Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

یورپی یونین کی مجوزہ فوج

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: October 4, 2021 12:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
گزشتہ دو مہینوں کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن کے دو فیصلوں نے یورپی ممالک کی دفاعی اور اسٹریٹجک حکمت عملی پر اپنے اثرات مختلف انداز میں مرتب کیے ہیں۔ جہاں ایک جانب افغانستان سے قبل از وقت امریکی افواج کے انخلاف پر ان کی نکتہ چینی خود امریکی فوج اور سینٹ کے علاوہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ہورہی ہے، وہیں AUKUS کے اعلان کے بعد ایک ایسے ملک کو جوہری صلاحیت مہیا کرانے پر جو کہ ابھی تک جوہری صلاحیت نہیں رکھتا ہے مسٹر بائیڈن کی سخت مخالف اور نکتہ چینی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ چند دیگر ممالک اور تنظیموں نے اپنے دفاع کے لیے خود مختار ہونے کے منصوبے بنانے شروع کردیے ہیں۔
ان حالات کے پس منظر میں جس تجویز پر سب سے زیادہ بحث ہورہی ہے وہ ہے یورپی یونین یعنی EUکی جانب سے اپنی نئی فوج تشکیل دینے کی بات۔ EU فوج کے حق میں مطالبہ کرنے والے ممالک کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے دفاع کے لیے خود پر انحصار کرنا چاہیے ناکہ امریکہ پر۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ EU کو ایک ایسی فوج تشکیل دینی ہے جو کہ سرعت رفتاری  کے ساتھ حملہ آور ہوسکے اور جو یورپی ملکوں کے باشندوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دے اور اسے یقینی بناسکے۔
یورپی یونین کی صدر ارسلا ون ڈیرلیئن (Ursula von der Leyen)کے مطابق ہمیں افغانستان میں امریکہ کی جانب سے لیے گئے یکطرفہ فیصلے سے سبق لینا چاہیے اور یورپی ممالک میں ای یو فوج کی تشکیل کے لیے سیاسی فکر کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ای یو کو ایک ایسی فوج تشکیل دینی ہے جو کہ مستقبل میں کسی بھی بحران کے دوران سرعت سے کام کرسکے۔ حال ہی میں یورپین پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس میں اپنی تقریر میں محترمہ ارسلا نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ ناٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹالٹن برگ (Jens Stoltenberg)سے بھی رابطہ میں ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چند ایک ہفتوں میں اس موضوع پر مختلف یورپی دارالحکومتوں میں کافی سنجیدہ بحث و مباحثہ شروع ہوچکا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم سنجیدہ طور پر اس فیصلے کو حل کرنے کے لیے اپنی اجتماعی طاقت اور وسائل کا استعمال شروع کردیں۔ لیکن ان کے بقول اس سلسلے میں بنیادی مشکل اجتماعی سیاسی فکر اور اسے عملی جامہ پہنانے میں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس ایک جدید اسلحہ سے لیس فوج موجود ہو لیکن اگر آپ میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینے کی طاقت نہیں ہے تو ایسی فوج آپ کے لیے بالکل بے کار ہے۔ انھوںنے پرزور انداز میں کہا کہ اگر ہم اجتماعی سیاسی فکر اور یورپی جذبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم EUکی سطح پر بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
محترمہ ارسلا کے مطابق وہ ناٹو کے سکریٹری جنرل اسٹالین برگ کے ساتھ ’ای یو اور ناٹو‘ کے درمیان دفاعی تعلقات پر ایک نئے اعلامیہ پر کام کررہی ہیں جو کہ اس سال کے آخر تک منظرِ عام پر آجائے گا۔ فی الوقت چھ یورپی ممالک: آسٹریا،پولینڈ، فن لینڈ، آئیر لینڈ، مالٹہ اور سویڈن EU کے کسی بھی دفاعی اتحاد میں شامل نہیں ہیں۔ 
ای یو صدر کے علاوہ حال میں جن ملکوں نے کسی نئی ای یو فوج کی حمایت کی ہے اس میں فرانس سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں جرمنی نے بھی اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ لیکن فرانس کا حالیہ رویہ امریکی فیصلوں کی بنیاد پر لیا جارہا ہے کیونکہ فرانس کا ماننا ہے کہ AUKUS سے اسے باہر رکھ کر اور آسٹریلیا کے ساتھ اس کے سمندری آبدوز مہیاکرانے کے دفاعی سودے کو منسوخ کرواکر امریکہ نے صرف انگریزی بولنے والے ملکوں کی طاقت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی فرانس نے گریس کے ساتھ ایک نئے دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے مطابق دونوں ملک بحروہ روم اور اگین سمندر میں ایک دوسرے کی دفاعی مدد کریں گے۔ اس کے علاوہ گریس نے فرانس سے 18رافیل جنگی طیارے اور تین جنگی بحری فری جیٹ خریدنے کا بھی کروڑوں ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے قبل گریس امریکی بوینگ کمپنی کے F-16 خریدنے کی بابت بھی امریکہ سے بات چیت کررہا تھا، لیکن AUKUS کا اعلان ہونے کے بعد اس نے امریکہ کے بجائے فرانس سے طیارے اور بحری جہاز خریدنے کو ترجیح دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ عرصے میں یورپی ممالک میں امریکہ پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے یورپی ہم سایوں کے ساتھ  دفاعی شعبے میں اشتراک میں اضافہ کی کوششیں شروع کردی ہیں۔
ای یو کی صدر کے مطابق ای یو کو کسی بھی نئی فوج کو ناٹو اور اقوامِ متحدہ کی فوجوں پر انحصار کیے بغیر اپنے آپ کو خود کفیل بنانا ہوگا اور اس کے لیے سیاسی عزم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان کی اس توجیہ کی حمایت کرتے ہوئے جرمنی کی وزیر دفاع نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ یورپی ممالک کی دفاع اب اس میں شامل ملکوں کی سیاسی فکر اور عزم پر منحصر ہے اور اس میں جرمنی اور فرانس کو قائدانہ رول ادا کرنا ہوگا۔ یعنی کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے جس طریقے سے دنیا پر اپنی سبقت قائم کرلی تھی  وہ اب تقریباً ختم ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ حالیہ عرصے میں زیادہ تر یورپی ممالک نے مختلف موضوعات اور خاص طور پر دفاعی شعبے میں امریکی پالیسیوں کی نکتہ چینی کرنا شروع کردی ہے، یعنی کہ ایک مرتبہ پھر یورپی قوم پرستی کی باتیں شروع ہوچکی ہیں کیونکہ فرانس کے صدر میکرون سمیت زیادہ تر سیاسی یورپی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ قوم پرستی ہی انھیں اقتدار میں برقرار رکھ سکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام یورپی ممالک اپنی ایک نئی فوج بنانے کی فراق میں ہیں۔ ای یو کے 27رکن ممالک میں سے کئی اس تجویز پر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں۔ جن میں سابق کمیونسٹ ملک جیسے پولینڈ، رومانیا، یوگوسلاویہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یورپین ملکوں کو ایک دوسری الجھن کا بھی شکار ہونا پڑ رہا ہے کہ وہ اس مجوزہ فوج کو روس کے خلاف کس طرح استعمال کرپائیں گے، کیونکہ ان میں سے اکثر جیسے کہ جرمنی، آسٹریا ، ہنگری کے علاوہ اور بہت سے یورپی ممالک روس پر اپنی صنعتوں کو چلانے کے لیے روس پر بجلی یا توانائی کے لیے کافی حد تک انحصار کرتے ہیں۔اور وہ نہیں چاہیں گے کہ دفاعی شعبے میں کسی نئی حکمت عملی کے سبب ان کے اور روس کے صنعتی تعلقات پر کوئی منفی اثر ثبت ہوسکے۔
اس کے علاوہ ناٹو کے سکریٹری جنرل اسٹولن برگ کے بقول کوئی بھی کثیر ملکی نئی فوج قائم کرنے میں بہت زیادہ رکاوٹیں حائل ہیں۔ خود ای یو کے قوانین سب سے پہلے آپ کے راستے میں آئیں گے اس کے علاوہ جتنے بجٹ کی ضرورت ہے، کئی ممالک شاید ہی وہ پورا کرپائیں کیونکہ زیادہ تر ای یو ملکوں نے گزشتہ دس سالوں میں اپنے دفاعی بجٹ میں کافی کمی کی ہے اور اگر اب وہ اسے بڑھاتے ہیں تو عوامی پروگراموں کے بجٹ پر ان کا منفی اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملک کے انتظامی اور دفاعی قوانین بھی دقت پیش کرسکتے ہیں۔ 
اس سے قبل 1999میں بھی اس طرح کی تجویز پر کافی گفت و شنید کے بعد EUنے ایک منصوبہ بنایا تھا، جس کے تحت EUکو تقریباً  50 سے 60ہزار فوجیوں پر مشتمل فوج تشکیل دینا تھی۔ جو کثیر سرعت کے ساتھ کہیں بھی تعینات کی جاسکے۔ 2007میں ای یو نے اپنے ہر رکن سے 1500 فوجیوں کے دو دستے تیار کرنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن وہ بھی ٹھنڈے بستے میں پڑگئی۔ کیونکہ یہ فوجی دستے کہیں بھی تعینات نہیں کیے جاسکے۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ تجویز شرمندہ تعبیر ہوپاتی ہے یا نہیں ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یورپی ممالک کا ردِ عمل امریکی فیصلوں کے بعد ہی آیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر دونوں جنگ عظیم کے بعد رونما ہونے والے حالات کا ایک مرتبہ پھر شکار ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ کسی بھی ملک کے حق میں نہیں ہوگا۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کی بھی رائے یہی ہے کہ یہ مجوزہ فوج قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹیں وقت اور بجٹ کی ہوں گی۔ کیونکہ اس طرح کی کسی بھی تنظیم کو قائم کرنے کے لیے کم از کم دس سے پندرہ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اور جس طریقے سے EUکا ردِ عمل سامنے آیا ہے، وہ انگریزی بولنے والے ممالک کی دفاعی سبقت کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ رواں سال کے درمیان میں جب صدر جوبائیڈن EUکے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے برسل آئے تھے، اور وہاں پر ٹرانس -اٹلانٹک رشتوں کو مضبوط کرنے کی جو حمایت کی تھی، اس پر کوئی عملی جامہ پہنانے کی جانب ان کی طرف سے کوئی بھی اقدام نہیں لیا گیا اور اگر امریکہ اور یورپین ممالک کے درمیان تعلقات ناخوشگوار ہوجاتے ہیں تو اس کا زیادہ منفی اثر امریکہ پر ہی ہوگا بجائے یورپین ممالک کے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تعطیلات میں توسیع کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں، موسمی صورتحال پر گہری نظر ، حتمی فیصلہ کل ہوگا: حکام
تازہ ترین
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سری نگر میں عاشورہ جلوس میں شرکت
تازہ ترین
پونچھ میں19سالہ نوجوان کی پراسرار حالات میں نعش برآمد
پیر پنچال
راجوری میں حادثاتی فائرنگ سے فوجی اہلکار جاں بحق
پیر پنچال

Related

مضامین

تاریخ کربلا اور شہادت امام حسینؓ کرب و بلا

July 5, 2025
مضامین

امام حسنؓ، امام حُسینؓ اور شہدائے کربلا پیغامِ کربلا

July 5, 2025
مضامین

حق و باطل کا تاریخ ساز معرکہ واقعہ کر بلا

July 5, 2025
مضامین

شہادتِ سیّدنا امام حسینؓ حادثہ ٔکربلا

July 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?