منظور الٰہی۔ترال
نئی نسل کسی بھی قوم یا کسی بھی معاشرے کے لیے ایک امید کی کرن ہوتی ہے ہر ایک والدین کی خوشائی رہتی ہے کہ ہم اپنے بچے کو اچھے سے اچھی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ مستقبل میں والدین کے نام کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کا نام روشن کریں وہ واحد تعلیم ہے جس سے نام روشن ہو سکتا ہے لیکن اس نئی نسل کے پیچھے ہمارے بزرگ اور ہمارے والدین کا بھرپور ہاتھ ہونا چاہیے نئی نسل اور نوجوانوں کی تربیت میں قوم کے بزرگ نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔عقلمند اور باشعور بزرگ نوجوانوں کو ہمیشہ راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔اگر قوم کے بزرگ خود ہی گمراہی، بدچلنی یا غفلت کا شکار ہوں تو نوجوانوں کے راہ راست پر آنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں ۔بزرگ نئی نسل کے لئے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور برا نمونہ نسل نو کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ہماری قوم اس وقت اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور شوشل میڈیا کے منفی استعمال کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں اخلاقی کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں ۔والدین کی اکثریت معاشی سرگرمیوں اور روزگار کی الجھنوں میں اس حد تک گرفتار ہوچکی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مشاغل سے صحیح طور پر واقف نہیں ہیں۔ والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے نوجوانوں کے اخلاقی بگاڑمیں بتدریج اضافہ ہو رہاہے ۔معاشرے میں کثرت سے ہونے والے جنسی جرائم اس اخلاقی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔اگر معاملہ معاشرے کے ذمہ داران اور والدین کی عدم توجہ تک محدود رہتا تو پھر بھی بہتری کے امکانات باقی رہتے لیکن اس وقت معاملہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال سے نوجوان نئی نسل کے کچھ بچے اور نوجوانوں نے تعلیم سے دوری اختیار کر کے اُن کاموں کو اپنی ترجیح بنا دیا ہے جن کی بنیاد بالکل کم ہوتی ہے جن سے ان کا بنیادی کریئر نہ صرف ضائع ہوتا ہے بلکہ ان کی زندگی تباہ برباد ہو جاتی ہے جس سے بعد میں پچھتانے سے منشیات کے ناپاک گلیزہ دھندے میں یہ لوگ بھی گرفتار ہو جاتے ہیں آئے روز وادی کشمیر سے سوشل میڈیا پر صرف یہی چل رہا ہے کہ یہ ہے گائز میرا گھر یہ گائز میری گاڑی ہے گائز میرا دسترخوان ہے گائز میرا کچن بد قسمتی سے نوجوان نئی نسل کے بچوں نے تعلیم کو بالا تاک رکھ کر ہاتھوں میں موبائل کیمرہ لیے ہوئے اپنے گھر کی ہر ایک اخراجات سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے یوٹیوب بلاگنگ کے نام پر دکھا رہے ہیں یہ ہولناک حملہ یہاں تک ہو چکا ہے کہ اپنی ماں بہن کی عزت کے ساتھ بھی کھلواڑ کر رہے ہیں اور ان کے والدین ان پر فخر کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں لیکن اس بات سے نہ واقف یہ نادان کہ آیا ان کی زندگی دھوکے میں چل رہی ہے جو کہ افسوس ناک منظر ہے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی پر کشمیر میں نئے نئے یوٹیوب بلاگر نکل کر آرہے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے اور کشمیری سماج کے بچے تعلیم سے دوری اختیار کر رہے ہیں چند کشمیری نوجوان جو اب یوٹیوب والاگر بن رہے ہیں اور کشمیری قوم جو ان کو یوٹیوب والاگر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے ان نوجوانوں کی وجہ سے شہر و گاؤں دیہات گلی کوچوں سے اب یوٹیوب ولاگر کے نام پر بن بن کر سامنے آرہے ہیں یہ نوجوان نہ صرف خود کو بگاڑ رہے ہیں بلکہ معاشرے کا ہر ایک بچہ بگڑ رہا ہے وہاں ہیں اگر دوسری جانب سے دیکھا جائے تو ان نوجوانوں کے فالو فینی میں کہیں نہ کہیں کشمیری عوام حد نبھا رکھتی ہے ہم پڑھے لکھے باشعور انسان ہونے کے ناطے بھی ان بچوں نوجوانوں کو شوشل مڈیا پر اتنا سپورٹ دیتے ہیں جن سے ان کا من زیادہ ہی سوشل میڈیا کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور ان کی وجہ سے کئی بچے تعلیم سے دوری اختیار کر لیتے ہیں دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اپنے ملک و معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کےلئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتی ہے ، اور ان کے مسائل کے حل کےلئے خصوصی اقدامات کئے جاتے ہیں، کیونکہ اگر نوجوان درست ڈگر سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک تندرست اور باشعور قوم بننے کےلئے ہمیں اپنے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کرنا ہوگی اور اس کے لئے حکومتی اداروں،والدین ،اساتذہ ، سول سوسائٹی کے اداروں کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کو اپنی زمہ داری ادا کرنی ہوگی ، تاکہ ہمارا آج کا نوجوان باعمل اور باشعور شہری بن کر اپنی خدمات بھرپور انداز میں پیش کرسکے۔ اگر نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہنر مند اور با صلاحیت نہ ہو تو یہ ایک معاشی بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔اس لئے انہیں اچھی تعلیم حاصل کرنا ہوگی ۔اور انہیں بہتر روزگار ، صحت مند سرگرمیوں کے فروغ ، اور کھیل کے میدان اور تفریح کے مناسب موقعوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔جسے ملک کے مختلف حصوں میں علاقائی کھیلوں کو فروغ دے کر مقامی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ ویسے ہی کشمیر کے نوجوانوں کو بھی عہد کرنا چاہئے کہ وہ مایوسیوں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے، اپنی صلاحیتوں ، اپنے علم و فن کو بروئے کار لاکر کشمیر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔ اس لیے سماج میں ہر ایک فرد بشر کو چاہیے کہ اپنے اپنے بچے پر توجہ مرکوز کریں اور اس جاہلیت اور منفی سوچ سے بچوں کو دور رکھ کر تعلیم کی طرف رابط راغب کریں اور آنے والی نسلوں میں کشمیر سے آئی آیس افسر کے آیس اور ڈاکٹر بن کر سامنے آئیں تاکہ کشمیر کا نام اونچائی تک پہنچ جائے
[email protected]