا کاروبار کریں۔ہر طرح کے کاغذات جو اس کاروبار کے لئے ضروری ہیں وہ حاصل کریں اورملک کا ایک اچھا شہری بن کر رہیں۔ شروع میں مسلمانوں کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے کہ وہ اب ’صفر‘ سے زیادہ نہیں تو مسلمانوں کو اب یہ کرنا ہے کہ یہ ’صفر‘ دائیں جانب لگ جائیں۔انشااللہ وہ سرخرو بھی ہوںگے اور ملک ہندوستان بھی ترقی کرے گا۔توڑنے والی طاقتیں نیست و نابود ہوں گی۔اگر اْن کی نیت میںکھوٹ ہے تو وہ ضرور ناکام ہوں گی۔مسلمانوں کو اپنی نیت صاف و شفاف رکھنی ہے کہ اللہ بہت بڑا اور مہربان ہے!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ’’ تحریرِ نو‘‘ ۔ نئی ممبئی کے مدیر ہیں
(رابطہ983399883)