جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کاپینتالیسواں(45) یومِ تاسیس 25نومبر2017ء بروزِ سنیچروار سینٹرل آفس سرینگر کے آڈیٹوریم میں اِنتہائی وقار اور سادگی سے منایا گیا۔مذکورہ دن کو ٹرسٹ کے بانی سرپرست مرحوم ٹاک صاحب زینہ گیری کے تئیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے بھی منایا گیا۔اس موقع پر جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ سے وابستہ وادی کے طول و عرض اور جموں صوبہ سے آئے ہوئے کارکنان، رضاکاران، ٹرسٹ سے منسلک زعماء حضرات، ٹرسٹ کے زیرانتظام متعدد یتیم خانوں میں زیر تربیت یتیم بچوں اور بچیوں ، مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی مقتدر شخصیات اور صحافت سے منسلک اشحاص نے شرکت فرمائی۔تقریب کے مہمانِ خصوصی وادی کے معروف قانون دان اور سماجی کارکن ریٹائرڈ جسٹس ،جسٹس بشیر احمد کرمانی صاحب تھے۔ اس کے علاوہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سرینگر جناب وکاس کنڈل صاحب، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ترال جناب ریاض احمد ملک صاحب، ریٹایرڈ چیف کنزرویٹر آف فاریسٹس جناب عبد الرشید خان صاحب، ڈاکٹر محمد سعید صاحب اور دوسری اہم شخصیات نے بھی تقریب میں اپنی موجودگی سے کو رونق بخشی۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام ِ پاک اور اس کے ترجمے سے ہوا۔یہ فریضہ گلشن ِبنات کی دو ہونہار طالبات نے سر انجام دیا۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے فوراٌ بعد گلشن بنات کی دو لائق بچیوں نے بارگاہ ِایزدی میں حمد اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک پُر سوز نعت شریف سے محفل کو رونق بخشی۔
جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کے جنرل سیکریٹری محترم رئوف صاحب کی ایک ذاتی مصروفیت کے پیش نظر ٹرسٹ کے رضاکار معراج زرگر نے ٹرسٹ کا سالانہ جائزہ برائے سال 2016-17 پیش کیا۔ موصوف نے یتیم ٹرسٹ کی تمام فلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں کا تفصیلی خاکہ پیش کیا۔ موصوف نے ٹرسٹ کے زیر انتظام مختلف فلاحی کاموں کے مکمل اعداد و شمار شرکائے تقریب کے سامنے پیش کئے۔ سالانہ رپورٹ کے خلاصے سے ٹرسٹ کے وسیع تر کام اور کاز کی نشاندہی کرائی گئی جس کو سن کر تقریب میں شامل تمام افراد بے حد متاثر اور مطمئن نظر آئے۔اس سال مرحوم ٹاک زینہ گیری ایوارڈ برائے سال 2017، ادب ، انتظامی امور اور سماجی خدمات میں نمایاں اور فقیدالمثال کارکردگی کے اعتراف میںاسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اونتی پورہ کے منیجمنٹ اسٹڈیز شعبہ کے سربراہ پروفیسر علی محمد شاہ صاحب، ضلع بڈگام کے ڈپٹی کمشنر محتر م ہارون رشید صاحب اور اسلام آبادکی معروف سماجی تنظیم ــــــ"سعید السادات فاونڈیشن" کو دئے گئے۔اس کے علاوہ یتیم ٹرسٹ کے۱۲؍ یتیم خانوں میں زیر کفالت ۳۶ ؍بچوں اور بچیوں کو "Discipline"ــ،"Hyegine"،اور"Academics"ـ میں نمایاں اور امتیازی کارکردگی کی بنیاد پر اسناد اور تحائف سے نوازا گیا۔
اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اونتی پورہ کے منیجمنٹ اسٹڈیز شعبہ کے سربراہ پروفیسر علی محمد شاہ صاحب نے تعلیمی خدمات کے صلے میں برائے سال 2017 ء ٹاک زینہ گیری ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے انتہائی ندامت اور متانت بھرے لہجے میں اظہارتشکر کے ساتھ اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ اُنہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہ تھا کہ جموں کشمیر یتیم ٹرسٹ غیر سرکاری سطح پر اتنا بڑا کام سر انجام دے رہا ہے۔آپ نے موجودہ سرپرست اور ٹرسٹ کے انتظامیہ کا بھرپور شکریہ ادا کرکے مرحوم ٹاک زینہ گیری کے لگائے ہوئے پودے کے برگ و بار اور اس کے میٹھے پھل کو سراہا۔ موصوف نے نوبل انعام یافتہ بنگلہ دیشی پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کا حوالہ دیتے ہوئے گرامین بنک کی داغ بیل ڈالنے کے پس منظر میں جموںو کشمیر یتیم ٹرسٹ کی بنیاد اور اور ضرورت کو اُجاگر کیا۔موصوف نے مفلوک الحال طبقے سے جڑے بچوں اور بچیوںکی تعلیم کے جدید تقاضوں کے بارے میں کہا کہ تعلیم وہ واحد شئے ہے جس سے انسان کی آنکھیں اور دل روشن ہوتے ہیں ۔ آپ نے خدمت خلق کے ضمن میں بتاتے ہوئے کہا کہ غریب اور نادار افراد کی مدد کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے اور ہم ان لوگوں کے بحیثیت مزدور اور کمائو سرپرست ہیں۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ دینی ذمہ داری کے علاوہ بھی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے سماج اور اس میں پل رہی غربت، افلاس اور اخلاقی بے راہ روی کو دور کرنے کے لئے آگے آئیں۔ آپ نے ایک بہترین مثال کے ذریعے سے سمجھایا کہ جب بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں امیر طبقے سے طلبا ء اور طالبات عوام کے کروڑوں روپے کے ٹیکس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں تو کیاغریب اور یتیم بچوں کے لئے ہمارا دل اور دامنِ ترحم وسیع نہیںہونا چاہیے ؟
سماجی خدمت میں اسلام آباد میں سرگرم فلاحی تنظیم "سعید السادات فاونڈیشن" کو قابل اعتناء کام کے اعتراف میں ٹاک زینہ گیری ایوارڑ سے نوازا گیا۔تنظیم کے چیرمین، جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کے سرپرست کے ہم نام محترم ظہور احمد ٹاک صاحب نے تشکر بھرے کلمات کے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا کہ یتیم ٹرسٹ ایک موثر اور مفید کام سر انجام دے رہا ہے۔ موصوف نے فرمایا کہ یہ ریاست کا وہ واحد قدیم ترین اِدارہ ہے جس سے باقی فلاحی اِداروں کو غریب، مفلس اور نادار افراد کی بے لوث خدمت کرنے کی ترغیب ملی۔آپ نے مزید فرمایا کہ ایسے اداروں کا قیام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔آپ نے دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنی تنظیم کی طرف سے یتیم ٹرسٹ کے سرپرست اعلیٰ اور اس سے وابستہ رضاکاران کا شکریہ ادا کیا۔آپ نے برملا اس بات کے لئے اظہار تشکر کیا کہ متذکرہ ایوارڑ حاصل کرنا ان کی رفاہی تنظیم کے لئے ایک حوصلہ افزا ء بات ہے۔
انتظامی امور میں مخلصانہ اور گراں قدر خدمات کے ضمن میں ضلع بڈگام کے ڈپٹی کمشنر محترم ہارون رشید صاحب کو بھی ٹاک زینہ گیری میموریل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انتہائی زیادہ سرکاری مصروفیات کی وجہ سے موصوف تشریف آور نہ ہوسکے، سرینگرضلع اور ترال سب ڈسٹرکٹ کے دو قابل قدر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنروں نے جناب ہارون صاحب کے بدلے یہ ایوارڈ حاصل کیا۔ موصوف نے البتہ فون پر ٹرسٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی عدم موجودگی پر معذرت کا اظہار کیااور ٹرسٹ کے اہداف ومقاصد کی آبیاری میں اپنے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی وادی کے معروف قانون دان اور سماجی کارکن ریٹائرڈ جسٹس کرمانی صاحب نے اپنے مخصوص نپے تلے علم پرور وشگفتہ لہجے میں ٹرسٹ کی فعالیت اور تحرک پر اطمینان جتایا۔ موصوف نے اُمت مسلمہ ، خاص کر مسلمانانِ کشمیر کے اندر بڑھ رہی مسلکی فرقہ واریت پر اپنی گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے علمائے دین کو اپنا صحیح رول نبھانے کی گزارش کی۔محترم کرمانی صاحب نے مرحوم ٹاک صاحب کے حوالے سے ان کے ساتھ ٹرسٹ کی بنیاد کو لے کر چند اہم باتوں سے تقریب کو روشناس کرایا۔ آپ نے دردمندانہ مگر فکر انگیز انداز میں اس بات کا گلہ کیا کہ سرکار اتنے وسائل ہونے کے باوجود بھی یتیموں اور بیوائوں کے مکمل اور منظم اعداد و شمار دستیاب رکھنے اور اس کی مناسبت سے ان کی باز آبادکاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موصوف نے دینی مزاج اور ماحول کے تناظر میں زندگی کے فلسفے اور زندگی گذارنے کے لئے درکار اسلوب اور منطق پر مدلل روشنی ڈالی۔ جناب کرمانی صاحب نے انسانی وجود کے اندر بسے ہوئے نقلی اور اصلی خدا کی پہچان کراتے ہوئے سامعین کو ایک بہترین درس سے مستفید کیا۔ موصوف نے کشمیر میں یتیموں ، بیوائوں کی بڑھتی ہوئی فوج کے بیچ بے راہ روی، اخلاقی بے حسی اور منشیات کی وباپر اپنی گہری فکر وتشویش ظاہرکر کے کہا کہ ایسے خطرناک ترین حالات میں بھی ہمارے بدلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ یتیم و یسیر لامحدود ہیں اور ان کی کفالت کے ذرایع محدود ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ریاست میں اس وقت ساڑھے تین ہزار غیر سرکاری ادارے رجسٹرڈ ہیں جن میں اکثر خدمت خلق کے نام پر استحصال کر رہے ہیںاور جو چند ادارے ہمہ وقت مصروفِ عمل ہیں ، اُن میں جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کو پیشوائی کا درجہ حاصل ہے۔ موصوف نے کہا کہ کی ان کی رائے میں تمام فعال فلاحی اداروں کی ایک Body Apex ہونی چاہیے تاکہ ایک بہتر تال میل اور کوارڈینیشن کے ساتھ خدمت خلق کا کام ہوسکے۔ موصوف نے علمائے کرام اور دینی جماعتوں کے متعلقین سے بھی مودبانہ استدعا کی کہ وہ سماجی سطح پر ایک اہم رول ادا کریں اور فروعی مسائل و فرقہ وارایت کے جنجھٹ سے دامن بچا کر انسانی دنیا کے روحانی مسائل کو اُجاگر کریں۔جسٹس صاحب نے زور دیا کہ ہر ایک فرد اپنی اپنی پوزیشن پر خدمت خلق کو انجام دینے کا متمنی ہونا چاہیے ۔ حالات حاضرہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فاضل مقرر نے کہا کہ ا یک آگ جل رہی ہے اور ایسے میں ہر ایک ذی شعور فرد کا فرض بنتا ہے کی وہ آگ میں اپنے ہاتھ سینکنے کے بجائے آگ بجھانے کی سبیل کرے ۔ آپ نے ٹرسٹ کے رضاکاران کی کوششوںکو سراہتے ہوئے کہا کہ خدمت خلق کے میدان میں نبی کریم ﷺ ہمارے واحدرول ماڈل ہیں اور ہم سب خلوص نیت کے ساتھ ا س کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ تقریب میں شامل آفیسر سے مخاطب ہوکر انہوں نے کہا کہ یہ سب اپنے اپنے اختیارات کو بروئے کا لاکر سماج کی خدمت کریں انسانیت کا بھلا کر سکتے ہیں۔ آخر میں جسٹس ( ریٹائرڈ) بشیراحمد کرمانی صاحب نے تمام کارکنان کو دعائوں اور نیک خواہشات سے نوازا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سرینگر جناب وکاس کنڈل نے اپنے ایک انتہائی مختصر پیغام میں کہا کہ کشمیریوں کے اندر خدمت خلق کا زبردست جذ بہ بدرجہ اَتم موجودہے جس کی بہترین مثال جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ ہے۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ترال جناب ریاض احمد ملک صاحب نے اپنے تعریفی کلمات سے ٹرسٹ کے کام کی سراہنا کی اور شکریہ ادا کیا کہ وہ ایک ایسی نفیس تقریب میں مدعو کئے گئے۔ آپ نے اپنے متانت بھرے لہجے میں فرمایا کہ انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہ تھا کہ ٹرسٹ اس قدر اور اس بڑے پیمانے پر سماجی کام انجام دے رہا ہے۔ آپ نے بچوں اور بچیوں سے نصیحت کی کہ وہ اپنے مستقبل کیلئے محنت اور لگن سے کام کریں تاکہ آنے والے وقت میں وہ سب اچھے انسان بنکر دکھائیں اور اپنوں کی مدد کر سکیں۔ آپ نے سماجی خدمت کے کام کوبڑھانے کی تلقین کی اور رضاکارانہ کام کر نے والوںکے تئیںنیک خواہشات کاا ظہار کیا۔
ادارے کے سرپرست اعلیٰ محترم ظہور احمد ٹاک صاحب نے اپنے اختتامی خطبے میں اپنے مرحوم والد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دل میں انسانی خدمت کا بے پناہ جذبہ ودیعت فرمایا تھا۔آپ نے کہا کہ ایک قدرے بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود بھی وہ اس قدر منکسرالمزاج اور سادہ لوح تھے کہ کبھی کبھی ایک معمولی ہوائی چپل پر بھی اپنی ڈیوٹی پر نکل جاتے تھے ۔ر یہ اُن کی اسی سادہ مزاجی اورخلوص کی دین ہے کہ اﷲ نے اُن کی خدمت کو قبول کیااور آج وادی کے طول و عرض میں سنجیدہ اور صاحبِ استطاعت علمی لوگ ٹرسٹ سے وابستہ ہیں ، خدمت خلق کو عبادت سمجھ کر انجام دے رہے ہیںاور خالصتاٌ دینی بنیادوں پر اور فقط اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اپنی بہتر عاقبت کیلئے سب جھو کم اٹھا رہے ہیں۔موصوف نے اپنے کارکنان کو زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ خدمت خلق کا کام نیک نیتی اور ندامت کے ساتھ انجام دیں،اور اگر کبھی بھی نیت اور خلوص میں کوئی کمی یا خلل رونما ہوا تو اُسی لمحے ہمارا کام بھی متاثر ہونا شروع ہوگا۔ٹرسٹ کے کارکنان اور رضاکاران کو ناصحانہ انداز میں سرپرست اعلیٰ نے کہا کہ ہمہ وقت اپنا کام سرگردانی اور سرگرمی سے انجام دیتے ہوئے دینی امور کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرتے رہیں اور عاقبت اﷲ کے حوالے کریں۔ موصوف نے جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کے کام اور کاز کے بارے میں اطمینان جتاکر کہا کہ جہاں ہزاروں سماجی تحریکیں اور تنظیمیں شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوئی ہیں، وہاں جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ آج اپنے تقریباٌ پچاس سال مکمل کر رہا ہے اور یہ سب رضاکاران کے خلوص اور غیرت مند عوام کی محنت شاقہ کا مجموعی نتیجہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ سماج ایک اتھل پتھل اور ہیجان میں مبتلا ہو چکا ہے۔ رشتے ٹوٹ رہے ہیں ، طلاقیں ہو رہی ہیں، بے راہ روی بڑھ رہی ہے، بچے اپنے بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا چھوڑ رہے ہیں، لڑکیاں چالیس چالیس سال کی ہوچکی ہیں اور مہندی کو ترس رہی ہیں، غلط عقیدے اور رسم و رواج سماجی تانے بنے کی دھجیاں اڑارہے ہیں ۔ اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور ہمیں ہی ان سارے مسائل کا ازالہ کرنا ہوگا۔ظہور صاحب نے کہا کہ عالمی سطح پر مسلمان لٹ رہا ہے ، پٹ رہا ہے اور یہ لو ٹ مار ی اور پٹائی جاری ہے۔ اگرچہ ہم عالمی سطح پر ہم اس حال کو بدل نہیں سکتے لیکن مقامی سطح پر ہمیں ہر ممکن ذریعے سے اس کے لئے کوشش کرنا ہوگی اور ہم اس چیز کے لئے مکلف بھی ٹھہرائے گئے ہیں۔ اگر ہم مکمل دینی جذبے کے ساتھ خدمت خلق کی گراں قدردولت بارگاہ ِایزدی میں لے کر حاضر ہوں تو کیا پتہ کہ اللہ کی جوش رحمت میں اُبال آئے اور ہمارا بیڑہ پار ہو جائے۔ محترم ٹاک صاحب نے فرمایا کہ ٹرسٹ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہیہ ادارہ ایک فلاحی آرگنائزشن کے پہلو بہ پہلو ایک Developmental آرگنائزیشن بنایا جائے تاکہ ٹرسٹ کے کام کا دائرہ وسیع تر ہوسکے اور یہاں سے فارغ شدہ بچوںاور بچیوں کو خود کفیل بنایا جاسکے۔ آخر میں سرپرست اعلیٰ نے دل گداز دعاؤں کے ساتھ تمام کارکنان،مہمانان گرامی،ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے حضرات اور اُن تمام خیر خواہان اور احباب کا شکریہ ادا کیا جو ٹرسٹ کے کام میں معاونت اور اِمداد کر رہے ہیں۔
ترال کشمیر