غلام قادر جیلانی
یومِ اساتذہ، جسے ہم ایک نہایت اہم اور قیمتی دن تصور کرتے ہیں، روایت سے ہٹ کر صرف ایک رسم نہیں بلکہ ایک عزم کے طور پر منانے کی ضرورت ہے تاکہ استاد کی کھوئی ہوئی عظمت اور وقار پھر سے بحال ہو۔ اس دن عام طور پر اسکولوں اور کالجوں میں بڑی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں مقررین استاد کی عظمت اور مقام پر تقریریں کرتے ہیں اور طلبہ اپنے پسندیدہ اساتذہ کو تحائف پیش کر کے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ بھارت میں یہ دن ہر سال 5 ستمبر کو ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کی یومِ پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے، جنہوں نے اس دن کو اساتذہ کے نام کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔استاد وہ شخصیت ہے جو بنجر زمین کو زرخیز ، پتھر کو تراش کر ہیرا اور دھات سے زیور تیار کرتا ہے۔ استاد اس چراغ کی مانند ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کا وجود قائم رکھتا ہے۔ مٹی کو سونا بنانے والا استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے پورے معاشرے کو معطر کر دیتا ہے۔ اردو کے مشہور شاعر بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
اِک پتھر کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے
شرط ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے
امام غزالیؒ نے فرمایا تھا کہ ’’حقیقی باپ نے مجھے آسمان سے زمین پر لایا مگر روحانی باپ (استاد) نے مجھے زمین سے آسماں پر پہنچایا۔‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں استاد کی قدر و قیمت میں نمایاں کمی کیوں آئی؟ کیا معمارِ قوم اپنا کھویا ہوا مقام واپس پاسکتا ہے؟اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو اس امر کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہیں، جن کی وجہ سے استاد کو دورِ حاضر میں وہ ادب اور احترام نہیں ملتا جو پہلے ملا کرتا تھا۔ ان اہم وجوہات میں طلبہ کا بدلتا مزاج، آس پاس کا ماحول، موجودہ تعلیمی نظام اور خود اساتذہ ذمہ دار ہیں۔ آج کل کے طلبہ بدلتے مزاج کے پیشِ نظر اساتذہ کا ادب و احترام نہیں کرتے۔ غیر مہذب رویوں کے ساتھ ساتھ وہ اساتذہ سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ کبھی کبھار طلبہ ایسے ذاتی فوائد کا مطالبہ کرتے ہیں جو نہ صرف کلاس کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں بلکہ استاد کے کنٹرول اور اختیار کے لئے بھی چیلنج بن جاتے ہیں۔ اسی طرح، بگڑتے ماحول کی وجہ سے بھی استاد کے مرتبے اور مقام میں نمایاں گراوٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ کام کے ناموزوں حالات، معاشرتی اور طلبہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ، تعلیم کی قدر میں کمی اور میڈیا کے ذریعے استاد کے متعلق پھیلائی گئی منفی عوامی رائے استاد کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے اور اس کی پیشہ ورانہ دلچسپی کو کم کرتی ہے۔
اساتذہ اپنا مرتبہ کھونے میں خود بھی ذمہ دار ہیں۔ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد علم اور تدریس میں عدم دلچسپی، طالب علموں سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اور اپنی ذات پر توجہ مرکوز نہ کرنے جیسی وجوہات کی بنا پر اپنی قدر و قیمت میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کی ضروریات سے لاپرواہی اور منفی کردار اپنانا بھی ان کے وقار کو نقصان پہنچاتا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام میں استاد کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں مل رہا، جس کا وہ مستحق ہے۔ اس میں ایسی پالیسیاں شامل ہیں جو اساتذہ کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع نہیں دیتیں، جس سے ان کی کارکردگی اور رتبے پر منفی اثر پڑتا ہے۔استاد کی عظمت کی تجدید کے لیے کئی عوامل ضروری ہیں۔ سب سے پہلے، طلبہ کا مثبت کردار اور رویہ، والدین اور سماج کی مثبت سوچ اور موجودہ نظام کی از سرِ نو تشکیل تاکہ اساتذہ کے مقام و مرتبے کو پھر سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کا احترام کریں۔ ان کی گفتگو کو توجہ سے سنیں، ان کی ہر مناسب رائے کو قبول کریں اور ان کی نصیحتوں کو یاد رکھ کر ان پر عمل کریں۔ ان کی موجودگی میں فضول باتیں نہ کریں اور ان سے نظریں نیچے اور سر جھکا کر بات کریں۔ اپنی دعاؤں میں ان کو یاد رکھیں۔ گفتگو کے وقت محتاط الفاظ کا استعمال کریں۔ استاد کی عظمت اور مرتبے کا انداز حضرت علیؓ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، میں اس کا غلام ہوں، خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔‘‘
استاد کو اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے بحال کرنے کے لیے علم اور تدریس میں دلچسپی لینی چاہیے اور طلبہ کے ساتھ ذمہ دارانہ رویہ اپنا کر اپنی ذات پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ طلبہ کی ضرورتوں کو سمجھنا اور انہیں پورا کرنا بھی استاد کے مرتبے کو بڑھاتا ہے۔ ایک استاد نہ صرف اپنے شاگردوں بلکہ پورے سماج کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے؛ اس کی حرکات و سکنات کا شاگردوں پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ استاد کی عظمت کی تجدید میں رائج تعلیمی نظام کا بھی کلیدی کردار ہے۔ ایسی تعلیمی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو اساتذہ کو آزادانہ طور پر کام کرنے کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکیں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق استاد کا روایتی کردار بدل کر ایک ایسے سہولت کار اور رہنما کا ہو گیا ہے جو طلبہ میں تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتوں اور جامع ترقی کو فروغ دے۔ اساتذہ کو تعلیمی اصلاحات کا مرکزی کردار بنا دیا گیا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ وہ نئے تدریسی طریقوں کو اپنا کر تعلیم کو حقیقی زندگی سے ہم آہنگ کریں گے اور تجسس اور عملی سرگرمیوں کے ذریعے سیکھنے کی محبت پیدا کریں گے۔
معاشرے میں سب سے زیادہ عزت اور احترام کا حقدار استاد ہے۔ استاد قوم کا معیار ہوتا ہے اور ایک مثبت اور صحت مند قوم کی تشکیل بہترین اساتذہ ہی کر سکتے ہیں۔ والدین اور معاشرے کے دانش مند لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے اساتذہ کی عظمت کی تجدید میں اپنا کردار ادا کریں اور اساتذہ کو وہ مقام اور وقار دلائیں، جس کے وہ اصل حقدار ہیں۔ آئیں، ہم سب مل کر استاد کے اعلیٰ اور عظیم مقام کا اعتراف کریں اور اساتذہ کی عظمت کو بحال کر کے یومِ اساتذہ منانے کا اصل حق ادا کریں۔