مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
ٹرام ایک سواری گاڑی تھی، جو سڑک پر بچھائے گیے پٹری پر چلا کرتی تھی،ا س میں عموماً ًدو ڈبے ہوتے تھے، آگے والا فرسٹ کلاس کہلا تا تھا اور اس کا کرایہ دس پیسے،سکنڈ کلاس سے زیادہ ہوا کرتا تھا،اس کی رفتار بہت تیز نہیں ہواکرتی تھی، لیکن لوگ کم کرایہ میں دور دراز علاقوں تک پہونچ جایا کرتے تھے، بہت سے سیاح بھی گھوڑے تانگے وغیرہ کی طرح اس کا لطف اٹھایا کرتے تھے، یہ عوام کی مقبول سواری تھی۔ ٹرام کی شروعات ہندوستان میں 24 فروری1873ء کو ہوئی تھی، یہ اس وقت بجلی کے بجائے گھوڑوں کے ذریعہ کھینچے جاتے تھے اور یہ سیالدہ سے آرمینن گھاٹ جس کی دوری صرف 3.8کلومیٹر تھی، چلا کرتا تھا، 1874ءمیں گھوڑ ے سے چلنے والی ٹرام سرورس ممبئی میں بھی شروع کی گئی، 1880میں لارڈ رپن (جس کے نام پر کولکاتہ میں رپن اسٹریٹ ہے)نے دوبارہ اسٹیم انجن کے ذریعہ اسے شروع کیا،ا س کی وجہ سے رفتار اس کی قدرے تیز ہوئی، البتہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہونے لگا، اس سے بچنے کے لیے بجلی کے ذریعہ اسے چلا یا جانے لگا، اس کا آغاز 1895میں چننئی (مدراس) سے ہوا، آہستہ آہستہ کان پور، دہلی، ممبئی، ناسک اور پٹنہ میں بھی ٹرام چلنے لگا، سواری کم ملنے کی وجہ سے علی الترتیب پٹنہ میں 1903ء، ناسک میں 1933ء، مدراس، کانپور میں 1953ء، دہلی میں 1963 اور ممبئی میں 1964ءمیں ٹرام سروس بند کر دی گئی، لیکن کولکاتہ میں محدود پیمانے پرحالیہ دنوں تک یہ سروس جاری تھی، بلکہ یہ کولکاتہ کی شناخت تھی۔
ٹرام سروس نے عوامی سواری کے طور پر گذشتہ سال ہی ایک سو پچاس سال پورے ہونے کا جشن منایا تھا۔ ایک زمانہ میں کولکاتہ کے چار سو حلقوں میں چار سو ٹرام چلا کرتے تھے، دس سال پہلے تک پینتیس (35)روٹوں پر تقریباً پونے دو سو ٹرام کی آمدو رفت جاری تھی، ماضی قریب تک دو روٹوں پر پندرہ (15) ٹرام کے ذریعہ سفر ہوا کرتا تھا، ظاہر ہے بقیہ ٹرام ڈپو میں سڑ رہے تھے، جن کی تعداد کم وبیش دو سو پچاس(250) تھی، 2011ء میں ترنمول سرکار آئی اس وقت کولکاتہ میں سینتیس (37)ٹرام سینتیس (37)مقامات کے لیے چلا کرتے تھے، 2017ءمیں گھٹ کر سترہ اور 2002ءمیں صرف دو رہ گیے، اور اب ان کا بھی خاتمہ ہوا چاہتا ہے۔
ٹرام سروس کو کولکاتہ میں آمد ورفت کے حوالہ سے لائف لائن سمجھا جاتا تھا، 1943ءمیں دوسری عالمی جنگ کے موقع سے جب شہر تاریکی میں ڈوبا ہوتا اور انگریز ہوڑہ پل کھولنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے تھے، ایسے میں یہ ٹرام ہی لوگوں کو پل پار کرانے کا کام انجام دیتا تھا۔
ٹرام نے بنگلہ ادب اور فلموں میں بھی اچھی خاصی جگہ بنالی تھی، ٹرام سے سفر کرنے والوں کی یونین بھی تھی،1953ءمیں کرایہ میں صرف ایک پیسے کے اضافہ سے پورے کولکاتہ میں طوفان کھڑا ہو گیا تھا، جس سے اس سواری کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے، کولکاتہ سے ٹرام کو رخصت کرنے کی وجہ سڑکوں پر جام قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ٹرام سڑک کے بیچ سے پٹری پر چلا کرتا تھا، اور دونوں طرف سے گاڑیاں گذرا کرتی تھیں، کولکاتہ اب بھی جام کے لیے مشہور ہے، حالاں کہ ٹرام سروس بند ہو چکی ہے، جام اصلا ًہا کرس کے فٹ پاتھ پر دوکان لگانے، سڑکوں پر گاڑی لگانے اور بے ترتیب اور بے ضابطہ ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔
فضائی آلودگی سے بچانے اور محفوظ سفر کرنے کی غرض سے دنیا کے چار سو شہروں میں آج بھی ٹرام سفر کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، برطانیہ کے ٹوئنگم میں ٹرام میں نے دیکھا ہی نہیں، سفر بھی کیا ہے، اس سواری کی معنویت آج بھی قائم ہے، کولکاتہ ہندوستان میں اس سواری کی آخری آماجگاہ تھی، جو اب ختم ہوا چاہتی ہے
[email protected]