انسانی سماج کے ارتقاء کے لیے تحقیق و تعمیری تنقید ضروری ہے۔زندگی کے ہر شعبہ میں آج تک لگاتار تحقیق ہوتیآرہی ہے۔دراصل انسان نے ترقی بھی اسی لیے کی کہ اس کے اندر تحقیق کا مادہ ہے ۔زندگی آج جیسی ہے پہلے ایسی نہیں تھی۔سائنسی ایجادات و دریافتیں تحقیق کی ہی دین ہیں۔الغرض تحقیق نہ ہو تو انسانی ارتقاء رک سکتا ہے۔جدید زمانے میں جہاں سائنس کے میدان میں تحقیقیں و دریافتیںہورہی ہیں وہیں دوسرے شعبوں جیسے عمرانیات، سماجیات،ادبیات وغیرہ میدانوں میں بھی تحقیق ہورہی ہے۔اس تحقیق کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم ہوچکے ہیں۔مختلف یونیورسٹیاں اسی کی ایک کڑی ہیں۔اس مضمون میں یونیورسٹیوں میں ادبی تحقیق پر روشنی ڈالی جائے گی۔جیسا کہ پہلے ہی عرض کی کہ تحقیق انسانی ارتقاء کے لیے ضروری ہے۔ چاہے یہ تحقیق کسی بھی شعبے سے جڑی ہو ۔اس کا رشتہ کہیں نہ کہیں زندگی کے ساتھ ہی جڑا ہوتا ہے۔ادب کا رشتہ بھی زندگی سے گہرا ہے۔عموماََ جو بھی ادب عالیہ زندگی کے رنگ سے عاری ہو اس کی وقعت بہت جلد مٹ جاتی ہے یا ایسا ادب جلد ہی لوگوں کے ذہن سے محو ہاجاتا ہے۔عہد یونان سے ہی ادب کے زندگی یا سماج پر برے یا اچھے اثرات پڑے ہیں ۔اسی لیے افلاطون جیسے مفکر نے بھی کہا تھا کہ شاعروں کو شہر بدر کردو کیوں کہ افلاطون جیسا فلسفی اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ ادب کے سماج پر کیا اثرات،اچھے یا برے پڑتے ہیں ۔
مختلف تحقیقات کی طرح ادبی تحقیق بھی ایک اہم موضوع ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں سے ہر سال سیکڑوں طلبا پی ایچ ڈی کرکے نکلتے ہیں اور زندگی میں مختلف روزگاروں کو اپناتے ہیںلیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کرکے واقعی میں انہوں نے اس پی ایچ ڈی سے کیا سیکھا ہے؟دوسرے یہ کہ کیا پی ایچ ڈی کسی دوسرے کے کام آسکتا ہے یا یہ کہ ا س سے تحقیق کے لیے کیا مزید راہ نکل سکتی ہے؟ادب کی مختلف اصناف ہوتی ہیں لیکن زیادہ گہرائی میں نہ جاتے ہوئے ہم ادب کو دو بڑے خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔نثر اور شاعری۔سب سے پہلی بات تحقیق میں ضروری ہے کہ ہم کس موضوع کو لے رہے ہیں۔کیا ہماری طبیعت شاعری کی طرف مائل ہے یا ہمیں افسانہ و ناول سے دلچسپی ہے۔شاعری یا نثر میں آپ کی دلچسپی ایم کے دوران میں پیدا ہوتی ہے اور آپ کی طبیعت سازی ہونے لگتی ہے ۔اسی لیے تو یہ ضروری ہے کہ ایم اسے (پی جی) میں ایک طالب علم کو بہت مطالعہ کرنا چاہیے تبھی وہ آگے بھی کچھ اچھا کرپائے گا۔جب بنیاد مضبوط ہوگی تب عمارت بھی مضبوط ہوگی۔ضروری نہیں کہ آپ کی صرف نثر میں دلچسپی ہو ۔آپ کی دونوں میں ہوسکتی ہے جس کو پی ایچ ڈی کے وقت موضوع چنتے وقت انتخاب کیا جاسکتا ہے کہ آپ کس میں زیادہ بہتر ہیں اور یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔یہاں پر میں اس تلخ حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک طالب علم کو پی جی کرنے کے بعد بھی پتا نہیں کہ وہ کس میدان میں مضبوط ہے یا وہ کسی بھی میدان(نثر یا شاعری) میں مضبوط نہیں تو اس کے لیے یہی مشورہ ہے کہ پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے سے پہلے وہ کچھ مہینوں تک مطالعہ کرے ، تب جاکر وہ پی ایچ ڈی یا ایم فل کے بارے میں سوچے۔
سب سے بڑی گمراہ کن سوچ عموماََ یہ پھیلائی گئی ہے کہ تحقیق میںضرور کوئی نیا مخطوطہ تلاش کیا جائے یا کوئی افسانہ و ناول ضرور تلاش کیا جائے ۔یہ تحقیق کا ایک پہلو ضرور ہے لیکن تحقیق صرف یہاں تک محدود نہیں۔جو نوجوان طالب علم کچھ وقت پہلے ہی اپنی ایم اے ختم کرکے آیا ہواس سے ایسی توقع کرنا کہ وہ کوئی نادر مخطوطہ تلاش کرکے لائے گا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔حالانکہ کچھ طالب علموں نے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جہاں انہوں نے کچھ نئے مخطوطوں کو دریافت کیا ہے لیکن ایسی مثالیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں اُن کی عمر اور تجربے کی طرف بھی نظر کرنی چاہیے۔کسی ۲۲ سال کے طالب علم سے ایسی توقع کرنا زیادتی ہے ،کم سے کم تمام طالب علموں سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی۔تحقیق کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی نیا مخطوطہ تلاش کیا جائے اور نہ یہ ہر وقت یا ہر ایک طالب علم سے ممکن ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اگر امریکہ میں کوئی پی ایچ ڈی کررہا ہو اور اس کو مخطوطہ ڈھوندنے کے کہا جائے تو اگر وافر فنڈنگ یا وظیفہ نہ ہو وہ ایسی تحقیق کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی ۔اسی طرح مختلف یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو بھی یہ مسئلے درپیش ہوتے ہیں جہاں رسرچ اسکالر کو کوئی وظیفہ نہیں ملتا۔
تحقیق کا ایک بڑا مقصد طالب علم کا ذہنی ارتقاء ہوتا ہے ۔دوسرے یہ کہ اگر اس کا موضوع شاعری ہے تو اس کو شاعری کی باریکیوں سے واقف کرایا جائے تاکہ آگے چل وہ شاعروں اور طالب علموں کی رہنمائی کرسکے۔اگر اس کا موضوع ناول و افسانہ ہے تو اسی حساب سے اس کی رہنمائی کی جائے۔ورنہ اگر ایسا مخطوطہ ڈھوندنے کے لیے کہا گیا جس میں تین سال لگ گئے تو وہ کوئی بھی چیز سیکھ نہیں پائے گا۔ڈرامے پر کام کررہا ہو ضروری ہے کہ وہ قدیم کے ساتھ ساتھ جدید تر ڈرامے کی نزاکتوں سے بھی وقف ہوجائے اور اگر آج اکیسویں صدی میں بھی پرانی کتابوں کی دھول چاٹنے میں ہی لگ گیا تو آنے والے زمانے میں اس کی تحقیق کسی کام نہیں آسکتی نہ وہ خود ڈرامے کی حوالے سے کسی کی رہنمائی کرسکے گا۔اسی لیے ضروری ہے کہ وہ ڈرامے ،ناول ،افسانہ وغیرہ صنف جو بھی اُس کا موضوع ہو اس میں آج کے دوریعنی حال میں کیا کچھ ہورہا ہے، عالمی سطح پر کیسا لکھا جارہا ہے اس سے واقفیت رکھتا ہو۔یہ ضرور ہے کہ وہ پرانی تحریروں کو نظر انداز نہ کرے لیکن انہی میں کھوجانا یا صرف اُن تک محدود ہوجانا کوئی اچھا نتیجہ سامنے نہیں لاسکتی ۔دوسرے ذہنی ارتقاء سے یہ مطلب کہ وہ ادب کے ذریعے کسی سماجی و عمرانی مسلہ کو سمجھ سکے اور اس پر اپنی رائے قائم کرسکے، پی ایچ ڈی تحقیق کا مقصد محض ’’خالص تنقید نگار ‘‘پیدا کرنا نہیں تاکہ کل وہ تنقید کا فلسفہ بگھار سکے بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے۔تحقیق ایک تجرباتی مرحلہ ہے جس سے گزر کرایک طالب علم صحیح اور غلط کی تمیز کرنا سیکھتا ہے اور یہی چیز بعد میں اُس کی رہنمائی کرتی ہے۔
اب ایک نیا رجحان پنپنے لگا ہے، کہ مذہب و مسلک کی بنیاد پر موضوعات قائم ہونے لگے ہیں۔’’اردو کے غیر مسلم شعرا، افسانہ نگار، ناول نگار‘‘ وغیرہ جیسے موضوعات نے زیادہ زور پکڑ لیا ہے۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے تو ایسے موضوع کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور ۱۹۴۷ء سے پہلے تو ایسی سوچ رکھنے والا ہی شائد کوئی موجود رہا۔لیکن جب سماج میں تعصب اور مذہبی انتہاپسندی بڑھ جاتی ہے اورجب ادب یا کسی بھی میدان میں چور وچکے اور دلال(جو ریٹائرمنٹ کے بعد دلالی کے بازار میں اپنی قسمت چمکاتے ہیں) گھس جاتے ہیں تو پھر یہی نتائج سامنے آنے لگتے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ادب کی دنیا کی اپنی ایک الگ جمہوریت ہے جس میں ہر ایک نظریے کو پنپنے کا حق ہے لیکن ادب کو کسی مسلک یا مذہب کی کوٹھری میں بند کردینا آج تک نہیں دیکھا گیا ہے۔کسی علاقے یا کسی خاص مسئلہ کو لے کر تو موضوع قائم کیا جاسکتا ہے لیکن مسلک یا مذہب کی بنیاد پر موضوع قائم کرنا ادب کو بھی مسلم، ہندو، عیسائی وغیرہ بنانے جیسا ہے۔اور اگر ہم نے ایسا موضوع بنا لیا تو اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ایک تو اس سے آپ یہ واضح تاثر دے دیتے ہیں کہ اردو زبان مسلمانوں کی یا کوئی زبان کسی مخصوص فرقے کی ہے اور اس کا مطلب اس کا ادب بھی صرف مسلمانوں کا ہے یا مسلمانی ہے۔تو پھر کل آپ ہندوستان کی یا کسی دوسری حکومت سے اردو زبان و ادب کے فروغ کی بات کیسے کرسکتے ہیں یا پھر کہیںگے اردو پورے ہندوسان کی زبان ہے ،منافقت کا چہرہ کب تک؟دوسرے یہ کہ کل ہندو اور کوئی اور غیر مسلم فرقہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اردو ہماری زبان ہے اور وہ وہاں سے الٹا ’’ اردو کے مسلمان شعرا، افسانہ نگار وغیرہ ‘‘ جیسا موضوع قائم کرسکتا ہے۔اسی طرح کل مسلک کی بنیاد پر موضوع قائم ہوسکتے ہیں۔۔اردو کے شیعہ شعرا، اردو کے سُنی افسانہ نگار، اردو کے دیوبندی ناول نگار، اردو کے بریلوی قصیدہ نگار اور ایسے موضوعات کی ایک طویل فہرست بن سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب تو ان جیسے موضوعات پر سمینار بھی ہونے لگے ہیں۔چہ معنی داردلیکن یہ ادب کے لیے کوئی اچھی بات نہیںبلکہ یہ ادب کے زوال کی طرف اشارہ ہے ۔ہاں کچھ دلالوں کو تو چند لمحوں کے لیے پیسہ اور کچھ تمغے ملیں گے لیکن ہم آنے والی نسل کو اس دلدل میں لے جانے کے مرتکب ہوجائیں گے جس سے نکلنے میں شائد پھر صدیاں لگ جائیں ۔ دوسرے یہ کہ یہ مسلکی و مذہبی انتہا پسندی ادب کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔
تحقیق زندہ ادیبوں پر بھی ہوسکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں ،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ محقق اپنی تھیسس میں رائے لکھتے وقت ادیب یا شاعر سے پوچھ کر نہ قلم بند کرے جیسا کہ اکثر ان معاملات میں ہوا ہے بالخصوص اردو دنیا میں۔بہت سے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں محقق نے اپنے موضوع سے متعلق ادیب و شاعر سے پوچھ کر اپنی تھیسس لکھ ڈالی ہے۔ایس تحقیق سے بہتر ہے کہ محقق کسی اور کاروبار میں اپنی قسمت آزمائے نہ کہ اپنا وقت اور قومی سرمایہ کو ضائع کرے۔لیکن اُردو دنیا سے ایسی توقع کرنا بھی نادانی ہے جہاں اب کچھ لوگوں نے پی ایچ ڈی تھیسس لکھنے کو بھی کاروبار کی شکل دی ہے اور اس کاروبار سے خوب پیسہ بٹورا جارہا ہے۔لیکن اُردو ادب کا اس سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ ہندوستان میں دلالی ، چاپلوسی اور فراڑ اُردو ادب کے زوال کی سب سے بڑی وجوہات ہیں ۔ہاں تنقیدیں تو خوب لکھی جارہی ہیں لیکن جب تنقید نگاروں نے ہی دلالوں کا چولا پہنا ہو تو کسی خیر کی توقع کرنا عبث ہے۔
عموماََ پی ایچ ڈی کے موضوع کو پاس کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے ۔کبھی کبھی تین سال موضوع کے پاس یا رجسٹر ہونے میں ہی لگ جاتے ہیں جس سے ایک طالب علم کا بہت وقت ضایع ہوجاتا ہے۔پھر ایک طالب علم کو ڈگری مکمل کرنے میں ایک سال کا وقت رہ جاتا ہے۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے میں یہ کام یا تحقیق کیسے معیاری ہوسکتی ہے۔چاہے اس نے کتنی ہی محنت سیناپ سس(Synopsis) پر کی ہو لیکن ایک سال میں پورا پی ایچ ڈی مکمل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔اس کا سیدھا مطلب کہ یہ کام معیاری نہیں ہوسکتا۔synopsis پر جتنا کم وقت لگے اتنا ہی ایک طالب علم اپنے موضوع پر دھیان دے سکتا ہے اور اس کی باریکیوں کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
ایک اچھی اور کامیاب تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا ذہن تعصب اور رجانبداری سے پاک ہو۔تحقیق کا مقصدآئینہ دکھانا ہے اور اس میں یقینا آپ کی رائے بھی شامل ہوتی ہے لیکن یہ رائے جتنی تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہو اتنا ہی ادب کے لیے اچھا ہے۔مثلاََ ترقی پسند تحریک سے زیادہ دلچسپی رکھنے والے اگر کسی غیر ترقی پسند موضوع پر کام دیا جائے ۔۔جدیدت، مابعد جدیدت تو ضروری ہے کہ وہ کھلے ذہن سے اب اس موضوع کو سمجھے ۔اس کی خامیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کا بھی مشاہدہ رکھتا ہو۔اسی لیے ایک محقق کے لیے ضروری ہے کہ اُس کا مطالعہ وسیع ہواور ذہن کسی بھی طرح کی انتہاپسندی سے پاک ہو، چاہے وہ مسلکی ہو یا ادب سے وابستہ نظریاتی۔مختصراََ تحقیق کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس میدان میں جانے سے پہلے ایک طالب علم کو پورا تیار ہونا چاہیے تبھی وہ اس میدان کو کامیابی اور خوش اُسلوبی سے سر کرسکے گے، ورنہ اس کے لیے تحقیق سے بڑا کوئی ستم اور بوجھ نہیں ہوگا۔
رابطہ: جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی