یواین آئی
برلن// یورپ کے تیز ترین سپر کمپیوٹر ’جوپیٹر‘ کا افتتاح جرمنی میں کیا جائے گا اور اس کے آپریٹرز کو امید ہے کہ یہ آب و ہوا کی تحقیق سے لے کر مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں شامل ہونے تک ہر چیز میں براعظم کی مدد کرسکتا ہے۔یہاں آپ کو اس نظام کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے ، جو تقریبا ایک ملین اسمارٹ فونز کی طاقت کا دعوی کرتا ہے۔مغربی جرمنی کے جولیچ سپر کمپیوٹنگ سینٹر میں قائم یہ یورپ کا پہلا “ایکساسکیل” سپر کمپیوٹر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ فی سیکنڈ کم از کم ایک کوئنٹل (یا ایک ارب ارب) حساب کتاب کرنے کے قابل ہوگا۔امریکہ میں پہلے ہی ایسے تین کمپیوٹر موجود ہیں، جو تمام محکمہ توانائی کے زیر انتظام ہیں۔جوپیٹر کو تقریبا 3600 میٹر (38000 مربع فٹ) پر محیط ایک مرکز میں رکھا گیا ہے ۔ جو فٹ بال پچ کے سائز کا تقریبا نصف ہے ۔ جس میں پروسیسرز کے ریکس اور تقریبا 24000 این ویڈیا چپس شامل ہیں ، جو مصنوعی ذہانت کی صنعت کی طرف سے پسندیدہ ہیں۔اگلے چند سالوں میں اس نظام کو تیار کرنے اور چلانے کے لئے 500 ملین یورو (427 ملین پاؤنڈ) کا نصف یورپی یونین اور باقی جرمنی سے آتا ہے۔اس کی وسیع کمپیوٹنگ طاقت کو متعدد شعبوں میں محققین کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے ذریعہ اے آئی ماڈلز کی تربیت جیسے مقاصد کے لئے بھی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔جولیچ سینٹر کے سربراہ تھامس لپرٹ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مشتری یورپ میں کمپیوٹنگ کی کارکردگی میں ایک بڑی پیش رفت ہے اور یہ جرمنی کے کسی بھی دوسرے کمپیوٹر کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ طاقتور ہے۔لیپرٹ نے کہا کہ جوپیٹر پہلا سپر کمپیوٹر ہے جسے یورپ میں مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی تربیت کے لیے بین الاقوامی سطح پر مسابقتی سمجھا جا سکتا ہے، جو اس شعبے میں امریکہ اور چین سے پیچھے رہ گیا ہے۔اس سال کے اوائل میں جاری ہونے والی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں قائم اداروں نے 2024 میں 40 “قابل ذکر” مصنوعی ذہانت کے ماڈل تیار کیے، جس کا مطلب ہے کہ وہ خاص طور پر بااثر سمجھے جاتے ہیں۔
جبکہ چین کے لئے 15 اور یورپ کے لئے صرف تین۔فرانسیسی ٹیکنالوجی کمپنی ایٹوز کے ماتحت ادارے ایویڈن میں ایڈوانس کمپیوٹنگ کے سربراہ ایمانوئل لی روکس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘یہ یورپ کی سب سے بڑی مصنوعی ذہانت کی مشین ہے۔