’’سنو نا اس چھوٹے سے دروازے کے پیچھے کیا ہے۔‘‘ میں نے لائبریری ہیلپر پوچھا۔
" صاحب جہاں تک میری جان کا ری ہے ہمارے بوس نے اس بارے میں ہم سے کبھی بھی کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔۔۔ مگر آپ کیوں اس میں اتنی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔۔؟ اتنی بڑی لائبریری میں آپ کو صرف یہی ایک چیز مشاہدے کے لئے ملی۔۔۔؟"، اس نے بڑے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
"۔۔۔تم سے جتنا بولا گیا ہے تم اتنا ہی کرو۔۔۔۔میرے کام میں ٹانگ اڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ تم جا سکتے ہو۔۔"، میرے اس کہنے پر وہ وہاں سے آگ بگولا ہو کر چلا گیا۔
میں نے اس چھوٹے سے دروازے پر لگی کنڈی کھولی اور آہستہ سے دروازہ کھولنے لگا۔۔۔ دھیرے دھیرے میں نے دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔کمرے کے اندر مکڑیوں نے اتنے گھٹنے جالے بُنے تھے کہ اس کمرے کی چھوٹی سی کھڑکی سے بڑی مشکل سے روشنی کی چند کرنیں اندر تک پہنچ پاتیں۔ خیر میں نے اپنا سر جھکایا اور اندر داخل ہوگیا ۔اس کمرے کے حال سے لگ رہا تھا کہ کئی دہائیوں یا پھر یوں سمجھ لیجیے کہ کئی صدیوں تک وہ کمرہ بند رہا ہوگا۔ کمرے میں چاروں طرف پرانی کتابوں کی سوندھی سوندھی مہک آرہی تھی۔۔۔ یوں تو میرا زیادہ خوشبو سے دم گھٹتا ہے لیکن اس وقت مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے جنت سے آئی خوشبو میرے پھیپھڑوں کو ترو تازہ کر رہی ہو۔ جی چاہتا تھا کہ بس وہیں رہوں۔ بہرحال میں کتابوں کے ایک شیلف کی اور گیا۔۔۔۔کوئی ایک آدھ انچ کی دھول ان پر جمی تھی ۔۔۔۔میں نے ان میں سے ایک کتاب اٹھائی اور اس پر جمی دھول کو صاف کیا۔۔۔۔۔ کتاب کا نام تھا" یادیں "۔۔۔۔میں نے جونہی کتاب کھولی اس کے پہلے صفحے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا جو نیچے گر گیا۔۔۔ میں، کتاب کو شیلف پر رکھ کر، اس پرچی کو اُٹھاکر پڑھنے لگا۔۔۔۔۔ اس پر تحریر شدہ الفاظ کچھ یوں تھے:
" ۔۔۔۔۔افسوس اس وقت میرا چاہنے والا کوئی نہ ہوگا ۔۔۔۔مجھے کسی کال کو ٹھری کے گھپ اندھیرے میں کسی ویران شیلف پر رکھا جائے گا۔۔۔۔ جہاں تم ہوں گے اور نہ ہی تمہارا ساتھ ۔۔۔۔صرف تمہاری یادیں۔۔۔۔ بس ان حسین لمحوں کی یادیں۔۔"
میں اس کتاب کو گھر لے آیا۔۔۔۔ میری دادی کو بھی میری طرح کتابوں کا بہت شوق تھا ۔میں اس کتاب کو دادی کے پاس لے گیا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ دادی اس پرانی سی خوبصورت کتاب کو ضرور پسند کرے گی۔۔۔ میں نے جب وہ کتاب اسے تھما دی تو اس نے یوں ہی اس کا ایک صفحہ کھولا ۔۔۔۔۔میں نے جب اس صفحے کی اور دیکھا تو میری آنکھیں دھنگ رہ گئیں۔اس صفحے میں دادی دادا جی کی وہی تصویر تھی جو دادی کے کمرے کی دیوار پر تھی۔۔۔ دادی کچھ دیر تک اُسے گھورتی رہی اور بالآخر اسے اپنے سینے سے لگا کر زاروقطار رونے لگی۔۔۔" میری "یادیں"۔۔۔۔ تم اتنے عرصے تک کہاں تھی۔۔۔؟۔۔ تجھے پتا بھی ہے کہ تیرا چاہنے والا اب نہیں رہا۔۔۔۔؟۔۔۔"
میں نے دادی کو کچھ دیر کے لئے اکیلا چھوڑ دیا کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا کہ دادی کا اس کتاب سے کوئی پرانا رشتہ ہے اور جب میں لوٹ کر آیاتو میں نے دیکھا کہ دادی نے کتاب پوری طرح صاف کرکے ڈسیک پر سجا کے رکھی تھی، جسے ایک نظر دیکھنے سے ہی دل کِھل اُٹھتا تھا۔۔ میں نے جب اس کتاب کی اور دیکھا دیکھا تو مجھے ایسا لگ رہا تھا تھا کہ وہ کتاب میرا شکریہ ادا کر رہی ہو ۔۔۔۔ اس وقت میرے ہونٹوں پر ایک مسکان سی آگئی اور میری آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔۔
���
لوہند شوپیان، طالب علم11ویں جماعت
بائزہائرسکینڈری سکول شوپیان
موبائل نمبر؛9697402129