Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
صفحہ اول

یاسین ملک کا امریکی عوام کے نام کھلا خط

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 4, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
23 Min Read
SHARE
 سرینگر//امریکہ کی جانب سے سید صلاح الدین کو’’ عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دئے جانے کے چند دنوں بعد ہی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے اتوار کو ’’دنیا کے سب سے طاقتور ملک‘‘ کو لکھے کھلے خط میں یاد دہانی کرائی ہے کہ کیسے امریکہ سال 2006کے کشمیر مفاہمتی عمل کو ’’بھارتی بیروکریسی ‘‘کی جانب سے سبو تاژ کرنے پربھارت سے جواب طلبی کرنے میں ناکام رہا ۔ ایک طویل خط میں ملک نے شاید پہلی دفعہ تفصیل سے 2006کے کشمیر مفاہمتی عمل کے دوران حکومت ہند کے ساتھ اعلیٰ سطحی براہ راست بات چیت کا خلاصہ پیش کیاہے جب منموہن سنگھ ملک کے وزیراعظم تھے۔
 علیحدہ کمرے میں میٹنگ
لبریشن فرنٹ سربراہ لکھتے ہیں’’فروری2006میں،میں اسوقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے نئی دلی میں ملاقی ہوا، اُسوقت کے بھارتی وزیر داخلہ شیوراج پاٹل، قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن، داخلہ سیکریٹری،وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری ٹی کے نائیر، میڈیا ایڈوائزر سنجے بارو،ڈائریکٹر اور سپیشل ڈائریکٹر آئی بی اور معروف سفارتکار ایس کے لانبہ بھی میٹنگ میں موجود تھے۔ میں نے کشمیریوں کے 15لاکھ دستخطوں پر مشتمل ایک کاپی انہیں پیش کی جو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے دستخطی مہم کے دوران حاصل کئے تھے۔ ‘‘یاسین ملک لکھتے ہیں’’میٹنگ میں بھارتی وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ بھارت مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کی’ انتھک کوشش‘ کررہا ہے اور اس کیلئے بھارت نے پاکستان کے ساتھ بھی ’سودمند بات چیت‘ کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے مجھے بتایا’’مسٹرملک آپ یقین رکھیں، میں اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتاہوں‘‘۔ یاسین ملک مزیدلکھتے ہیں’’ جواب میں ، میں نے کہا کہ اگر بھارت اس دیرینہ مسئلہ کا حل چاہتا ہے تو بھارت کو مفاہمتی عمل میںہر فریق کوشامل کرنے کیلئے تیار ہو نا چاہئے،میں نے متحدہ جہاد کونسل کو مفاہمتی عمل میں شامل کرنے کی وکالت کی۔جہاد کونسل کا نام سنتے ہی بھارتی وزیر اعظم نے سخت لہجے میں کہا’’ہم ان کے ساتھ بات کیسے کریں گے ، جو تشدد پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔یاسین ملک لکھتے ہیں کہ میں نے کہا ’’ چاہئے کسی کو پسند آئے یا نہیں مگرارادہ مسئلہ کا حتمی حل تلاش کرنا ہے تو بھارت کو ہر ایک فریق کو شامل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے چاہئے وہ سید علی شاہ گیلانی اور جہاد کونسل کی قیادت ہو جبکہ میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس پہلے ہی شامل تھی‘‘۔یاسین ملک کی جانب سے امریکہ کو لکھے گئے کھلے خط ، جس کی ایک کاپی کشمیر اعظمیٰ کے پاس بھی موجود ہے،میں لکھتے ہیں’’ میں نے زور دیکرکہاکہ جنگجو قیادت ایک حقیقت ہے اور کسی کی پسند یا نا پسند اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی اور اگر کسی فریق کومفاہمتی عمل سے باہر رکھا جائے تو اصل میں ہم انہیں اس سارے عمل کو سبو تاژ کرنے کی جائز وجہ فراہم کررہے ہیں۔میرے دلائل سننے پر بھارتی وزیراعظم نے مجھ سے کہا کہ ’آپ اس مسئلہ پر میری رہنمائی کرسکتے ہیں‘‘۔ملک مزید رقمطراز ہیں’’منموہن سنگھ کے اس سوال کے جواب میں ،میں نے کہا کہ میں اس حساس مسئلہ پر آپ کے ساتھ تنہائی میں بات کرنا چاہتاہوں اور فوری طور وزیراعظم نے اس گزارش کے ساتھ مجھے ایک علیحدہ کمرے میں لیاکہ وزیر داخلہ کو بھی میٹنگ میں شامل کریں۔پھر اس دو بدو ملاقات میں ،میں نے بھارتی وزیراعظم کو بتایا کہ کس طرح آئی کے گجرال سے لیکر واجپائی اور ایچ ڈی دیوی گوڈا تک متواتر بھارتی حکومتیں ناگا جنگجوئوں کے ساتھ مذاکرات کرتی رہیں اور وہ بھی کسی تیسرے ملک میں۔میں نے کہا کہ بھا رت نے نہ ہی ناگا جنگجوئوں کو ہتھیار ڈالنے کیلئے کہا اور نہ ہی کوئی پیشگی شرط رکھی ،حتاکہ بھارتی فورسز اُن علاقوں میں بھی داخل نہیں ہوئے جو ناگا جنگجوئوں کے زیر قبضہ تھے۔لہٰذا اگر بھارتی سرکار کو ناگا جنگجوئوں سے بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے تو وہ کشمیری جنگجوئوں سے بات کرنے میں کیوں بھاگ رہے ہیں۔یہ دوہرے معیار کیوں؟
 وائٹ ہائوس میٹنگ
یاسین ملک مزید لکھتے ہیں’’ بھارتی وزیر اعظم نے مجھ سے کہا کہ میں اس میں انکی کتنی مدد کرسکتا ہوں۔میں نے کہا ’ میرا امریکہ جانے کا ارادہ ہے اور وہاں امریکی حکام سے یہ معاملہ اٹھانے کے علاوہ میں وہاںرہنے والے ایک کشمیری دوست کی بھی مدد لے سکتا ہوں منصوبہ بنا رہاہوں، وہاں میں امریکن حکام کے ساتھ مسئلے پر بات کرسکتا ہوں اور میں وہاں رہنے والی کشمیریوں کی مدد بھی حاصل کرسکتا ہوں‘ ۔ اس میٹنگ کے فوراًبعد میں امریکہ چلا گیا اور وہاں میں نے کیپٹل ہلز میں امریکی دفتر خارجہ کے عہدیداران سے میٹنگ کی۔ کشمیری امریکن کونسل کے غلام نبی فائی بھی میرے ساتھ تھے۔ جنوبی و وسطی  ایشیائی ممالک کے معاملات کیلئے امریکی معاون وزیر خارجہ کرسٹنا بی روکا، امریکی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر سراغرسانی وتحقیق والٹر اینڈرسن، ایگزیکٹیو سیکریٹری ہری تھامس کے علاوہ بھارت و پاکستان کے معاملات دیکھنے والے ڈیسک سربراہان بھی میٹنگ میںموجود تھے۔ میں نے بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت اور مفاہمتی عمل کو مزید وسیع اور جامع بنانے کے معاملہ پر انہیں جانکاری دی۔ میں نے کہا کہ اگر  بین الاقوامی برادرری مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ ہے تو انہیں کشمیری عسکری قیادت کو بھی بات چیت میں شامل کرنا چاہئے۔ کرسٹنابی روکا نے فوراًجواب دیا ،’ یاسین جس بارے میں بات کررہے ہیں، وہ امریکہ میں غیر قانونی ہے‘۔ــ میں نے کہا کہ میں اسکے غیر قانونی یا قانونی ہونے پر بات نہیں کروں گا ۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم اس عمل کو مسئلہ کشمیر کے حل کا عمل کہتے ہیں تو ہمیں ہر ایک فریق کو شامل کرنا ہوگا کیونکہ کسی بھی فریق کو نظر انداز کرنے کا مطلب اصل میںاس فریق کو یا انہیں اس عمل کو سبوتاژ کرنے کا لائسنس فراہم کرنا اور بعد اس عمل کو قتل کرنے کے عمل میں تبدیل کرنا ہے۔ اس سے ان کا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوگیا اور وہ کہنے لگیں کہ آپ کو دیگر لوگوں کے ساتھ بھی اس مسئلے پر بات کرنی چاہئے اور انکو بھی تیار کرنا چاہئے‘‘۔ یاسین ملک لکھے ہیں ’’ جلد ہی امریکی صدر بش کے سپیشل سیکریٹری اورجنوب و وسطی ایشائی معاملات کے سینئر ڈائریکٹر الیزبتھ میلارڈ سے میٹنگ کیلئے وائٹ ہائوس آنے کی دعوت دی گئی ۔ان کا رسپانس انتہائی مثبت تھااور امریکہ سے رخصت ہونے سے قبل میں نے غلام نبی فائی کو رابطے میں رہنے کو کہا کیونکہ شاید ہمیں پاکستان بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ میں واپس نئی دلی آیا جہاںمیں برطانیہ و امریکہ سفارت خانہ کے حکام سے ملااور انہیں تمام عمل کی جانکاری دی۔انہوں نے مجھا بتایا کہ میں پاکستان جانے سے قبل انہیں اطلاع کروں تاکہ وہ پاکستان میں اپنی سفارت خانے کو اطلاع کرسکیں۔ بہت جلد میں ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان میں تھا‘‘۔پاکستان میں تبادلہ خیال کے بارے میں ملک لکھتے ہیں’’غلام نبی فائی بھی امریکہ سے پاکستان پہنچ چکے تھے اور وہاں میں پاکستانی وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملا۔ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل، اشفاق پرویز کیانی جو بعد میں پاکستانی فوج کے سربراہ بنے، بھی میٹنگ میں موجود تھے۔میں نے اُن سے متحدہ جہاد کونسل کی قیادت کومذاکراتی عمل میں شامل کرنے کے خیال کی حمایت کرنے کو کہا۔اس دوران ایک امریکی تھنک ٹینک ’’سٹمسن سینٹر‘‘سے وابستہ امریکہ کی ایک معروف شخصیت مائیکل کریپان صلاح الدین سے ملاقی ہوئے تھے ۔نئی دہلی واپس پہنچنے تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے خود مجھے ایک افسر کا نام اور فون نمبر دیا تھاجن کے ساتھ وزیراعظم تک کوئی پیغام پہنچانے کی صورت میں مجھے رابطہ کرنا تھا۔ میں نے اس شخص سے رابطہ کیا اور اُن سے کہا کہ وہ غلام نبی فائی سے ملاقات کیلئے ایک ایلچی یا مشیر کو امریکہ  بھیج دیں ۔یہ مشیر کبھی بھی نہیںبھیجاگیا کیونکہ بھارتی قومی سلامتی مشیرمسٹر نارائنن نے تمام عمل میں رکاوٹ کھڑی کردی تھی‘‘ ۔ ملک مزید لکھتے ہیں ’’ میں دلی میں مشہور ٹی وی اینکر رجت شرما کے 50ویںجنم دن کی پارٹی میں گیا تھا جہاں بھارتی وزیر اعظم کے سابق میڈیا ایڈوائزر سنجے بارو ملے۔ سنجے بارو نے گرم جوشی سے مجھے گلے لگایا اور کہا ’یاسین،جس طرح آپ نے وزیراعظم کے سامنے مسٹر نارائنن کا تذکر ہ کیا، مجھے وہ بہت پسند آیا‘۔ وہ بھارتی وزیر اعظم کو میری طرف سے دئے گئے جواب کا حوالہ دے رہے تھے جب انہوں نے میٹنگ کے آغاز میںنارائنن کو مجھ سے متعارف کرایا تھا اور مجھ نے انہیں جواب میں کہاتھا کہ میں انہیں ایک سابق انٹیلی جنس آفیسر کی کتاب کے ذریعے پہلے سے جانتا ہوں جنہوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ نارائنن کو میرے ریمارکس اچھے نہیں لگے تھے کیونکہ کسی زمانے میں بھارتی حکومت کے مشیر رہ چکے پی این دھر نے مجھے بتایا کہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران سیاستدانوں کو میرے دلائل اچھے لگے تاہم بیروکریسی کو یہ باتیں پسند نہ آئیں اور انہوں نے سارے عمل کو ہی سبو تاژکردیا‘‘
 بھارت ایک ہاتھی ہے
 امریکہ اور برطانیہ سے سوال کرتے ہوئے محمد یاسین ملک لکھتے ہیں’’ مجھے اس بات سے کافی تکلیف ہوئی کہ دونوں ممالک اس عمل کے بارے میںسب کچھ جانتے تھے اور انہیں بھارت سے سوال کرنا چاہئے تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا عمل ناکام کیوں ہوا مگر دونوں ممالک خاموش رہے‘‘۔ملک لکھتے ہیں ’’اس معاملے میں ایک دفعہ میں نئی دلی میں امریکی سفارتخانہ میںفرسٹ سیکریٹری سے ملا اور اُن سے پوچھا کہ انہوں نے بھارت سے مذاکراتی عمل کواچانک بند کرنے کے بارے میں جواب طلبی کیوں نہ کی ۔اُن کا جواب میرے لئے حیران کن تھا۔ امریکی فرسٹ سیکریٹری نے کہا ’ دیکھو یاسین بھارت ہاتھی ہے اور ہاتھی خود چلتا ہے اور اسکو کوئی دوسرا ہلا نہیں سکتا ۔‘ میں نے کہا کہ اگر وہ بھارت کے بارے میں پہلے ہی جانتے تھے تو وہ پہلی فرصت میں وہ اس عمل میں شامل ہی کیوں ہوئے۔ میں نے انہیں بتادیا کہ ایسا ہی 1994میںجموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے ساتھ کیا گیاتھا جب امریکی، برطانوی اور یورپی یونین کے سفیروں نے ہمیں بندوق چھوڑ کر امن کو موقعہ دینے پر آمادہ کیا اور یقین دلایا کہ اگر ہم ایسا کرینگے تو وہ ہماری پر امن سیاسی جدوجہد کیلئے مکانیت یقینی بنائیں گے ۔انہوں نے ہمیں ضمانت دی کشمیر حل ان کی اولین ترجیح ہوگی تاہم ہوا یہ کہ وہ وہ اپنے وعدوں کے ایفاء میں مکمل طور ناکام ہوگئے‘‘۔
’ اپنی جان پر کھیل کر ناپسندیدہ فیصلہ لیا‘
ملک لکھتے ہیں’’ امریکہ ، برطانیہ اور یورپی سفارتکاروںکے اصرار پر ہی میں نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا ایک ناپسندیدہ فیصلہ لیکر اپنی اور  اپنے ساتھیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی۔یہ ایک ایسا فیصلہ تھاجس سے میرا سیاسی کیرئراور میری اعتباریت دائو پر لگ گئی اوراس سے  میری جدوجہداور قربانیوں پر بھی پانی پھیر سکتا تھاتاہم سبھی مشکلات اوربھارتی فورسز کی جانب سے دوبارہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے کیلئے تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجودمیں اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ جنگ بندی کے بعد میرے 600 سے زائد ساتھی بھارتی فوجیوں نے ہلاک کردئے مگر بین الاقوامی برادری سے کسی نے بھی مداخلت نہیں کی۔ میں اور میرے ساتھیوں نے تاریخی سفر آزادی کے ذریعے ایک پر امن دستخطی مہم اور دیگر سیاسی پروگرام چلائے جسکے نتیجے میں سال 2008میں اُس وقت تاریخی تبدیلی دیکھنے کو ملی جب جموں و کشمیر کے لوگوں نے ایک قوم کی حیثیت سے مسلح جدوجہد کے بجائے پر امن تحریک کا آغاز کیا ۔میں اور میرے لوگ اس بات کی اُمید کررہے تھے کہ امریکہ اور باقی بین الاقوامی برادری اس مثبت تبدیلی کا اعتراف کرتے ہوئے اس مسئلہ کے حل میں مداخلت کرینگے تاہم ایسا کچھ نہ ہوا۔ بھارت نے یہ عوامی تحریک فوجی طاقت کے بل دبا د  اور سال 2008میں 72،2009میں 45اور سال 2010میں 128افراد کو قتل کیا۔ کسی نے بھی نہتے شہریوں کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کی مذمت نہیںکیونکہ اخلاقیات اور انسانی اقدار پر مبنی پالیسیاں ختم ہورہی تھیں اوران پراقتصادی فوائد، بڑے مارکیٹ اور سیکورٹی اور خارجہ پالیسی جیسے معاملات غالب آرہے تھے۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سال 2010کی عوامی تحریک کے بات امریکہ اور یورپی مبصرین ،جو سال 1990سے لیکر 2010تک متواتر طور پر کشمیر آکرکشمیری علیحدگی پسند قیادت سے ملتے تھے،نے اچانک اُن س ملنا چھوڑ دیا اور جب سے بھارتی آلہ کاروں سے ملتے آرہے ہیں۔ یہ بدیہی طور بھارت اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجیک پارٹنرشپ کا نتیجہ ہے اور یہ بین اقوامی برادری کی غیر ذمہ داری کی ایک اور مثال ہے۔  یہ ایک افسوسناک عمل ہے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طرح کا خود غرضانہ رویہ انسانیت کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ہے اور اس میں قوموںکو تباہ کرنے اور خطوں کو بھسم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
یاسین ملک لکھتے ہیں کہ سال 1947سے لیکر ابتک کئی بار اکسانے کے بائوجود بھی کشمیریوں کا تحریک کے حوالے سے کبھی کوئی عالمی ایجنڈا نہیں رہا ہے۔ہم نے ہمیشہ سے ہی جموں و کشمیر کے مسئلے کیلئے پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہ بھارت اور نہ ہی بین الاقوامی برادری نے ہماری پرامن جدوجہد کو تسلیم کیا۔ سال 2008سے ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان بھارتی ظلم کا مقابلہ کررہے ہیں۔انہیں گرفتار کیا جارہا ہے،کالے قوانین کے تحت جیلوں میں رکھا جارہا ہے، اذیتیں دی جارہی ہیں، اندھا کیا جارہا ہے جبکہ بھارتی سیکورٹی فورسز انکے گھر والوں پر بھی ظلم کررہے ہیں جس کے نتیجے میں نوجوان پھر سے بندوق اٹھارہے ہیں۔ہم بھارت اور بین الاقوامی برادری سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل کی بربادی کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ کس نے لوگوں کی سیاسی  مکانیت کو مسدودکیا، کسی نے لوگوں کی پر امن تحریک کو کچلا، کس نے لوگوں کو پشت بہ دیوارکیا؟۔کیا وقت نہیں آیا ہے کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں، آزادی اور انسانیت کی بات کرنے والوں کو کشمیر میں اپنے رول پر ایک مرتبہ غور نہیں کرنا چاہئے۔؟ کیا ہم انسان اور انسانی تہذیب کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر ہاں توہمیںاپنی ضروریات اور معیشی مفادات کیلئے قربان کیوں کیا جارہا ہے؟‘‘۔ یاسین ملک اپنی چھٹی میں لکھتے ہیں’’ اپنی آزادی کی طویل لڑائی میں ، کشمیریوں نے ہمیشہ سے ہی بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی ہے اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہو۔ میں ہر ایک سے پوچھنا چاہتا ہوں’’ اگر لوگوں کی پر امن تحریک آزادی کو نظر انداز کیا جائے اور اسکی رہنمائی کرنے والوں کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیا جائے، تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا، کیا آپ ایک قوم کو نااُمید نہیں کررہے ہو، کیا آپ انکو پشت بہ دیوار نہیں کررہے ہیں اورانہیں لاقانونیت کے حوالے نہیں کررہے ہیں؟۔ کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ کا یہ نظر انداز کرنے کا رجحان پورے خطے کو بھسم کرسکتا ہے ؟۔آپ کیا نہیںسمجھتے کہ کشمیریوں کو تنہا کرنے سے آپ  انکو جوابدہی سے چھوٹ دے رہے ہیں؟، معاف کریںمگر یہ سچ ہے کہ بین الاقوامی برادری خاص کر امریکہ کی جانب سے کشمیریوں کے تیں آنکھیں موندنے سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوگا۔  
 فرنٹ چیئرمین نے تحریر کیا کہ کشمیریوں کو نظر انداز کر کے انکی سیاسی جدوجہد کو عزت نہیں دی گئی اور اب ان پر عالمی دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا گیا جبکہ سوالیہ انداز میں پوچھا کہ اس سے کسی کو کیا حاصل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میرے نقطہ نظر میں اس  سے انارکی پیدا ہوگی اور اس خطے میں شام جیسی صورتحال پیدا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ آخر میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہو’’ تاریخ مفادات اور اقتدار کے تابع نہیں ہے بلکہ نظریات اور خیالات متعین کرتی ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی تحریر کو اختتامی شکل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ طاقت ور نظریہ آزادی،استصواب رائے عامہ اور حق خودارادیت ہیں۔انہوں نے تحریر کیا’’ عظیم طاقت کا عروج و زوال ہوتا ہے،مگر نظریات مستقل رہتے ہیں،جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نسل در نسل زندہ رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے وطن میں آزادی اور خود مختاری کے بیچ بوئے جاچکے ہیں اور یہ ایک دن ضرور پھوٹ جائیں گے، تاہم امریکہ کیلئے شائد اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی کہ وہ تاریخ کے صحیح مقام پر کھڑی ہو۔انہوں نے مفادات اور طاقت کا ساتھ دیا تاہم تاریخ آزادی کی طرف کھڑی ہوگی۔محمد یاسین ملک نے کہا کہ امریکہ نے تاہم  اس ملک کے بانیوں میں سے ایک تھامس جیفرسن کے نظریات کو نادیدہ کردیا،جنہوں نے کہا تھا’’ دنیا بھر میں انسانی آزادی کی آخر ی امید امریکہ کے ساتھ وابستہ ہے،ہمیں ہر منسلک اور ہر دشمن کی قربانیوں سے عشق کرنا چاہئے‘‘۔ محمد یاسین ملک نے مکتوب کے ابتدائی تبصرے میں لکھا’’ ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا میں سب سے عظیم طاقت ور ملک ہے،اور اس کی اہمیت اب بلا مقابلہ ہے،یہ فراموشی کے پریشان کن مرحلے سے گزر رہی ہے، اس تاریخی یاداشت قلیل ہے اور امریکہ کی طرف سے سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دینا اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے‘‘۔ملک نے تحریر کیا’’2006میں دورہ امریکہ کے دوران،میں نے نیو یارک بندرگاہ کے لیبرٹی جزیرے کا دورہ بھی کیا،اور مجھے مجسمہ آزادی( سٹیٹیو آف لیبرٹی) کی شکل آج بھی یاد ہے۔انہوں نے تحریر کیا مجھے میرے میزبان نے کہا کہ مجسمہ آزادی امریکہ کے نظریات کی طرفداری اور نمائندگی کرتا ہے،اور یہ نامیدوں اور کمتروں کیلئے چراغ برق کے مترادف ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج وہ اچھے خیالات مجھے دن کے خواب نظر آتے ہیں،کیونکہ امریکہ نے اپنے خیالات اپنے مفادات اور خود غرضی کے تابع کردیں اور اصولوں کو فراموش کیا۔
 
 

 محمد یاسین ملک پھر گرفتار

سرینگر // لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک کو ایک بار پھر اسوقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ لبریشن فرنٹ کے آفس واقع آبی گزر پر موجود تھے۔ پولیس کی ایک بھاری جمعیت نے فرنٹ آفس کا گھیرائو کیا اور یاسین ملک کو گرفتار کرکے لے گئے۔ بعد ازاں انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر سرینگر سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا ہے۔
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ریاستی درجے کی بحالی کا مناسب وقت آگیا ہے: تنویر صادق
تازہ ترین
کپواڑہ میں آتشزدگی، دو منزلہ مکان خاکستر
تازہ ترین
ضلع میں ورثے کے تمام مقامات کی تاریخی شان کو بحال کیا جائے گا: ضلع مجسٹریٹ سری نگر
تازہ ترین
کرائم برانچ کشمیر کی جانب سے سرینگر اور بڈگام کے مختلف مقامات پر چھاپے
تازہ ترین

Related

تازہ ترینجموںصفحہ اولکشمیر

وزیر اعلیٰ کے ساتھ تعلقات خوشگوار، کاموں کی تقسیم واضح، رابطے جاری ہیں:ایل جی منوج سنہا

July 17, 2025
تازہ ترینصفحہ اول

شدید بارشوں کے باعث امرناتھ یاترا ایک روز کے لیے معطل

July 17, 2025
صفحہ اول

جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کانگریس کا وزیر اعظم کو مکتوب

July 16, 2025
صفحہ اول

ریاستی درجہ مناسب وقت پر وزیر اعظم پر بھروسہ کرنا چاہیے :جتیندر سنگھ

July 16, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?