الطاف حسین جنجوعہ
راحیل نے زور زور سے روتے ہوئے اپنی والدہ سے پوچھا… امی …ابو نے کہاتھاکہ وہ جلدی واپس آئیں گے ، لیکن ابھی تک نہیں آئے …ابوکہاں گئے ہیں؟۔ راحیل کی طوطلی زبان سے ابو‘…ابو‘ پکارنا اور زار وقطار روناکلیجہ چیرتا تھا۔
پچھلے ایک ہفتے سے راحیل کی زبان پر شب وروز ابو ‘…ابو‘ تھا، دِن میں تو وہ کھیل کود میں مصروف ہوکر کچھ دیر کے لئے بھول بھی جاتا مگررات کو وہ اپنی والدہ کوتارے دکھاتا۔ اُس کے اِن معصوم اور تلخ سوالات کا آسیہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اُس کا دِل بہلانے کے لئے سارے طریقے استعمال کئے … جن بہت کی کہانی تو کبھی شیر آنے کا بہانہ کرکے اُس کو ڈرا کر سونے کے جتن بھی ناکام رہے۔ رات گیارہ بجے تک جب رو روکر وہ بے حال نہ ہوجائے سوتا نہ تھا۔
آج دس دن ہوگئے تھے ۔سرما کی اندھیری اور لمبی رات … دیئے کی مدھم سی روشنی میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی آسیہ کی گود میں راحیل والد کی یاد میں بھلکتے بھلکتے سوگیاتھا۔ نو بجے کا وقت تھا،ابھی تو پوری رات باقی تھی ، راحیل کے کلیجہ چیرنے والے معصوم سوالات اور بچیوں کی خاموشی آسیہ کے لئے قیامت سے کم نہ تھی ۔
آسیہ بظاہر تو خاموش تھی پر اُس کے اندر سمندر لہریں مار رہاتھا۔دُکھ اور صدمے کی وجہ سے اُس کا گلا خشک تھا، ہونٹوں پر سفیدی بیٹھی تھی اور وہ کھل کر روبھی نہیں سکتی ۔ وہ بار باراپنی چھاتی کو ہاتھ سے ملتی ۔ اُس نے آنسوؤں کو زبردستی روک رکھا تھا تاکہ اُس کی بیٹیاںروسیہ، مہرین اورنصرین بھی اُسے دیکھ کر رونا شروع نہ کردیں، جو بظاہر خاموش تھیں مگر اُن کے چہرے کی اداسی سب بیان کر رہی تھی۔
آسیہ کے ذہن میں سوالات کی طویل فہرست تھی مگرجواب نہ تھا۔ ’’میں راحیل کو کیا جواب دے کر مطمئن کرؤں ، میں کیسے اُس کو بتاؤں کہ اُس کا باپ اب واپس نہیں آئے گا، میں کیسے اپنی بیٹیوں کو پڑھاؤں ، لکھاؤں اور اُن کی ضروریات پوری کرؤں گی ،میں اکیلے زندگی اور اِس سماج کا کیسے مقابلہ کرؤں گی ، میری زندگی میں اب موسم سرما کی سیاہ راتوں کی طرح اندھیرا نظرآرہا ہے ،میں کیسے اِن تین بچیوں کی پرورش کرؤں گی ،میرابچپن تویتیمی اور محرومیوں میں گذرا تھا اب ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا ؟؟؟؟۔……یا اللہ میری اتنی بڑی آزمائش؟۔ ‘‘
آسیہ نے آج اعجاز کے ساتھ بھی گلے شکوے شروع کردیئے۔اعجاز کاش !آپ نے کسی کے گھرکی خوشیاں نہ چھینی ہوتیں تو آج مجھے گیلی لکڑی کی طرح سلگنا نہ پڑتا۔آپ نے میری جوانی چھینی ، اپنی اولاد کویتیم کیا، اُن کے بچپن کی خوشیاںچھینیں۔میری بیٹیاں جوکہ ہاتھ لگائے میلی ہوتی ہیں، اُب اُنہیں در درکی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی ۔……اعجاز آپ نے اچھا نہیں کیا،آپ کو مجھے ایسے آدھے راستے میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے تھا۔
آسیہ نے زندگی کی پانچ بہاریں ہی دیکھیں تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ۔ وہ اتنی خوبصورت تھی جیسے کسی محل کی شہزادی ، مگر یہی حسن اُس کا دشمن تھا،جوں جوں وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی اُس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہورہاتھا ۔ہر دِن اُ س کے لئے جدوجہد تھی ۔ اپنوں سے بھی اور بیگانوں سے بھی ۔ قدم قدم پرآزمائش تھی مگر صابر وشاکرماں کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اُس نے کبھی اپنے دامن کو داغ نہیں لگنے دیا۔18سال کی ہوئی تو اعجاز کا اُس کے لئے رشتہ آیاجوپیشے سے ڈرائیورتھا۔ آسیہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی ماں کے آگے سرخم تسلیم کرتے ہوئے شادی کیلئے ہاں کر لی ۔اعجاز صرف چھ جماعت ہی پڑھاتھامگرخوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ محنتی اور سلجھاہواتھا۔ اُس کوآسیہ کی صورت میں ایک ُسلجھی ہوئی اہلیہ ملی جس نے اُس کے ہر پیسے کی قدر کی ۔
اعجاز کے گھراللہ کی رحمت تین خوبصورت بیٹیاں پیدا ہوئیں ، پھر اللہ نے بیٹے کی نعمت سے بھی نوازا۔ وہ اپنی اولاد کی ہر خواہش اُن کے کہنے پرفوراًپورا کرتا۔وہ اکثر کہتا’آسیہ ہم نے بچپن ترس ترس کر گذارا ہے ، کبھی ڈھنگ کے کپڑے نہیں ملے ، عیدی کے دن بھی ٹاکیوں والے جوتے پہننے پڑتے تھے ، میں اپنی اولاد کی ہرخواہش پوری کر کے اپنے بچپن کی محرومیوں کا بدلہ لوں گا!۔
اپنی اولاد اور اہلیہ کی خوشی کے لئے اعجاز کی سوچ تو بہت پاک تھی مگرجس راہ پر وہ چل رہاتھا اُس پر ’آگے کھوتو پیچھے کھائی ‘ تھی۔
سب ٹھیک ٹھاک چل رہاتھا لیکن اعجاز راتوں رات امیر ہونے کے خواب دکھانے والوں کے بہکاوے میں آگیا۔ اُس نے ڈرائیوری کے ساتھ ساتھ منشیات کا کاروبار کرنا شروع کرلیا۔اِتنے روپے ایکساتھ دیکھ کر آسیہ گھبرا گئی کیونکہ اُس نے بچپن دُکھ اور مشکلات میں گذارا تھا۔ خوشی کا اگر ایک پل ملتا بھی تو پھر کئی ماہ دکھ تکالیف کے پہاڑ تلے وہ دب جاتی تھی ۔اُس کو دوبارہ خوشیاں چھین جانے کے خیال سے بھی خوف آتاتھا۔ کئی مرتبہ اُس نے اعجاز سے پوچھا بھی کہ اتنے پیسے کہاں سے لاتے ہومگر وہ دلائل دیکر اُس کو تسلی دے دیتا ۔روزانہ ٹوکنے پر ایک روز اعجاز آگ بگولہ بھی ہوا……’’تمہاری پریشانی کیا ہے ۔ میں گھرآتا ہوں تو ، تو تفتیشی کی طرح سوال پر سوال پوچھنا شروع کر دیتی ہے ۔میرے پاس ٹرک ہے،دن رات محنت کرتا ہوں ۔تجھے تو میری ترقی پرخوش ہونا چاہئے !… اس طرح منہ نہ بنایاکر…ناشکر عورت!
کچھ وقت کے لئے منشیات کا کاروبار تواچھا چلا۔ لیکن اُس کی وجہ سے کئی نوجوان نشے کے عادی ہوگئے اور کچھ کی اموات بھی ہوئیں ۔ایک روز اعجاز پولیس کی گرفت میں آگیا۔چند روز حوالات کی ہوا کھانے کے بعدضمانت پر رہائی ملی، چندہفتوں بعدپھرمنشیات کا دھندہ شروع کیا اور دو ماہ بعد پھرجیل تک پہنچا ۔ اس طرح دو سالوں میں اعجاز پر چار ایف آئی آر لگے اور بالآخر پبلک سیفٹی ایکٹ کا بھی اطلاق انتظامیہ کو کرنا پڑا۔جوچند پیسے کمائے تھے وہ توسبھی خرچ ہوئے ہی ساتھ میں وہ لاکھوں روپے کا مقروض بھی بن گیا۔پی ایسے اے کالعدم کرانے کے لئے آسیہ کو بہت پاپڑبیلنے پڑے۔
اِ س مرتبہ جیل سے باہر آنے پر اعجاز کچھ بدلا بدلاتھا…توبہ تائب کی۔اُس کے رویے میں مثبت تبدیلی دیکھ کر آسیہ کو اطمینان ہوا۔ اللہ کا شکربجالایا ۔
گھر کے صحن میں بیٹھے بیٹی کے بالوں میں کنگی کرتے ہوئے آسیہ اعجاز سے مخاطب ہوکر بولی۔’’ہم روکھی سوکھی روٹی کھالیں گے … خدا را اب اِس دھندے کی سوچنا بھی مت۔اپنی اولاد کی طرف دیکھو، آپ کی گرفتاری کے وقت آپ کے بہن بھائیوں، پڑوسیوں نے بھی ساتھ نہ دیا۔میں لوگوں کی منت وسماجت کرکے تنگ آگئی ہوں۔ میں جس کے در پر بھی گئی اُس نے مجھے گندی نظروں سے دیکھا۔اب مزید ازیت بردداشت نہیں کرسکتی۔
رہائی کے دس روز بعد اچانک صبح صادق ‘ اعجاز نے آسیہ کو نیند سے جھگاتے ہوئے کہا…’’مجھے چائے بنا کر دیں مجھے کہیں کام پر جانا ہے ۔آسیہ جلدی جلدی بستر سے اٹھی اور پوچھا…’کون سا اتنا ایمرجنسی کام ہے، آپ کو گھر آرام نہیں لگتا؟‘
اعجاز نے جواباً کہا’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنا ٹرک فروخت کر دوں گا، ایک شخص سے بات کی ہے ، میں نے ایک شخص سے پانچ لاکھ روپے لینے ہیں، وہ بھی لیکر میں کوئی اور کاروبار شروع کرؤں گا۔آسیہ نے حیرانگی سے پوچھا’’ پانچ لاکھ روپے ………کس سے آپ نے لینے ہیں اور کس بات کے؟
اعجاز’’میں نے ایک شخص کو چند سال قبل نشہ بیچا تھا‘۔ وہ 15میں سے پانچ لاکھ روپے دینے کے لئے مان گیا ہے ۔ چلو کچھ تو ہاتھ آئے ، میری بات ہوگئی ہے ، اُس نے مجھے بلایا ہے ، میں ٹرک بیچنے کے ساتھ ساتھ اُس سے اپنی رقم بھی لیتے آؤں گا۔
آسیہ’’اعجاز ……نہیں …نہیں …نہیں آپ نہ جاؤ، مجھے شک ہورہا ہے ،وہ شخص جس نے آپ کو جیل تک پہنچایا، اب کیسے آپ پر مہربان ہوگیا ہے، یہ اُس کی کوئی نئی چال ہے، وہ آپ کو دھوکے سے بلارہا ہے۔ اپنے اِن ننھے منھے بچوں پر رحم کرؤ مت جاؤ،…میں مزید لوگوں کے طعنے نہیں سُن سکتی۔
آسیہ نے اعجاز کو روکنے کے لئے بہت جتن کئے مگر وہ بضدرہا اور بولامیں دوروز بعد واپس آجاؤں گا، آج نہیں روکنا، پھر کبھی آپ کی بات سے انکار نہیں کرؤں گا۔یہ کہتے وہ گھر سے چلاگیا۔جوں جوں وہ اپنے گھر سے دور ہوتا جارہاتھا تو آسیہ پر عجیب سے کیفیت طاری ہورہی تھی۔اُسے ایسالگاکہ اُس سے کچھ کھوتا جارہا ہے جواب دوبارہ ملے گا نہیں۔ وہ اعجاز کو آنکھوں سے اوجھل ہوئے تک دیکھتی رہی اور بار بار فون بھی کرتی ۔ اعجاز بھی جاتے وقت کئی مرتبہ پیچھے مُڑ کر دیکھتارہا۔
اعجاز تو سدھرنا چاہتا تھا ، اِس دلدل سے نکلنا چاہتا تھا مگر لوگوں کی بد دعاؤں نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑا۔شاید کسی ماں کے منہ سے نکلی بد دُعاآج پوری ہونی تھی ۔ دِن کے چار بجے کے بعد اعجاز کافون سوئچ آف آنے لگا۔، آسیہ کی بے چینی مزید بڑھنا شروع ہوگئی۔اُس کاشک صحیح ثابت ہوا۔اعجازکوپیسے دینے کے بہانے بلاکر زہریلی شے دیکر مار دِیا گیا۔ دوسرے روز صبح یہ المناک خبر گھرپہنچی کہ بس اڑہ کے قریب اعجاز کی نعش ایک نالے سے برآمد ہوئی ہے ۔ اعجاز تیسرے روز گھر آیا تو سہی مگرصندوق میں پیک نعش کی صورت میں!
����
لسانہ تحصیل سرنکوٹ ضلع پونچھ،جموں
موبائل نمبر؛ 7006541602
ای میل[email protected]