رب تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں اپنے بندوں کی رہنمائی اور رواست روی کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فر مایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمدر سول ا للہ صادق ا لو عدالا مین ﷺ نے بنی نوع انسا نوں کو اللہ کی وحدا نیت کا پیغام دیا اور رُشدو ہدایت کی تعلیم دی اور بتا یاکہ یہی سیدھا راستہ( صراط المستقیم ) ہے، اسی پر چل کر انسان اللہ کی بار گاہ میںپیا را بندہ ہونے کاشرف حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اولادِآدم سے اس بات کا پکاعہد لیا ہے کہ میرا راستہ سیدھا ہے، فقط اور فقط اسی پر چلنا، شیطان کو نہ پوجنا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ:اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کونہ پوجنا بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور میری بندگی کرنا، یہ سیدھی راہ ہے،۔( القرآن) جب نبی آخر الز ماں ﷺ نے نبوت کا اعلان فر مایااور لو گوں کو اسلام کی دعوت دی : اے لو گو! اللہ ایک ہے اسی کی عبادت کرو اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ محمد رسو ل اللہؐ صادق الو عدالامین کا اعلان سنتے ہی حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ کو تصدیق کی اور کلمہ ٔ شہادت پڑھا: میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسولؐ ہیں ۔نبی آخر الز ماں ﷺ پر ایمان لانے والے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے انسان ہیں ۔ اعلانِ نبوت سے پہلے ہی آقا ئے نامدار ﷺ صادق الو عدالا مین کے لقب سے مشہور تھے، آپؐ کی سچائی پر اعتبار کر نے، معراج البنی کی تصدیق کر نے اور ایمان لانے پر حضرت ابوبکر کو ’’صدیق اکبر ‘‘ کا لقب آں جناب ؐ سے ملا۔ تمام صحا بہ کرام ؓ کی فضیلت میں قر آن کی آیات شا ہد ناطق ہیں اوراحا دیث طیبہ میں کثرت سے عظمت صحا بہؓ کا ذکر مو جود ہے۔ صحا بہؐ کی بلندی ٔ درجات کو قر آن نے جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ حضر ت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صادق ﷺ نے فر مایا: میرے اصحابؓ کو برا بھلامت کہو۔ اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برا بر بھی سونااللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالو گے تو ان( صحابہ ؓ) کے ایک مُد کے غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ آدھ مد کے برابر ( بخاری، حدیث3673) سبحا ن اللہ سبحا ن اللہ !یہ ہے صحابۂ کرامؓ کی عظمت و فضیلت کی ایک شہادت۔ اصحاب ِ رسول ؐ کی درخشندہ کہکشاں میںحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے بڑا درجات والے ہیں۔ سورہ تو بہ میں آ پؓ کو’’ ثانی اِثنین ‘‘ کااعزازبخشا گیا ہے ۔ یارغار ؓ کی عظمتوں وفضیلتوں کی یہ شہادت بھی کتنی قابل رشک ہے کہ حضور ﷺ نے آپ ؓ کو اپنے مصلیٰ پر امام بنایا اورآپ ؐکی حیاتِ مبارکہ میں آپؓ نے کئی بار امامت فر مائی۔ آپؓ کی فضیلتوں میں یہ بھی واردہوا ہے کہ آپؓ کی چار پشتیں صحابی ہیں:1؍والدین بھی صحا بی ہیں2؍آپؓ خود بھی صحا بی ہیں3؍آپؓ کی اولاد بھی صحا بی ہیں4؍آپ ؓکی اولاد کی اولاد بھی صحا بی ہیں۔یہ اعزاز آپؓ کے خاص الخاص صحابہ ہونے پر دلالت کر تا ہے ۔ آپؓ کا لقب ’’عتیق‘‘ بھی آیا ہے۔ حضرت عبدا لعزیز بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاک زمانے میں جب صحا بہؓ کے درمیان انتخاب کے لیے کہاجاتا تو سب میں افضل ، فائق اور بہتر ین ابو بکر رضی اللہ عنہ قرار پاتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔(صحیح بخاری، حدیث3655)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کر نے کے بعد تما م اسلامی جہادوں میں شامل رہے،حق و با طل کی پہلی جنگ ، جنگ ِ بدر، اُحد،خندق،تبوک، بنی نضیر، بنی مصطلق،حنین، خیبر سمیت تمام غزوات ( یعنی وہ جہاد جس میں رسولِ کریم ﷺ بہ نفس نفیس شریک ہوئے) میں شرکت کے علاوہ فتحِ مکہ کے موقع پر آپؓ کوسر کار دو عالم کا ہمرا ہ ہونے کا شرف حاصل رہا۔ غزوہ تبوک میں آپ ؓنے اطاعت ِرسول کی جو مثال قائم کی، ایثاروقربانی اورسخا وت کا کو اعلیٰ نمونہ فی ا للہ پیش کیا ،اس کی مثال تاریخ اسلام میں ملنی مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔اس غزوہ میں سر کار دوجہاں ﷺ کی اپیل پر تمام صاحبان ِ استطاعت صحا بہؓ نے دل کھول کر لشکر اسلامی کی مالی امداد پیش کی مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان سب پر سبقت حاصل کرتے ہوئے اپنا سارا مال ومتاع لے آئے۔جب رسو ل اللہ ﷺ نے پو چھا: اے بو بکر! گھر والوں کے لئے بھی کچھ چھو ڑا ہے؟‘‘ آپ نے عرض کی:’’گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں‘‘ ؎
پر وا نے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق ؓکے لیے خدا کا رسول ؐبس
دورِرسالتؐ کے آخری ایام میں رسول اللہ ﷺ نے جسمانی عارضہ کی حالت میں آپ ؓکو نمازوں کی امامت کا حکم دیا۔ آپ نے مسجدنبوی میں سر کار دوعالم ﷺ کے حکم پرمصلیٰ رسول17؍ نمازوں کی امامت فر مائی۔ نبی کریم ﷺ کا یہ اقدام آپؓ کی خلافت کی طرف ایک واضح اشارہ تھا۔ ایک دفعہ نماز کے وقت میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ سے با ہر تھے،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ ؓکو نہ پاکر حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت کے لئے استدعا کی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کر تا دیکھ کر آپ ﷺ نے فر مایا: اللہ اور اس کا رسولؐ یہ پسند کرتا ہے کہ ابو بکرؓ امامت کرے۔ یہ بات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر آپ ﷺ کے اعتماد کا اظہارتھا کہ آپؓ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں ۔آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فر مانے کے بعد صحابۂ کرام کے مشورے سے آپ کو جا نشین رسول(خلیفہ) مقر رکیا گیا۔ آپؓ کی تقرری اُمت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔بارِ خلافت سنبھا لنے کے بعد آپؓ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا:میں آپ لو گوں پر خلیفہ بنا یا گیا ہوں، حا لا نکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب وامارت اپنی رغبت اور خوا ہش سے نہیں لیا،نہ میں یہ چا ہتا تھا کہ دوسرے کے بجا ئے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لیے دعا کی اور نہ ہی کبھی میرے دل میںاس منصب کے لیے حرص و لالچ پیدا ہوئی‘‘۔ آپ ؓ نے سچائی کے یہ موتی اپنے خطبہ میں بکھیرے :’’ سچا ئی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے‘‘۔ آج آپؓ کی اس نصیحت پر دنیا بھر میں پھیلے تمام مسلما نوں کو عمل پیرا ہونا چاہیے کیونکہ دنیا وآخرت کی کامیابی اسی میںزریں اصول میں مخفی ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فر ماتا ہے،
تر جمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جائو۔( سورہ توبہ 9،آیت 119) ۔اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم فر مائی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سچے لو گوں( صداقین )کے ساتھ رکھنی چاہیے، جو زبان کے بھی سچے ہوں اور عمل میں بھی سچے پکے ہوں ۔سچائی نعمت ِعظمیٰ ہے اور سچوں پر اللہ کی رحمتیں برستی اور انعامات کی بارشیں ہو تی ہیں۔ اللہ رب العزت اپنے متقی پر ہیز گا ر بندوں( مومنین ) کے اوصاف بیان فر ماتا ہے، تر جمہ:(یہ) لوگ صبر کر نے والے ہیں اور قول وعمل میں سچا ئی وا لے ہیں اورآداب و اطاعت والے ہیں ( اللہ کے حضور )جھکنے وا لے ہیں اور اللہ کی را ہ میں خرچ کر نے وا لے ہیں اور رات کے پچھلے پہر(اٹھ کر) اللہ سے معا فی ما نگنے وا لے ہیں۔( سورہ آل عمران3 ،آیت17)
ہمیں اگر دنیا میں کامیابی اور آخر میں سر خ روئی چاہیے تو صدیق اکبرؓ کی سیرت مبارکہ کی تقلید میں سچائی کاراستہ اختیار کرنا ہوگا، سچوں کا ساتھ دینا چاہیے ، راست بازوں سے دوستی کر نی چاہیے ، جھوٹ اور خیا نت سے دور رہنا چاہیے ، امانت داری کو اپنی بھلائی اور نجات کی راہ سمجھنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلما نوں کو اسی صراط مستقیم پر چلنے کی تو فیق دے اور سچوں کی صحبت نصیب فر مائے۔ آ مین ثم آمین۔
( Mob.:09386379632)
e-mail: [email protected]