بلال فرقانی
سرینگر//جب دنیا بھر میں یومِ مادر منایا جا رہا ہے، وادی خاموشی سے ان بزرگ ماؤں کو یاد کر رہی ہے جنہوں نے صرف اپنے بچوں کی پرورش نہیں کی، بلکہ کئی نسلوں کو تاریخ کے کٹھن ترین دور سے گزارا۔ یہ دادی اور نانی اماں، جن کی عمریں اب 80 یا 90 ہیں، کشمیر کی جدید تاریخ کی زندہ گواہ ہیں ۔ ڈوگرہ حکومت کا زوال، تقسیم ہند، انتخابی سیاست کا آغاز، طویل شورش اور اب حالیہ مرکزی زیر انتظام علاقہ کا دور یہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے بیت چکا ہے۔پائین شہر کے بلبل لنکرکی 92 سالہ زون بیگم کو یاد ہے جب وہ کم عمری میں ڈوگرہ راج کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی سرگوشیاں سنا کرتی تھیں۔ چودہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی اور سترہ سال کی عمر میں وہ ماں بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں ’’بادشاہ آئے، فوجی آئے، سیاستدان آئے، لیکن ماں کی فکریں کبھی نہیں گئیں،‘‘۔ان کا ماننا ہے ہم نے کھیتوں میں کام کیا، محلّے والوں کے لیے کھانا پکایا، مریضوں کی دیکھ بھال کی اور اپنے پیاروں کو دفنایا۔ زندگی نے کبھی نہیں پوچھا کہ تھکی ہو یا نہیں۔‘‘اگرچہ ان خواتین نے کبھی سرکاری عہدے نہیں سنبھالے، لیکن وہ خاندانوں کی بنیاد رہی ہیں۔شعبہ سوشیالجی کی ماہر ڈاکٹر مہرین جان کے مطابق’’یہ خواتین سیاست میں تو نہیں تھیں، مگر انہوں نے نسلوں کی رہنمائی کی ہے۔ وہ ہماری تہذیب کی محافظ، یادداشت کی امین، اور جذباتی ستون رہی ہیں۔‘‘کشمیر کے دیہی علاقوں میں، کئی بزرگ خواتین آج بھی اپنے نواسوں اور پوتوں کی پرورش کر رہی ہیں، خاص طور پر ان خاندانوں میں جہاں والدین روزگار کے سلسلے میں دوسرے شہروں میں مقیم ہیں۔ 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق، شورش زدہ علاقوں میں 38 فیصد گھروں کی ذمہ داری بڑی عمر کی خواتین کے کندھوں پر ہے۔بڈگام کی 84 سالہ حفیظہ بیگم نے 1980 کی دہائی کے آخر میں اپنے شوہر کو کھو دیا۔ آج وہ اپنے نواسے کی دیکھ بھال کر رہی ہیں، جس کے والدین دہلی میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’بیٹا پیسے بھیجتا ہے، لیکن بچے کو زمین کی خوشبو، زبان کی مٹھاس اور ماں کی دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اسے کاشر زبان سکھاتی ہوں اور ہاک (سبزی) اگانا سکھاتی ہوں۔‘‘یہ دادی اماں صرف نگران ہی نہیں، بلکہ کشمیر کی تہذیبی ورثے کی امین بھی ہیں۔ وہ لوریاں، روایتی کھانے، بزرگوں کی دعائیں، اور قصے کہانیوں کے ذریعے ثقافت کو نئی نسلوں تک منتقل کر رہی ہیں۔ سری نگر کی فوڈ بلاگر انشا اندرابی کہتی ہیں، ’’میری ہر روایتی ڈش چاہے وہ تبک ماز ہو یا گوشتاب، میری دادی کی دی ہوئی وراثت ہے۔‘‘اکثر ان خواتین نے خود تعلیم حاصل نہیں کی، کیونکہ 1950 کی دہائی میں جموں و کشمیر میں خواتین کی شرح خواندگی محض 5 فیصد سے بھی کم تھی۔ لیکن آج وہی نسل اپنی بیٹیوں اور نواسیوں کو تعلیم یافتہ بنانے پر زور دے رہی ہے۔ قومی خاندانی صحت سروے (NFHS-5) کے مطابق، جموں و کشمیر میں خواتین کی شرح خواندگی اب 67.2 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔کئی بزرگ خواتین ٹیکنالوجی سے بھی ہم آہنگ ہو چکی ہیں۔ گاندربل کی 88 سالہ ممتازہ بانو آج کل واٹس ایپ پر اپنی بنگلور میں مقیم پوتی سے بات چیت کرتی ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں’’مجھے لکھنا پڑھنا نہیں آتا، لیکن پوتی کی آواز سننے والا بٹن مجھے آتا ہے‘‘۔بدقسمتی سے، ان خواتین کی خدمات کا اعتراف پالیسی سطح پر کم ہی ہوتا ہے۔ نیشنل سوشیل اسسٹنس پروگرام جیسے اسکیموں کے تحت بزرگ خواتین کو مہینے کا محض 500 سے 1000 تک پینشن دی جاتی ہے، اور وہ بھی اکثر تاخیر سے۔ بہت سی دادی اماں آج بھی بغیر کسی پختہ مالی سہارے کے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔یومِ مادر کے اس موقع پر، جہاں دنیا جدید ماؤں کو سراہ رہی ہے، وہیں کشمیر کو ان دادی اماں کا بھی اعتراف کرنا چاہیے جنہوں نے خاموشی سے پوری وادی کو سنبھالا، روایات کو زندہ رکھا، اور آنے والی نسلوں کو امید، پہچان اور دعاؤں کا ورثہ دیا۔