ڈاکٹر قاضی عبدالرشید ندوی
ہمارے عزیز القدر مولانا مقصود احمد ضیائی صاحب ایک صاف ستھرا اور شاندار علمی ذوق رکھنے والے عالم اور اسکالر ہیں، جتنی تندہی چستی اور تیزی سے وہ پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں اتنی ہی تیزی سے وہ لکھتے بھی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تیزی اور چستی کے ساتھ ساتھ انکی تحریریں بڑی شستہ شگفتہ اور قیمتی معلومات لئے ہوتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں تو پڑھ کر لکھتے ہیں اور معلومات کی قیمت اور اہمیت کے ساتھ اپنے پختہ اور شستہ ادبی اسلوب سے قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔وہ متنبی کے اس شعر کی بڑی دقت سے پیروی کرتے ہیں جوکہ انتہائی حکمت سے بھرپور شعر اور قول ہے متنبی کہتا ہے۔
اعز مكان في الدنى سرج سابح
وخير جليس في الزمان كتاب
وہ کتابوں کو اپنی زندگی کا سب سے بہترین ساتھی تصور کرتے ہیں اور انھیں اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتے ہیں ، اپنے چوبیسوں گھنٹے کے معمولات کے ایک بنیادی حصے کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں۔ علم میں گہرائی وگیرائی کی مسلسل کوشش کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت وعظمت کا بلند ادراک رکھتے ہیں، انسانی زندگی میں پڑھنے اور مطالعہ کے عمل کو جاری رکھنے کو غذا سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں کہ قوموں کی زندگیوں، انکی بقا اور ترقی کا راز ہی علم، تحقیق اور ریسرچ کے نہاں خانوں میں پوشیدہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک اسکالر اور فاضل عالم کو دوسروں سے امتیاز بخشتی ہے ۔ہمارے فاضل برادر عزیز القدر مولانا مقصود احمد ضیائی اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور وہ اپنی عمومی وخصوصی زندگی میں پڑھنے لکھنے اور سماجی اصلاح کے موضوعات پہ کام کرنے اور زبان وقلم کے ذریعے سے سماج سدھار کی فکر لئے رہتے ہیں۔
آج کا ہمارا یہ دور جسے Information explosion انفجار المعلومات کا دورکہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ انسانی تاریخ میں کبھی بھی دنیا نے ترقی کی یہ رفتار نہیں دیکھی، اسی لئے ہمارا یہ زمانہ ’’ عصر المعلومات‘‘ Information age اور ہمارے معاشرے ’’ مجتمعات المعلومات‘‘ Information societies کہلاتے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ اور وسائل اتصال نے اس پوری دنیا کو ایک کمرے میں تبدیل کردیا ہے جہاں آپ اپنے کمرے اور سسٹم یعنی کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن، ٹیلفون وغیرہ کے ذریعے دنیا کی ہر خبر اور دنیا کی ساری صورتحال پہ نظر رکھتے ہیں بلکہ آج اسوقت صورتحال یہ ہے کہ آپ کو اس سلسلے میں کسی تلاش کی بھی ضرورت نہیں بلکہ آپ کے سسٹمس خود ہر لمحہ آپ کو متنبہ کررہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہماری انسانی اور پھر اسلامی تاریخ میں ایسےلا تعداد وبے شماربڑے اہل علم علماء اسکالرس اور محققین مفکرین، ودانشورگزرے ہیں اور موجود ہیں، جنہوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعے سے دنیا کا رخ پھیر دیا اور اسکے فوائد ونتائج ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ہمارے مقصود صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جو سرسری مطالعے پہ یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ ہر کتاب کو دقت سے پڑھنا چاہتے ہیں اور موضوع کو ہضم کرنا چاہتے اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو انھیں عام لوگوں سے امتیاز بخشتی ہیں ۔وہ ماشاءاللہ مستقل طور پر تعلیم کے میدان سے جڑے ہوئے ہیں اور طویل عرصے سے بحیثیت مدرس اپنی قابل قدرخدمات انجام دے رہے ہیں،قوم وملت کے نونہالوں کو روشنیاں بانٹتے ہیں اور مطالعہ و تحریر کے نئے نئے گلدستے پیش کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایسے خوشبو دار اور خوش منظر گلدستے پیش کرتے ہیں جنکی خوشبو دورتک جاتی ہے اور دیرپا اثرات رکھتی ہے۔
انہوں نے بڑی محنت سے معروف صاحب قلم و صاحب تصانیف کثیرہ حضرت مولانا ابن الحسن عباسیؒ کی ادارت میں نکلنے والے کثیرالاشاعت ’’ ماہنامہ النخیل‘‘ کے تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل خصوصی نمبر بعنوان ’’ یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ ‘‘ پورا پڑھا اور پھر عوام الناس کے لئے بڑی دقت سے اس کا جامع خلاصہ پیش کرنے کی سعی کی ۔یقینا ًآج کے اس افرا تفری کے دور میں جہاں ہر آدمی اپنے اپنے متعدد ومتنوع مسائل ومشکلات اور زندگی کی الجھنوں اور حیاتیاتی ضروریات و مطالبات کے دباؤ میں یہ آٹھ سو صفحات پڑھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ سب لوگوں کا پڑھنے کا مزاج ہوتا ہے، چہ جائیکہ ہماری مسلم قوم جو تعلیم اور پڑھائی لکھائی کے میدان میں دوسری ساری قوموں سے پچھڑی ہوئی ہے اور اسی لئے ہم سارے سیاسی سماجی ثقافتی تہذیبی علمی اورترقیاتی میدانوں میں پسماندہ ہیں ،سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بہت سال قبل بڑی تفصیل سے ہر میدان میں ہماری پسماندگی کا ذکر کیا تھا اور ہماری اس ناگفتہ بہ حالت کا رونا رویا تھا، اب تو حالات مزید ناگفتہ بہ ہیں اور ہم نشانے پر ہیں ۔لیکن جو لوگ اس دلچسپ موضوع اور شاندار علمی کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس جامع خلاصے سے مستفید ہوسکتے ہیں اور اس اہم موضوع سے متعلق اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں۔
مقصود صاحب ایک اچھے قلم کار ہیں اور صاحب اسلوب کاتب اور لکھنے والے ہیں، وہ ایک فاضل حافظ وعالم ہیں اس لئے انکی تحریریں علم وتحقیق کی موشگافیوں کے ساتھ اصلاحی موضوعات پر ہوتی ہیں ،وہ اپنی تحریروں میں علمی، دینی اور سماجی مسائل کو چھیڑتے ہیں، اس طرح کے متعدد مسائل و موضوعات پر انھوں نے بہت کچھ لکھا ہےاور لکھتے رہتے ہیں ۔مجھے خوشی ہے کہ وہ اس خاکسار کو یاد رکھتے ہیں اور اپنی مفید تحریروں سے استفادے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں اور مجھ جیسے کم علم ہیچمداں کو مہمیز کرتے ہیں ۔
’’ مشک ورق ‘‘کے عنوان سے انکی یہ کتاب خود بولتی ہےکہ وہ اس میں قاری کو کیا بتانا چاہ رہے ہیں۔ ہم اگر صرف عنوان پر ہی غور کریں تو علم کے دروازے ہم پر کھلنا شروع ہوجاتے ہیں کہ قدیم زمانے سے آج تک ورق ہی علم کی ساری کنجیوں کا خزانہ رہا ہے اور آج بھی ہزار برقیاتی وسائل کی انتہائی زیادہ بلکہ خطرناک حد تک ترقی کے باوجود کوئی بھی عالم، بحث وتحقیق کے راستوں کا کوئی بھی مسافر ورق کی خوشبو سے بے نیاز نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی ایسا تصور کرتا ہے کہ وہ علم کی گہرائیوں وگیرائیوں کے لئے ورق سے بے نیاز ہوسکتا ہے تو وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے اور یقیناً وہ مخلص استاد سے محروم ہے۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ آج کے کچھ نوجوان یا ہماری نئی نسل کے لوگ ان برقیاتی مشینوں کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر بعض اوقات اتنی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو علامہ سمجھنے لگتے ہیں اور یہی انکی جہالت ، کم علمی بلکہ لاعلمی کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے ۔گلزار نے اس موضوع پر ایک اچھی نظم لکھی ہے جس میں اس نے ہماری نئی نسل کی کتاب سے غفلت اور دوری کا رونا رویا ہے ۔
مقصود صاحب ایک عالم فاضل حافظ قاری ہونے کے ساتھ دینی التزام رکھنے والے خوف خدا اور تقویٰ الہٰی کی بلند صفات سے متصف شخصیت ہیں ،اسلامی اقدار کے پابند، اور اخلاقیات کی بلند قدروں کے پاسدار ہیں ان کے پاس بیٹھ کر انجمن کا احساس ہوتا ہے۔’’قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید ‘‘کے مصداق انھوں نے اس خاکسار کو بھی اپنے ماضی کی بنیادوں سے جوڑنے میں اور اپنے کلچر کی طرف واپس لوٹانے میں بڑا مثبت کردار ادا کیا، ورنہ شاید دوری بنتی جارہی تھی ،اس کا اجر بھی اِن شاءاللہ انکے نامہ اعمال میں ہے ۔وہ ہماری ریاست جموں وکشمیر کی مشہور ومعروف اکیاون سالہ قدیم اسلامی درسگاہ بلکہ حالیہ پس منظر میں یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ گروپ آف ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنس جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کے ایک قابل قدر مدرس ہیں، جو ہماری نسلوں کی امانت داری کے ساتھ تعلیم وتربیت کی عظیم ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔اس خاکسارنے بھی بذات خود ہمارے عزیز القدر مولانا مقصود احمد ضیائی صاحب کے اس خلاصے کو پڑھا اور اس سے استفادہ کیا ہے، اسی لئے یہ چند متواضع اور خاکسارانہ سطریں لکھنے کے قابل ہوا ۔
مقصود صاحب نے مختلف، متعدد اور متنوع ومفید اصلاحی، دینی اور سماجی موضوعات پر کئی کتابیں لکھی ہیں جو قابل مطالعہ و قابل استفادہ ہیں۔میں ان کے لئے بارگاہ الہٰی میں دعاگو ہوں کہ انھیں صحت و سلامتی اور علم وعمل کی ساری قوتوں سے مالامال فرمائےاور ان کے علمی، ادبی ، سماجی اور تحقیقی عطا کا سلسلہ جاری رہے اور ان کی دینی ودعوتی تحریروں سے ہم مستفید ہوتے رہیں۔ شاعر کی روح سے معذرت کے ساتھ:
تحریر بہت خوب عبارت بہت اچھی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
( مضمون نگار ،پونچھ سے تعلق رکھتے ہیں اور حال مقیم دوحہ قطر ہیں)