لندن // برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل شروع ہونے کے بعد اب یورپی یونین کے ہزاروں قوانین کو یا تو ختم کر دیا جائے گا یا پھر ان کی جگہ نئے برطانوی قوانین متعارف کروائے جائیں گے۔’گریٹ ریپیل بِل‘ نامی اس منصوبے کی تفصیلات شائع کر دی گئی ہیں۔برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے پیش نظر یورپی قوانین کو اب برطانوی قوانین میں بدلنا پڑے گا ورنہ ایک ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جہاں ایک قانونی خلا رہ جائے گا۔ایک بیان میں وزیر برائے بریگزِٹ ڈیوِڈ ڈیوِس نے کہا ہے کہ اس ریپیل بِل کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی کے فوراً بعد کاروبار حسب معمول کام کر سکیں گے اور انہیں پتہ ہوگا کہ قوانین راتوں رات بدل نہیں گئے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہوگا کہ مزدوروں کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ اور صارفین کے حقوق پر یورپی قوانین ہی برقرار رہیں گے لیکن پارلیمان چاہے تو بعد میں ان میں تبدیلی کر سکتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بِل سے برطانیہ میں یورپی یونین کے قانون کی بالادستی ختم ہو جائے گی، جیسا کہ پچھلے سال ہونے والے ریفرنڈم میں فیصلہ ہوا تھا۔ارکان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہمارے قوانین لندن، ایڈنبرا اور کارڈف میں بنائے جائیں گے، اور برطانوی جج ان کی وضاحت کریں گے، نہ کہ لکزمبرگ میں بیٹھے جج صاحبان۔'اس گریٹ ریپیل بِل کے بارے میں وزیر اعظم ٹریزا مے نے کہا ہے کہ اس سے برطانیہ ایک آزاد، خود مختار ملک بن جائے گا۔اس بل کے تحت۔یورپین کمیونِٹیز ایکٹ کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس کے تحت یورپی قوانین کو برطانیہ میں بالادستی حاصل ہے۔برطانیہ کی یورپی کورٹ آف جسٹس سے علیحدگی کو یقینی بنایا جائے گا۔موجودہ یورپی قوانین کو برطانوی قوانین میں بدل دیا جائے گا۔اس کا اطلاق اسی دن سے ہوگا جس دن برطانیہ ای یو سے علیحدہ ہوگا۔کہا جا رہا ہے کہ یہ برطانیہ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا قانونی منصوبہ ہوگا۔اسے ایک منفرد چیلینج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔آرٹیکل پچاس کے اطلاق پر بریگزٹ کے حمایوں نے جشن منایا۔برطانوی حکومت ایک ہزار کے قریب قوانین کو مکمل پارلیمانی نگرانی کے بغیر بدلنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس پر اسے تنقید کا سامنا ہے۔مسٹر ڈیوس نے کہا کہ اس طرح سے بدلے جانے والے قوانین صرف وقتی طور پر بدلے جائیں گے، اور ان پر نظر ثانی کی جائے گی۔لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربِن نے کہا ہے کہ وہ ان 'آمرانہ حقوق' کے خلاف ہیں۔لبرل ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ اگر اس بِل میں اس حوالے سے تحفظات شامل نہیں کیے گئے تو وہ اس کی مخالفت کریں گے۔سکاٹِش نیشنل پارٹی کے یورپی امور کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے بریگزٹ کا بڑا، سْرخ بٹن دبا تو دیا ہے لیکن وہ خود نہیں جانتے کہ آگے کیا ہوگا۔'پچھلے 44 سال کے اتحاد میں ایسے ہزاروں یورپی قوانین ہیں جو برطانوی قانون کا حصہ بن گئے ہیں۔وزیر اعظم ٹریزا مے نے یقین دلایا ہے کہ وہ ویسٹ منسٹر، سکاٹ لینڈ، ویلز اور ایئرلینڈ کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر مشاورت کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عمل سے ان سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔اس ریپیل بل پر سکاٹ لینڈ کی پارلیمان کو بھی ووٹ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔