ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
یومِ عرفہ ۔وہ ساعتِ رحمت جس میں زمین کے ذرے اور آسمان کے فرشتے لرزتے ہیں اور انسانی دل حضورِ ربِّ ذوالجلال میں اسی طرح ہچکیاں لیتے ہیں جیسے ماں کی آغوش سے بچھڑا ہوا بچہ۔ وقت کی سوئیاں ٹھہر جاتی ہیں، سورج کی روشنی نرم ہو کر پردۂ رحمت میں ڈھل جاتی ہے اور ہر دھڑکتا ہوا دل ایک ہی صدا بلند کرتا ہے، لبیک اللهم لبیک۔ حاجی ہوں تو عرفات کے سفید خیموں میں اور حج سے محروم ہوں تو گھروں کی تنہائی میں،سبھی نگاہیں ایک ہی در پہ لگی ہوتی ہیں، سبھی لبوں پر ایک ہی فریاد ہوتی ہے: یا رب! آج کے دن ہمیں معاف کر دے، ہمیں خالی نہ لوٹا۔
یہ دن دراصل انسانی تاریخ کو اُس اولین لمحے سے جوڑتا ہے جب حضرت آدمؑ نے کلماتِ توبہ سیکھ کر آنسو بہائے تھے۔ عرفات اسی توبہ کا تسلسل ہے، گناہ سے آلودہ روح کو دھونے کا دن ہے۔ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا،’’ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن جتنے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں کرتا۔‘‘ سوچو! کیسی فراخ دست رحمت ہے جو انسان کے بدترین ماضی کو بھی ایک لمحے میں بدل ڈالتی ہے۔ اس دن شیطان ہزیمت سے تڑپ کر مٹی میں لوٹتا ہے، کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ بندے اپنی فطری پاکیزگی کی جانب لوٹ آئے ہیں اور اس کا برسوں کا فساد مٹ رہا ہے۔
حاجیوں کے قدم عرفات کی خاک پر ٹک جاتے ہیں، لیکن وہ غبار دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں میں سرمہ بن جاتا ہے۔ حج سے محروم دلوں کے لیے اللہ نے یوم عرفہ کے روزے کو وہ خزانہ بنا دیا جس کے متعلق نبی کریمؐ نے فرمایا،’’ذرا ٹھہر کر دیکھیے: ایک دن کی بھوک اور پیاس کے عوض دو برس کے گناہوں کی معافی۔‘‘ کون ایسا کریم ہے جو آنے والے قصوروں پر بھی پیشگی پردہ ڈال دے؟ اس روزے کا مطلب صرف خوراک سے رُکنا نہیں، یہ اس بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی چھڑکنا ہے جو خواہشات نے دل میں روشن کر رکھی ہے، یہ روح کے زخموں پر ٹھنڈی پھوار ہے۔
قرآنِ کریم میں سورۂ مائدہ کی وہ آیت اسی دن نازل ہوئی: ’’ دین کی تکمیل اور نعمت کی اتمام کا اعلان عرفہ ہی کے دن ہوا، گویا آسمان نے جھک کر زمین کا بوسہ لیا اور زمین نے بندگی کی خلعت پہن لی۔‘‘ جب دین مکمل ہوا تو انسانیت کو مکمل ضابطۂ حیات مل گیا۔ اگر آج بھی ہم گم گشتہ راہوں پر بھٹک رہے ہیں تو قصور ہمارے دلوں کا ہے، عرفہ کے دن کی روشنی کا نہیں۔اسی دن خطبۂ حجۃ الوداع کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک طرف عدل و مساوات کا اعلان۔دوسری طرف عورت کے احترام کا سبق، سود اور انتقامی خونریزی کا خاتمہ، امانت و دیانت کا حکم اور قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی تاکید۔ جب حُجّاج نے بلند آواز سے کہا ۔’’نعم یا رسول الله‘‘، تو آپؐ نے آسمان کی جانب انگشتِ مبارک اٹھا کر فرمایا،’’اللهم فاشهد‘‘ اُس گواہی کی گونج آج بھی صحرا کے ذروں سے ٹکرا کر ہمارے کانوں تک پہنچتی ہے اور دلوں کو لرزا دیتی ہے۔تم نے پیغام سن لیا، اب تم پر دلیل قائم ہو گئی۔یوم عرفہ کا روزہ درحقیقت دل کا وقوف ہے۔ حاجی عرفات میں کھڑے ہو کر رب کے سامنے جھکتے ہیں اور ہم روزہ رکھ کر اپنے نفس کو عرفات بناتے ہیں۔ جب بھوک جگالی کرتی ہے اور حلق پیاس سے سوکھنے لگتا ہے تو دل کو یاد آتا ہے کہ جہنم کی پیاس اس سے کہیں شدید ہے۔ لہٰذا بندہ سوزِ معدہ کے بدلے سوزِ گناہ سے نجات خرید لیتا ہے۔ اِس روزے میں ثواب ملتا ہے، مگر اس سے بڑھ کر دل کی کیفیت سنورتی ہے، زبان درود و دعا سے تر رہتی ہے، آنکھیں استغفار کے نمکین قطروں سے دھلتی ہیں اور ضمیر نرم مخمل کی طرح حساس ہو جاتا ہے۔کہتے ہیں سیدنا عمرؓ جب عرفات میں کھڑے ہوتے تو ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی اور وہ بار بار دہراتے،’’کا ش میری ماں نے مجھے جنم نہ دیا ہوتا، کاش میں خاک ہوتا‘‘حالانکہ وہ خلیفۂ عادل تھے تو میں اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟ اگر ہمارے رخسار آج بھی خشک رہیں تو ہماری بدنصیبی پر فرشتے بھی روئیں۔ یہی وہ دن ہے کہ خالق اپنے بندوں کے قریب تر ہو جاتا ہے اور اگر بندہ پھر بھی روٹھا رہے تو اس جیسا بدنصیب کوئی نہیں۔
عمل کے میدان میں عرفہ کے دن ہمیں سہل اور سچے نسخے دیے گئے،فجر سے مغرب تک روزہ، دل سے مسلسل توبہ، زبان پر لاحول اور استغفار، آنکھوں سے رواں اشک، ہاتھوں میں صدقے کی گرمی، اور دل میں بھائیوں کے لیے نرمی۔ یہی وہ لمحہ ہے جب یتیم کا سر سہلانا، کسی مقروض کا قرض ادا کرا دینا یا بھوکے کو کھانا کھلا دینا گویا مکہ کی فضاؤں میں اُڑتی دُعا بن جاتا ہے۔دن ڈھلے جب سورج مغرب کی پہاڑیوں کے پیچھے ڈوبنے لگتا ہے تو حاجیوں کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے روزہ دار بھی آنکھوں میں نمی لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے مرحوم والدین کے لیے بخشش مانگتے ہیں، بے راہ اولاد کے لیے ہدایت، بیمار دوستوں کے لیے صحت، دشمنوں کے لیے عفو اور امت کے لیے عزت۔ تب رحمت کے فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ! یہ تیری وہ مخلوق ہے جو تیرے حکم پر بھوکی پیاسی رہی، اب تو معاف کر دے اور عرش سے صدا آتی ہے: میں نے تمہیں بخش دیا، تمہاری امیدیں پوری کیں، تمہاری دعائیں قبول ہوئیں۔
جب افطار کا لمحہ آتا ہے تو ایک کھجور کا چھوٹا سا لقمہ جنت کی نعمت معلوم ہوتا ہے۔ پہلا گھونٹ حلق سے اترتے ہی دل اللہ کے شکر سے لبریز ہو جاتا ہے۔ وہ لمحہ اس بات کی علامت ہے کہ بندے نے دنیاوی خواہشات پر رب کی رضا کو مقدم جانا، اور رب نے اس کے لیے جہنم کی آگ سے نجات لکھ دی۔ وہ ایک روپیہ جو افطار کے دسترخوان پر سادہ پانی کے لیے خرچ ہوا، ہو سکتا ہے عرش کے خزانوں سے تول کر تمہیں حوضِ کوثر کا جام عطا کرا دے۔اب رات باقی ہے۔ تہجد کے سجدوں میں اپنی پیشانیوں کو اس رب کے سامنے رکھو جو’’اَقرب اِلیه من حبل الورید‘‘ ہے۔ جب آنسو تکیے کو بھگو دیں تو جان لو کہ اللہ نے دل کا پردہ اٹھا دیا ہے۔ اسی لمحے اگلے برس کی زندگی بدل سکتی ہے، بخت جاگ سکتا ہے، تقدیر کے صفحے پلٹ سکتے ہیں۔ عرفہ کی رات وہ رات ہے جس میں ابنِ آدم کے دل سے نکلی آہ اُڑ کر عرشِ الٰہی تک پہنچتی ہے اور وہیں قبولیت کے طومار میں لپٹ جاتی ہے۔
اے دوست! اگر زندگی کی صحرائی ریت نے تیرے قدم جلائے ہیں، اگر گناہوں کی زنجیروں نے تجھے تھکا دیا ہے، تو عرفہ کے دن کا یہ روزہ تیری رہائی کا پروانہ ہے۔ اپنی انا کے لباس کو اتار کر عاجزی کا احرام باندھ، لبیک کہہ، روزہ رکھ، استغفار کر، آنسو بہا، اور اپنے دل کو عرفات کی ٹھنڈی ہواؤں کے حوالے کر دے۔ ممکن ہے یہی دن تیرے لیے وہ پلِ صراط ثابت ہو جس کے بعد تو ہمیشہ کے لیے رحمت کے سائے میں آ جائے۔ رب سے مانگ، کہ مانگنے سے جھولیاں نہیں ٹوٹتیں، فقط بھر جاتی ہیں۔ اللہ ہمیں یومِ عرفہ کے روزے اور اس دن کی عبادتوں کو قبولیت کا ذریعہ بنا کر اپنے مقرب بندوں میں شامل فرما دے۔ آمین
(مضمون نگار ایک اسلامی اسکالر، ماہر تعلیم و نفسیات اور روحانی معالج ہیں)