سرینگر//مشن کشمیر کے دوسرئے رائو نڈ پر سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کی سربراہی والے وفد نے وکلاء،سیول سوسائٹی، تاجروں اور انسانی حقوق کی جماعتوں سے گول میز مباحثے کے دوران انہیں تعاون پیش کرنے کی درخواست کی۔وادی کے 5روزہ دورے پر آئے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کی سربراہی والی ٹیم نے دورے کے تیسرے روز سرینگر میں سیاسی، سماجی، بشری حقوق اور وکلاء برادری سے تبادلہ خیال کیا جس کے دوران انہوں نے ان جماعتوں کے نمائندوں سے مسئلہ کشمیر سے متعلق رائے حاصل کی۔ ایک مقامی ہوٹل میں مباحثے کے دوران وکلاء،سیول سوسائٹی،تاجروں اور انسانی حقوق کی جماعتوں نے یک زبان ہوکر اس ٹیم کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے حریت کانفرنس اور پاکستان سے بات چیت کا مشورہ دیا جبکہ وادی میں گرفتاریوں کے چکر کو روکنے اور قیدیوں کو رہا کرنے مطالبہ کیا گیا۔ان نمائندوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ گزشتہ ملاقات کے دوران انہوں نے اعتماد سازی کے تحت اقدامات اٹھانے کی جو بات کی تھی ،وہ زمینی سطح پر نظر نہیں آرہی ہیں۔دورے پر آئے ٹیم نے کہا کہ ان کی سفارش پر کئی لوگوں کو اب تک رہا کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بحث کے دوران بار ایسو سی ایشن کی طرف سے ایڈوکیٹ محمد امین بٹ کی سربراہی والی ٹیم میں ایڈوکیٹ ارشد اندرابی،ایڈوکیٹ مفتی معراج اور ایڈوکیٹ سید منظور بھی شامل تھے۔بحث کے دوران ایڈوکیٹ محمد امین بٹ نے بتایا کہ جب تک بنیادی مسئلہ یعنی مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جاتا تب تک صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔انہوں نے بتایا کہ آرائشی اقدامات سے اگر چہ وقتی طور پر اس ابال میں ٹھہرائو آسکتا ہے تاہم بھارت کو اس مسلہ کو حل کرنے کیلئے سنجیدگی کا اظہار کرنا ہوگا تاکہ اس مسئلہ کا حتمی حل برآمد کیا جا سکے۔ایڈوکیٹ محمد امین بٹ نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی اداروں کے ایجنڈا میں موجود ہے اور بھارت کی طرف سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے اس مسئلہ کی ہیت پر نہ ہی منفی اثرات مرتب ہونگے اور نہ ہی اصل حقائق کو جھٹلایا جاسکتا ہے۔ اس دوران سابق و زیر خارجہ یشونت سنہا نے کہا کہ وہ انتہائی منکسرالمزاج کے ساتھ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اندھیروں سے روشنی کی طرف راستہ تلاش کیا جا سکے اور جو تعطل بنا ہوا ہے اس کو توڑا جائے۔انہوں نے کہا کہ دیگر جماعتوں سے وابستہ ممبران پارلیمنٹ بھی انکے ساتھ ہیں اور پارٹی سطح سے بالاتر ہوکر وہ تعاون پیش کر رہے ہیں۔ بحث میں موجود معروف انسانی حقوق کارکن خرم پرویز نے جیلوں میں نظر بندوں کی حالات زار اور انکے تئیں اپنائے گئے رویہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ دانستہ طور پر نوجوانوں کو سخت گیر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ڈاکٹرالطاف نے واضح کیا کہ اگر مسئلہ کشمیر کو حتمی طور پر حل کرنے کیلئے یہ کاوشیں کی جا رہی ہے تو یہ بہتر ہوگا وگرنہ عارضی طور پر اٹھائے جانے والے اقدامات کا تجربہ ماضی میں بھی ناکام ہوچکا ہے۔اس دوران متحرک سیول سوسائٹی گروپ کشمیر سینٹر فار سوشیل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈئز نے بھی یشونت سنہا کی سربراہی والی ٹیم سے ملاقات کی۔ اس سلسلے میں متحرک سیول سوسائٹی کارکن شکیل قلندر نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ ٹیم کو اس20نکاتی پروگرام کی یاد دہانی کی گئی جو انکے پہلے دورے کے دوران انہیں پیش کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس20نکاتی پروگرام میں اعتماد سازی کے تحت اقدمات کرنے کی بات کئی گئی تھی جبکہ قیدیوں اور چھوٹے بچوں کی مسلسل حراست میں رہنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔پروفیسر حمیدہ نعیم نے کہا کہ ایک بار پھر اس ڈیلی گیشن کو باور کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کو بامعنی طور پر حل کرنے کیلئے پاکستان اورحریت کانفرنس کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ٹیم کو اعدادو شمار سے سمجھایا گیا کہ جموں کشمیر کے5خطوں میں مجموعی طور پر79 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے جبکہ ہندوفرقے سے وابستہ 18.35اور سکھوں کی آبادی1.24 ہیں جبکہ دیگر مذاہب اور فرقوں کے رہنے والے لوگوں کی آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔شکیل قلندر کے مطابق سنہا نے کہا کہ انہیں اگر چہ حکومت نے کوئی بھی اختیار نہیں دیا ہے تاہم انسان ہونے کے ناطے انہیں اخلاقی اختیار ہے۔ شکیل قلندر کے مطابق میٹنگ کے دوران انہوں نے کہاکہ وہ کشمیریوں کا دکھ درد بانٹنے آئے ہیں اور اگر اس میں انکی جان بھی چلی جائے تو غم نہیں۔اس دوران یشونت سنہا کی سربراہی والی ٹیم نے دن بھر کئی سیاسی،سماجی وفود سے ملاقات جاری رکھا اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی کے ریاستی ترجمان خالد جہانگیر،حق اطلاعات کارکن ڈاکٹر راجہ مظفر اورسماجی کارکن امیت وانچو سے ملاقات کی گئی ۔اس دوران ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے یشونت سنہا کی سربراہی والے وفد سے ملاقات کے دوران واضح کیا کہ جموں و کشمیر کسی بھی لحاظ سے ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور آر پار رائے شماری کے بغیر مسئلہ کا کوئی بھی مبنی بر انصاف حل ممکن نہیں ہے ۔ انجینئر رشید نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہوں نے یشونت سنہا کی سربراہی والے وفد سے واضح کیا کہ جنگجو تنظیموں کو مذاکرات میں شامل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ـ’’کون نہیں جانتا کہ کشمیری عسکریت پسندوں کو دہشتگرد نہیں مانتے اور نئی دلی کی تمام کوششوں کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ عسکریت پسندوں کو عوام کے بہت بڑے حلقہ کی حمایت حاصل ہے‘‘۔ وفد میں شامل اراکین سے انجینئر رشید نے وضاحت سے کہا کہ کشمیریوں کا ہر کسی ہندوستانی سیاستدان ، دانشور یا درپردہ مذاکراتکار پر بھروسہ اٹھ چکا ہے اور اُن کی نظروں میں یہ سارے لوگ تبھی کشمیر کا رُخ کرتے ہیں جب یہاں حالات خراب ہوں۔ انجینئر رشید نے وفد کے ارکان سے کہا کہ اگر چہ ذاتی طور سے کشمیریوں کو ہر ہندوستانی مہمان کا احترام ہے لیکن جب آپ یہاں کشمیر تنازعہ کے حوالے سے رُخ کرتے ہیں تو آپ کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہے کہ کیا کسی بھی درپردہ مذاکراتکار کو یہاں آنے کا اخلاقی حق حاصل ہے کیونکہ 1947 سے اب تک بالعموم اور1990 سے لیکر آج تک بالخصوص جتنے بھی مذاکراتکاریا وفود یہاں وارد ہوئے اُن کا ایک نکاتی ایجنڈا کشمیریوں کو تھکانا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلہ کے حل کے حوالے سے کوئی بھی واجپائی کی پالیسیوں کا خریدار نہیں اور ایسا کہہ کر مسئلہ کی اہمیت کو گھٹایا جا رہا ہے۔