ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں
شعر میں لفظ ظلم کو اگر جھوٹ سے بدل دیاجائے تو شعر کی کیفیت جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہی اب مودی حکومت کی کیفیت بنی ہے۔اسے مودی حکومت کے بجائے صرف مودی سے موسوم کیا جائے تب بھی غلط نہیں ہوگا،وہ یوں کہ نریندر مودی ہر معاملے میں کود پڑتے ہیں جیسے کہ اس کا انہیں حق اور اختیار ہو ۔کامیابی کا کریڈٹ لینے میں خود کو سامنے کر دیتے ہیں تو ناکامی کا کریڈٹ بھی انہیں ہی لینا ہوگا، یہ انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔وزیر اعظم یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں چاہے تاریخ ہو، جغرافیہ ہو،سائنس ہو ،ٹیکنا لوجی ہو،معاشیات ہو یا اقتصادیات۔علم کے ہر شعبے میں دخل اندازی جیسے کہ ان کا شعار ہو۔وہ کتنا پڑھے لکھے ہیں ،پتہ نہیں البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم نے کالج کا منہ بھی نہیں دیکھا ہے ۔مودی جی نے تین ساڑھے تین برسوں میں اپنی دانست میں کڑی اور انتھک محنت کی ہے جس پر اُن کے بھکت نازاں ہیں لیکن ملکی معیشت کی دیوار ایک انچ بھی کھسک نہیں سکی ہے بلکہ نتیجہ اس کے بر عکس ہی نکلا ہے اور ملک اقتصادی تباہی کے دہانے پر آگیا ہے۔در اصل مودی جی نے جب ملک کو ایک بنئے کی دوکان سمجھ لیا ، یا زیادہ سے زیادہ ایک جویلری شاپ اور اسی انداز میں ملک کے حساب کتاب بمعنی معیشت کو سنبھا لنا چاہا ہے تو نتیجہ منفی نکلے گا ہی۔اگرچہ ان کے پاس وزیر اعظم بننے سے پہلے گجرات کا وزیر اعلیٰ ہونے کا تقریباً ۱۲؍ برس طویل تجربہ تھالیکن ’’گجرات ماڈل‘‘ نامی ترقی جو ان کے زیر سرپرستی انجام پائی، اُس میں بھی اسی طرح جھوٹ اور فریب کی آمیزش شامل تھی۔اس کی قلعی اُس وقت کھلی جب نوجوان پاٹیدار لیڈر ہاردک پٹیل نے یہ انکشاف کیا کہ گجرات حکومت کسانوں یا ضرورت مندوں کو کیا دے گی جب خود ہی ۴؍لاکھ کروڑ روپے کے قرض میں ڈوبی ہوئی ہے،یعنی یہ قرضہ جات اُس وقت کے ہی ہیں جب مودی جی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
مودی جی نے اس ٹھوس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ گجرات اور ہندوستان میں بہت بڑا فرق ہے۔اُن کی سوچ ابھی بھی گجرات سے آگے پرواز نہیں کر نے پائی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ بُلیٹ ٹرین ممبئی سے احمد آباد نہیں بلکہ احمد آباد سے ممبئی چلائی جائے گی(اگر تیار ہو گئی تو)۔ممبئی کا نوا شیوا سرکاری بندرگاہ جسے ملک کا سب سے بڑا بندرگاہ ہونے کا شرف حاصل تھا ،وہاں کا کاروبار گھٹ کر آدھا ہو گیا ہے اور وہ کاروبار اڈانی کے پرائیوٹ بندرگاہ گجرات میں منتقل ہو گیا ہے۔اسی طرح امبانی برادرس کو دفاع اور مواصلات کے بڑے بڑے ٹینڈر تفویض کئے جا چکے ہیں ۔نوٹ بندی انجام دینے کے لئے ایک گجراتی گورنر کو لایا گیا اور اس کی تقرری کے ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی ڈیمانائٹیزیشن کا ناقابل فہم فیصلہ کیا گیا کہ جس سے معیشت کی گاڑی کا ستیاناس ہوا اور اس کے ذمہ دار صرف اور صرف مودی جی ہیں۔بی جے پی وشال دیش پر حکومت کر رہی ہے اوراس کاصدر بھی ایک گجراتی ہی ہے۔کسی دوسرے صوبے سے صدر ہو یہ مودی کو گوارہ نہیں اور شاید بھروسہ بھی نہیں یعنی کہ گھوم پھر کر بات گجرات پر ہی آکر ٹھہرتی ہے۔اِس سے ذرا نکلتے ہیں تو آر ایس ایس یا بی جے پی کی آئیڈیا لوجی تک ان کا ذہن جاتا ہے جبھی تو پنجاب و ہریانہ کی عدالت نے انہیںاور ان کے ساتھی کھٹّر صاحب پر یہ چوٹ کی ہے کہ آپ بی جے پی کے نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور کھٹّرصاحب سے کہتی ہے کہ آپ بھی ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ہیں نہ کہ صرف بی جے پی کے۔اس سے قبل بھی عدالتوں کے ذریعے مودی اور مودی حکومت کو کئی تنقیدیں سننے کو مل چکی ہیںلیکن ان کی طبیعت کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ اپنا کام کرتے جاتے ہیں ،وہ اپنا اور اسی طرح سے کاروبارِ حکومت چلتا رہتا ہے اور ان کو یہ لگتا ہے کہ یہ یوں ہی چلتا رہے گا۔
مودی کی بھاجپا میں انہیں کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غلط کو غلط کہنے کی ہمت رکھتے ہیں۔انہیں میں سے ایک یشونت سنہا ہیں جنہوں نے حالیہ دنوںمودی جی کی معاشی پالیسی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔ انہوں نے سیدھا نشانہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی پر سادھا ہے اور ایک طرح سے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ اس عہدے کے لائق ہی نہیں ہیں۔انہوں نے ملک کی معیشت کا نہ صرف بٹہ لگایا ہے بلکہ معیشت کو زوال پذیر ہونے کے راستے پر ڈال دیا ہے۔انہوں نے اعداد و شمار کے ساتھ اپنے مبسوط کالم میںایک ایک شعبے کی کارکردگی کا کچا چٹھا پیش کیا ہے اور خاص طور پر یہ بتایا ہے کہ مودی حکومت جس شرح نمو کی بات کرتی ہے کہ وہ ۷ء۵ فیصد ہے لیکن پرانے پیمانے کے حساب سے وہ ۵ء۳ فیصد ہی ہے جو پیمانہ منموہن سنگھ اور واجپئی یا اس سے پہلے کا مروج تھا۔ایک ماہر اقتصادیات نے تو یہاں تک بتایا کہ اگر غیر منظم سیکٹروں کو اس میں سے نکال دیا جائے تو یہ شرح نمو ۵ء۱ فیصد ہی رہ جائے گی۔بھلابتائیے کہ ہماری معیشت مودی کی سربراہی میں کہا ںجا رہی ہے اور حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے اقدام طویل مدتی فائدہ پہنچائیں گے۔وہ مدت کتنی طویل ہوگی یہ بتانے کی زحمت نہیں کی جاتی۔مودی جی نے اپنی زندگی جی لی ہے۔اسی طرح جیٹلی بھی زندگی کے مزے لوٹ چکے ہیں ،تو پھریہ سب کس کے لئے کر رہے ہیں اور کون ان کی مان رہا ہے؟ان کی جو طویل مدتی دوا ہے اس کا خریدار کوئی نہیں کیونکہ آج کے دور میں سب کو’’ ابھی‘‘کی پڑی ہے اور نئی نسل تو پِزّا والی نسل ہے،اُسے تو ان کی بات ہضم بھی نہیں ہوتی ۔یشونت سنہا دو دفعہ وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور آئی اے ایس کی نوکری سے استعفیٰ دے کر سیاست میں قدم رکھا ہے۔اسی لئے معاشی معاملات اور اصطلاحات پر ان کی گہری نظر ہے لیکن پہلے ان کے سوالات کا جواب راج ناتھ سنگھ اور پیوش گوئل سے دلوایا جاتا ہے جن کا معیشت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، اس لئے وہ بے چارے کہتے ہیں کہ ہم ’’نیو انڈیا‘‘ کی طرف گامزن ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔کیسے ہوجائے گا ،یہ نہیں بتاتے بلکہ بتا ہی نہیں سکتے!
یشونت سنہا والے ایپی سوڈ کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ مودی حکومت نے اُسی طرح کا ایک عددادارتی کالم دوسرے ہی روز ایک معاصر اخبار میں شائع کروایا ہے جو اُن کے بیٹے جینت سنہا کا ہے جو مودی کی کابینہ میں شہری ہوا بازی کے وزیر ہیں۔اس مضمون میں وہی باتیں ہیں جو مودی جی کا ٹولہ دوہراتا رہتا ہے یعنی کہ بجلی،سڑک،ڈیجیٹل،ٹیکنالوجی وغیرہ ہماری حکومت مہیا کرائے گی اور وہ بھی ۲۰۱۹ء تک۔پی چدمبرن نے اس مضمون کو بی جے پی کا پریس ریلیز کہاہے اور جینت کے’ ’حکومت کی ساختیاتی تبدیلی‘ ‘کو دفتری تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ بی جے پی نے جینت سنہا کا ہی انتخاب کیوں کیا ؟یہ بھی کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے جب کہ یہ خود کو وراثتی نظام ِ سیاست کی مخالف بتاتی ہے۔ در اصل بی جے پی گھروں میں انتشار اور نفاق پیدا کرنے والی پارٹی ہے اور پارٹی اندر سے بہت گھبرائی ہوئی ہے، ورنہ اتنی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔واضح رہے کہ جینت سنہا کوئی ماہر معاشیات نہیں ہیں اور باپ تو بہر حال باپ ہوتا ہے۔یشونت سنہا کے مضمون کے بعد جو بات سامنے آئی ، وہ یہ ہے کہ اب مودی کے وزراء ۲۰۲۲ء تک کی بات نہیں کر رہے ہیں۔یہ صرف تین دنوں کا ڈیولپمنٹ ہے۔
مودی جی نے تو ابھی تک اس بابت منہ ہی نہیں کھولا ہے لیکن جیٹلی کیسے خاموش رہتے ؟ ان کی اصلیت سامنے آگئی جب انہوں نے یشونت سنہا کے بارے میں یہ کہا کہ ۸۰؍ برس تجاوز کرنے کے بعد بھی کچھ لوگ نوکری کی تلاش میں ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کبھی ۸۰؍ کے نہیں ہوں گے اور ان کی موجودہ وزارت ہمیشہ کے لئے برقرار رہے گی ۔یہ کتنی نازیبا بات ہے!!!بی جے پی میں بزرگوں کی قدر کرنا جیسے لوگ بھولتے جا رہے ہیں۔در اصل اس کے پیچھے بھی مودی جی کی ہی طلسماتی منطق کارفرما ہے۔دنیا میں کہیں بھی اور کسی بھی پارٹی میں بوڑھوں و بزرگوں کا ایساحشر نہیں ہوتا جو بی جے پی میں ہو رہا ہے ۔ بھاجپا نے ان جہاں دیدہ اور تجربہ کاروں کو ’’مارگ درشک‘‘ کے حاشیٔے پر رکھ کر انہیں بے شک سیاسی زندگی سے معزول کر دیا ہے مگر یہ صرف اس کے زوال کانو شتہ ہے!
……………………
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883