ڈاکٹر منظور احمد گنائی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب مخلوقات میں سے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیاہے۔زندگی روح اور جسم کے قالب کا نام ہے یہ دونوں آپس میں مل کر انسان کی تخلیق کرتا ہے۔جسم روح کے بغیر نامکمل اور روح جسم کے بغیر وجود نہیں پاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ کے مانند ہے۔یعنی جس طرح روح ہوتی ہے اور جسم کا ساتھ اس کو نہیں ملتا، تب بھی وہ مکمل انسان نہیں ہوتا اور روح اس سے نکل جاتی ہے تو بھی وہ مکمل نہیںہوتا۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جسم کے کچھ تقاضے ہیں روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔گویا اگرجسم کے تقاضوں سے خدا نخواستہ چشم پوشی کی جائے، ان کو پورا نہ کیا جائے تو جسم تکلیف میں مبتلاہوتا ہے اور اس کو اذیت ہوتی ہے۔روح کے تقاضے اگر پورے نہ کیے جائیں تو روح بھی اذیت میں گرفتارہوتی ہے۔ ہر چند کہ جسم مادی ہے، روح عالمِ بالا کی شے ہے تو ہمیں اس عالم مادّیت میں جسم کے تقاضوں کاتو احساس ہوتا ہے، روح کے تقاضوں کا احساس نہیں ہوتا، چوں کہ ہم عالم مادیت میں ہیں تواس عالم مادّیت میں موجود ہونے کی وجہ سے مادّی جسم کے تقاضوں کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے اور ان کی طرف توجہ بھی دی جاتی ہے اور روح چوں کہ عالمِ مادّیت کی شے نہیں ہے، اس واسطے اس کی طرف اور اس کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے بلکہ انھیں سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔جسمانی اعضاء کی نشوونما اور دیکھ بھال کے لیے لاکھوں ڈاکٹر، دوائیاں،ہسپتال اور کمپنیاں دن رات جسم کو مضر اثرات سے بچانے کے لیے محنت اور جدوجہد کرتے ہیں جو ایک خوش آیند بات ہے۔ لیکن انسانی روح کو تندرست اور فعال بنانے کے لیے آج تک کسی نے معذرت نہیں کی بلکہ اُلٹے روح کو زر پہنچانے کے لیے نئے اور جدید آلات کے تیار کرنے میں کوشاں ہیں۔انسانی جسم کو تندرست رکھنے کے لیے مادی غذا کی ضرورت پڑتی ہے جو ہم روزمرہ کی زندگی میں آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن روح مقامی ومیلانی کو تروتازہ رکھنے کے لیے بھی غذا کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔لیکن وہ غذا روزمرہ کے خوردونوش کے اشیاء میں موجود نہیں پایا جاتا ہے ۔ اور وہ غذا صرف یادِ الٰہی میں ہی پنہاں اور پوشیدہ ہے۔ آج سائنس یہ بتاتی ہے کہ انسان زیادہ دیر تک کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے،۔تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ انسانی زندگی کا اصل داررومدار جس چیز پر منحصر ہے وہ روح مقامی ذکرِ الٰہی کے بغیرکیسے بارونق رہ سکتا ہے۔ اس بات کو کہنے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ انسانی روح زندہ اور ولولہ خیز صرف اور صرف ذکروشغل سے ہی ممکن ہے۔بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ذکراللہ کے بغیر روح مردہ بن جاتا ہے اور جسم کی تروتازگی ختم ہو جاتی ہے۔قرآن کریم کی صراحت کے مطابق اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان اور خوشی ومسرت حاصل ہوتی ہے۔الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔
یہی وجہ سے کہ مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے ذکر واذکار اور اورادووظائف کو ’’روح کی اصل غذا سے تعبیر کیا ہے۔کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ فلم،کھیل اور دیگر سیروتفریح کی چیزیں روح کو زندہ کرتی ہے لیکن ایسا کہنا صراحاََغلط ہے ۔کیوں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر ایسے واضح اشارے دیے ہیں کہ روح کی اصل غذا نہ موسیقی ہے اور نہ کھیل کود بلکہ یادِ الٰہی سے روح کو اصل لذت حاصل ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ روح کو سکون وقرار صرف اور صرف قرآنِ پاک کی تلاوت،نماز اور دیگرذکرواذکار،ریاضت وعبادت اور مجلسِ وعظ وتذکیر سے ملتی ہے۔مطلب ذکروفکر میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنا چاہیے ،تب جاکے انسان کو ذہنی اور قلبی سکون حاصل ہوسکتا ہے۔گویا اس بات کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جسم چونکہ مادی چیز ہے ،لہٰذا اس کی غذائیں بھی مادی ہیں ۔اسی لیے جسم کے لیے روٹی،سبزی،دالیں ،دودھ اور دیگر کھانے پینے کی چیزوں سے بھوک اور پیاس مٹتی ہے۔لیکن روح ایک غیر مادی چیز ہے تو اس کی بھوک اور پیاس بھی غیر مادی چیزوں سے ہی مٹ سکتی ہے۔۔مادی غذائیں کھانے کے بعد انسانی جسم تروتازگی ،نڈھال اور پژمردہ ہونے لگتا ہے۔ تو انسانی جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی اپنی غذا کا مطالبہ کرتی ہے اور جب روح کو مطلوبہ غذا مل جاتی ہے تو پھر انسان کےظاہروباطن میں مسرت اور تازگی آجاتی ہے۔اسے کیف وسرور ملنے لگتا ہے اور اس وقت اسے زندگی کا حقیقی لطف محسوس ہونے لگتا ہے۔گویا زندگی روح اور قالب دو اجزاء کی اصل صورت ہے ۔غرض روح کی غذا کی متعدد انواع واقسام ہے۔
کلام پاک کے علاوہ اچھی کتابوں کے مطالعے سے بھی روح کو فرحت وانبساط حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی اللہ عزوجل کی کبریائی اور عبادت ہے اور عبادت کا مقصد ہی تزکیٔہ نفس،تطہیر باطن اور صفائی قلب ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: یا ایھا الذین آمنوااذکرااللہ ذکراً کثیراً(الاحزاب:۳۳)
ترجمہ: اے لوگو !جو ایمان لائے ہو،اللہ کوکثرت سے یاد کرو‘‘۔اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی۔
بہرحال یہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی جسم کے ساتھ ساتھ روح کی تطہیر اور تزکیہ بھی لازم وملزوم ہے۔کیونکہ روح اور جسم کے ملاپ سے ہی انسانی زندگی قمیتی اور انمول بن جاتی ہے۔انسانی جسم تب تک خالی اور بے وزن ہے جب تک کہ اس میں ایک پاک روح کا دخول نہ ہوجائے۔انسانی زندگی زندہ دلی ، صحیح روحانی قوت اور نادر تدبیرات کا نام ہے اور ان ہی چیزوں سے کامیابی اور سکون کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آ جاتا ہے۔اس لامتناہی وجود کی تخلیق انسان کی داخلی وخارجی محرکات سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔یعنی انسا نی وجود میں جب جسد اور روح ایک سمت پر رواں دواں ہو، تب جاکے انسانی زندگی فعال،متحرک اور بامقصدبن سکتی ہے۔ورنہ اگر دونوں میں کسی بھی چیز کی کمی رہی ہو تو حیاتِ داستان جہنم اور بے معنی بن جاتی ہے۔ غرض روح اور جسم کو حلال،توانا اور نہایت عمدہ غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔لہٰذا ہمیں اپنی زندگی میں ان دونوں مادی اورغیر مادی چیزوں کو صحیح،حلال اور پاک غذا فراہم کرنا چاہیے تب جاکے ہماری زندگی ہمارے لیے توشۂ آخرت ثابت ہوسکتی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کی زندگی میں دونوں روحانی اور جسمانی غذائے حلال نصیب فرمائیں۔(آمین)
رابطہ۔6005903959