بشیر احمد کے گھر میں چوری ہوگئی تھی۔ یہ چوری اُس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنے بال بچوں کےساتھ دو دن کے لئے گھر سے باہر ایک شادی کی تقریب میں گیا تھا۔ چور توکوئی گھریلو سامان نہیں لے گئے تھے البتہ اُس کے کمرے میں رکھے ہوئے ایک آہنی وارڈ روب کا دروازہ توڑ کر اُس میں رکھے ہوئے اُس کی بیٹی کی شادی کے زیورات اور پچیس ہزار وپے کی نقدی لے گئے تھے ،اخروٹ کی لکڑی سے بنے ہوئے ایک ڈبے میں رکھے ہوئے تھے۔ اُس کی بیٹی کی منگنی ابھی حال ہی میں ہوئی تھی اور شادی اگلے سال ہونے والی تھی۔ کچھ زیورات اُس کی بیٹی کو اپنی سسرال کی طرف سے ملے تھے اور کچھ بشیر احمد نے بنوائے تھے۔ چونکہ درجہ چہارم کا ایک ملازم تھا اس لئے اُس نے بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر زیور بنوایا تھا اور رقم جمع کی تھی۔ اس واردات سے سارے گھر میں ماتم چھا گیا۔
اُس نے نزدیکی پولیس تھانے میں رپورٹ درج کی۔ اُس نے سنا تھا کہ پولیس تھا نے میں ایک نیا پولیس انسپکٹر آیا ہوا ہے، جو ہر کسی کی مدد کرتا ہے۔ پولیس انسپکٹر نے اُس سے چوری ہوئے زیورات کی فہرست مانگی، جو بشیر احمد نے اُس کو لکھ کر دی اور روپیوں کی تعداد بھی لکھ دی۔ پولیس انسپکٹر نے اُس کو اپنا موبائل فون نمبر بھی دیا اور بے فکر رہنے کو کہا اور چور کو بہت جلد پکڑنے کی یقین دہانی کرکےا ُس کو رخصت کر دیا ۔
قریب ایک ہفتے کے بعد بشیر احمد کو پولیس انسپکٹر کا فون آیا کہ ایک چور کر پکڑا گیا ہے، جس سے کچھ زیورات برآمد ہوئے ہیں۔ وہ یہاں آکر ان کی پہچان کرے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اُسی کے ہوں۔ یہ سن کر بشیر احمد فوراً اپنے گھر سے پولیس تھا نہ جانے کے لئے نکل پڑا۔ وہ خدا سے دعا مانگ رہا تھا کہ یہ وہی زیورات ہوں۔ راستے میں وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ زیورات اُسی کے ہوں تو اس طرح خالی ہاتھ پولیس تھانے جانا ٹھیک نہ ہوگا۔ کچھ نہ کچھ انسپکٹر صاحب کےلئے لے جانا ٹھیک ہوا۔ اس لئے وہ ایک ریستوران میںگھس گیااور وہاںسے دو تندوری مرغ پیک کروائے۔ پھر تھانے کی طرف چل دیا۔ تھانے میں انسپکٹر موجود تھا جو کہ اپنی کرسی پہ بیٹھا ہوا تھا۔ علیک سلیک کے بعداُس نے بشیر احمد کو اپنے سامنے والی کرسی پہ بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا۔ پھراُس نے اپنی میز پہ رکھی ہوئی گھنٹی کا بٹن دبایا۔ کچھ دیر کے بعد ایک حوالدار حاضر ہوا۔انسپکٹر نے اس کو وہ تھیلا لانے کے لئے کہا جس میں زیورات کا ڈبہ تھا اور اپنے ساتھ چور کو بھی لانےکو کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد حوالدار ایک ہاتھ میں تھیلا لئے اور دوسرے ہاتھ سے ہتھکڑی کی زنجیر پکڑے ہوئے چور کے ساتھ اندر داخل ہو ا۔چور آہستہ آہستہ لنگڑاتے ہوئے چل رہا تھا۔ اُس کے کپڑے تار تار تھے اور وہ زخموں سے چور تھا۔ اُس کے سر پہ اور چہرے پہ جگہ جگہ گہری خراشیں تھیں جن پہ خون جم گیا تھا۔ حوالدار نے تھیلا پولیس انسپکٹر کے سامنے میز پررکھ دیا اور چور کو پاس ہی ایک اسٹول پر بیٹھنے کے لئے کہا۔ اس کے بعد وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
بشیر احمد نے جب چور کی حالت دیکھی تو وہ لرز اٹھا۔ا ُس کے سارے جسم میں ایک جھر جھری پیدا ہوگئی۔ اُس کو چور پر بہت ترس آیا کیونکہ اُس کی حالت خراب تھی۔
انسپکٹر نے جو نہی تھیلے سے ڈبہ باہر نکال کر میز پہ رکھ دیا تو ڈبے کو دیکھ کر بشیر احمد خوشی سےاُچھل پڑا کیونکہ وہ ڈبہ اُسی کا تھا۔ جب اُس کاڈھکن اُٹھایا تو اندر رکھے ہوئے تمام زیورات کو موجود پایا لیکن روپے اُس میں نہیں تھے۔ اُس کے بعد انسپکٹر اُس سے مخاطب ہوا ’’ میں نے کہا تھانا کہ آپ بے فکر رہئے۔ آپ کے زیوارت مل جائینگے۔‘‘ پھر وہ چور کی طرف اشارہ کر رکے بولا، یہ حرام خور پہلے نہیں مانتا تھا کہ اُس نے آپ کے گھر میں چور ی کی تھی۔ جب ہم نے اس کی مرمت کی تو اس نے مان لیا اورزیورات دے دیئے۔ رقم ابھی بھی نہیں ملی ہے۔ وہ بھی اس سے وصول کرکے ہی دم لوں گا۔ اگر سیدھی طرح نہیں دیگا تو اس کی ہڈی پسلی توڑ کر اس سے بھی بدتر حالت بنا دوںگا‘‘۔ یہ سن کر بشیر احمد نے کانپتے ہوئے انسپکٹر سے کہا’’ اب اس کو معاف کیجئے اور اس پر رحم کیجئے۔ مجھے یہ زیورات ملے ہیں مجھے اب کچھ نہیں چاہئے۔ میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ نے مجھ غریب پہ ترس کھا کر مجھے برباد ہونے سے بچا لیا ہے، ورنہ میری بیٹی کی شادی نہ ہوسکتی تھی۔ میں اپنی بیٹی کے سسرال والوں کو کونسا منہ دکھا تا۔اب اگر روپئے نہ بھی ملیں تو مجھے کوئی غم نہیں‘‘ اپنے ساتھ لائے ہوئے تھیلے کو انسپکٹر کو سامنے رکھتے ہوئے وہ پھر بولا’’ا س کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو میرا فرض تھا اگر آپ پر تحفہ لاکر خوشی محسوس کر رہے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔ یہ سن کر بشیر احمد زیورات کا ڈبہ لے کر وہاں سے رخصت ہوگیا۔
اس کے باہر نکلتے ہی انسپکٹر چور کی طرف مڑا اور غصے میں اُس سے بولا ’’ دیکھا حرام خور۔ کتنا نقصان کروایا۔ کیا تو اندھا ہو گیا تھاجواس کے گھر میں گھسا تھا، کیا تجھے کوئی اور مکان نہیں ملا تھا۔ اگر اس کو کہتا کہ پچیس ہزار ورپئے بھی مل گئے ہیں تو وہ بھی اُس کوواپس کرنا پڑتے اور ہمیں اُن سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے۔ یہ سب تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اب اگر آئندہ کبھی ایسا ہوا تو سیدھے سنٹرل جیل بھیج دو ںگا، جہاں تو کم سے کم پانچ سال تک سڑ تا رہے گا‘‘۔ یہ سن کر چور نےجواب دیتے ہوئے کہا غلطی ہوگئی ہے حضور ۔ بات دراصل یہ ہے کہ اُس دن بہت زیادہ اندھیرا تھا۔ سڑکوں کی ساری روشنیاں گل تھیں۔ راستے میں چلتے چلتے بہت سے کتے میری طرف دوڑ پڑے تھے۔ میں بھاگتا رہا۔ بھاگتے بھاگتے اپنی جان بچا کر ایک دیوار پھاند کر میں اس مکان کے صحن میں کود گیا تھا۔ اُس کے بعد بھی کتے میرا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ دیوار کے باہر بہت دیر تک بھونکتے رہے تھے۔ پھر کوئی وقت ضائع کئے بغیر میں اُس مکان کے صدر دروازے کے قریب گیا تو دیکھا کہ دروازے میںایک چھوٹا سا قفل لگا ہوا تھا۔ تھوڑی سے زور آزمائی کے ساتھ وہ کھل گیا اُس کے بعد مکان کے اندر گھس گیا۔ ساری جگہیں چھاننے کے بعد وہاں سے جو کچھ ملا وہ سب لاکر آپ کے سامنے رکھ دیا‘‘۔
’’ ٹھیک ہے ٹھیک ہے‘‘ پولیس انسپکٹر نے چور سے کہا ’’ زیادہ چالاک بننے کی ضرورت نہیں۔ اب اُٹھو اور حوالات میں واپس جائو اور اب سیدھی طرح چلو،اب لنگڑا کے چلنے کی اداکاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اپنے چہرے سے اور اس کے علاوہ جہاں جہاں بھی رنگ وروغن لگالیا ہے اس کو بھی تارپن تیل سے صاف کرو۔ یہ چیتھڑے جوپہنے ہوئے ہیں ان کو بھی نکال کر اپنے کپڑے پہنو۔ ان کو پہننے کی بھی اب کوئی ضرورت نہیں‘‘۔’’ جی حضور‘‘ یہ کہہ کر چوراسٹول سے کھڑا ہوگیا اور پھرایک تندرست آدمی کی طرح لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا حوالات کی طرف چلدیا۔
چور کے باہر نکلتے ہی انسپکٹر نے اپنی جیب سے گولڈ فلیک سگریٹ کی ڈبیہ نکال کر ایک سگریٹ سلگایا۔ حالانکہ سامنے کی دیوار پہ ایک چھوٹا سا بورڈ لٹک رہاتھا جس پہ موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا’’ یہاں سگریٹ پینا منع ہے۔ وہ اسکے لمبے لمبے کش لے کر دھوئیں کے مرغولے دائیروں کی شکل میں چھوڑنے لگا۔ اُس کی نظر اُس تھیلے پہ پڑی جو بشیر احمد اپنے ساتھ لایا تھا۔ اُس نے سگریٹ کو اپنے دونوں ہونٹوں کے درمیان رکھا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے تھیلے کو کھولنے لگا۔ پاس ہی ایک چنار کی اونچی ٹہنی پہ بیٹھا ایک اُلو اپنے دیدے نچا کر بولا’’ بہت یارانہ لگتا ہے‘‘۔
………………………………….
رابطہـ اسکول اینکلو راولپورہسرینگر
فون نمبر9697793059