عظمیٰ نیوز سروس
کیف //یوکرین کے سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ یوکرین نے امریکا کے ساتھ معدنیات کے ایک بڑے معاہدے کی شرائط پر اتفاق کرلیا ہے۔سینئر یوکرینی عہدیدار نے مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ ’ہم نے واقعی کچھ اچھی ترامیم کے ساتھ اس پر اتفاق کیا ہے اور اسے ایک مثبت نتیجے کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن نے قدرتی وسائل کے استعمال سے 500 ارب ڈالر کی ممکنہ آمدنی کے حق کے ابتدائی مطالبات کو ترک کر دیا ہے، لیکن جنگ زدہ یوکرین کو ٹھوس سیکیورٹی گارنٹی نہیں دی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ ان کے یوکرین کے ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی اس ہفتے واشنگٹن میں معاہدے پر دستخط کریں گے۔معاہدے کی تصدیق کیے بغیر ٹرمپ نے منگل کے روز کہا تھا کہ معاہدے کے بدلے میں یوکرین کو ’لڑنے کا حق‘ ملے گا۔انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ بہت بہادر ہیں لیکن امریکا، اس کے ڈالر اور امریکی فوجی سازوسامان کے بغیر یہ جنگ بہت کم وقت میں ختم ہوگئی ہوتی۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یوکرین کو امریکی سازوسامان اور گولا بارود کی فراہمی جاری رہے گی، امریکی صدر نے کہا کہ شاید اس وقت تک جب تک ہم روس کے ساتھ معاہدہ نہیں کر لیتے، ہمیں ایک معاہدے کی ضرورت ہے ورنہ یہ جنگ جاری رہے گی۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ کسی بھی امن معاہدے کے بعد یوکرین میں کسی نہ کسی طرح کے امن کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ سب کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔یوکرین میں لیتھیم اور ٹائٹینیم سمیت اہم معدنیات کے ذخائر کے ساتھ ساتھ کوئلے، گیس، تیل اور یورینیم کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے سے امریکا کو یوکرین پر خرچ کیے گئے اخراجات سے کہیں زیادہ رقم ملے گی۔یوکرین کی حکومت کے ذرائع کے مطابق اس مرحلے پر جس چیز پر اتفاق کیا گیا ہے وہ معاہدے کی ابتدائی شرائط ہیں، جس میں ملک کی اہم معدنیات اور دیگر وسائل شامل ہیں۔یوکرین کے عہدیدار نے کہا کہ معاہدے کی شقیں اب یوکرین کے لیے بہت بہتر ہیں۔رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ اس میں ایک مشترکہ ملکیت کا فنڈ تشکیل دیا جائے گا جو یوکرین کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کی تعمیر نو کے لیے استعمال ہوگا، یوکرین مستقبل میں سرکاری ملکیت کے معدنی وسائل، تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 50 فیصد فنڈ میں عطیہ کرے گا اور اس کے بعد فنڈ یوکرین کے ہی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔مذاکرات کی قیادت کرنے والے یوکرین کے نائب وزیر اعظم اولہا اسٹیفنشینا نے ’فنانشل ٹائمز‘ کو بتایا کہ یہ معاہدہ بڑی تصویر کا ایک حصہ ہے۔ایک معاندانہ پس منظر میں جہاں واشنگٹن، ماسکو کے ساتھ اتحاد کرتا دکھائی دیتا ہے، یہ امید کی جاتی ہے کہ یہ معاہدہ مزید تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔گزشتہ ہفتے ہی ٹرمپ نے زیلنسکی کو ’ڈکٹیٹر‘ قرار دیا تھا اور جنگ شروع کرنے کے لیے روس کو نہیں بلکہ یوکرین کو مورد الزام ٹھہرایا تھا، جب یوکرین کے رہنما نے 500 ارب ڈالر کی معدنی دولت کے امریکی مطالبے کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ امریکی صدر روس کی جانب سے پیدا کردہ ’غلط معلومات‘ کے ببل میں رہ رہے ہیں۔منگل کے روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا نے یوکرین کو 300 سے 350 ارب ڈالر دیے ہیں، ہم وہ پیسہ واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم ایک بہت بڑے مسئلے سے نمٹنے میں ملک کی مدد کر رہے ہیں، لیکن اب امریکی ٹیکس دہندگان کو ان کا پیسہ واپس ملے گا۔امریکی صدر نے کہا کہ ’سنا ہے زیلنسکی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جمعے کو واشنگٹن ڈی سی آئیں گے۔‘کیف کو امید ہے کہ اگر جنگ بندی پر دستخط کے بعد یہ جنگ دوبارہ شروع ہوتی ہے تو وائٹ ہاؤس کو یوکرین کے تحفظ کی وجہ مل سکتی ہے۔