قارئین کرام !’’یادوں کے جھروکوں سے‘‘ کے زیر عنوان سے میرا ایک مضمون کچھ وقت پہلے بھی اسی روزنامے میں شائع ہوا تھا، اب اسی حوالے سے اگلی قسط پیش کررہا ہوں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ’’انسان اس کائنات میں اجنبی بھی ہے مگر اس کائنات سے بندھا ہوا بھی ہے۔‘‘ اس لئے انسان کے تجربات انوکھے بھی ہیں اور اچھوتے بھی ہوتے ہیں۔ہر کوئی اس کائنات کو اپنے زاوئے سے دیکھتا ہے اور یہ زاوئے وقت کے ساتھ ساتھ تجربات اور حادثات کے اعتبار سے ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ہنر کو عقیدوں میں پابند نہیں کیا جاسکتا ، اس لئے تخلیق ادبی نوعیت کی ہو یا طبی سطح کی، اس کا وارث ہر انسان ہوتا ہے۔ جس طرح دل کی کیفیات کی کوئی قید نہیں ہوتی اور خواب انسانی خیال کی بندشوں میں نہیں آتے، اسی طرح ہنر اور تخلیقات بھی نیکیوں کا مزاج رکھتے ہیں کہ یہ پوری انسانیت کے امانت ہوتی ہیں اور انہیں دریا میں بھی پھینکا جائے تو ضائع نہیں ہوتیں۔لٹریچر کے حوالے سے میں نے بہت ہی کم پڑھا ہے۔ ہاں تصوف کے موضوع سے دلچسپی رہی ہے، اس لئے صوفیائےکرام کے احوال اور کیفیات کا مطالعہ زیادہ رہا۔ کشمیری کہانیوں میں امین کاملؔ صاحب کی کہانی ’’کوکر جنگ‘‘ پڑھی ہے اور اخترؔ محی الدین صاحب کی ایسی دو تین کہانیاں جو خود انہوں نے مجھے اپنی زبانی سنائیں، میرے علم میں ہیں۔ہردے کول بھارتی جی کی دو، ہری کرشن کول اور اوتار کرشن رہبرؔ کی ایک ایک کہانی بھی پڑھی ہے۔ کشمیری کہانیوں کے حوالے سے میرے مطالعے کی اساس بس اتنی ہی ہے جتنی آگے بیان کرچکا اور اب ان کہانیوں کے بارے میں بھی کچھ یاد نہیں، بس ایک تاثر سا ہے کہ وہ اچھی کہانیاں ہیں اور ان کا معیار بھی اعلیٰ ہے۔
کبھی کبھی ذہن کے دھندلکوں سے ماضی کی یادیں اُبھرتی ہیں اور مختلف لوگوں کی شبیہات کا ایک ہجوم سا آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ یادیں محض یادیں نہیں ہوتیں، ان کے ساتھ واقعات اور باتیں بھی جڑی ہوتی ہیں۔ یہ یادیں مارتی بھی ہیں اور مرنے بھی نہیں دیتیں! زندگی اور بقا تو انہیں عطا ہوتی ہے جن کے دل ودماغ میں اللہ کی یاد کے سوا سب زائل ہوا ہو۔ مجھ جیسے لوگ تو کب کے مرچکے ہیں، اب انہیں دفنانا باقی ہے! ’’کَتِہ بوزِ دَیے میون میتِہ دِیہ تار۔‘‘
وقت اچھا ہو یا برا ، بہرحال گذر ہی جاتا ہے۔ اسی طرح میری زندگی بھی اچھے اور برے حالات کے ساتھ گذرتی رہی اور میں خود اپنی زندگی اور جینے کا تماشا دیکھتا رہا۔ہاں، کچھ یادیں تلخ بھی ہیں شریں بھی،یادیں بہت ہیں، کچھ میرے ساتھ ہی قبر میں جائیں گی کیونکہ انہیں ظاہر کردیا تو انقلاب آ جائے گا۔ ایسے بھی ہمارے افسانہ نگار ہیں جن کا بڑا نام ہے مگر میرے پاس ثبوت ہے کہ وہ ادبی سرقہ میں ملوث رہے ہیں۔ سب باتیں اور سچی باتیں ،کیا تھوڑے ہی منظر عام پر آتی ہیں؟ جھوٹ اور جھوٹ ہے اور وہی بِکتا آیا ہے! عزتوں کا نیلام ہوا، عصمتیں بکتی رہیں، جسموں سے کھلواڑ ہوتا رہا اور یہ سب کچھ اس طرح ہوا جیسے کچھ بھی نہ ہوا۔ عورتوں کے رسیا اور پیسوں کے دیوانے بڑے بڑے ادیب قرار پائے اور انعامات’ ’سمیٹے‘‘ رہے۔ میں جانتا ہوں کہ لوگوں کو انعامات کیسے مل گئے اور ملتے رہے۔ اس سلسلے میں کچھ انکشافات کروں تو یہاں کے ’’ادب کا تانابانا‘‘ہی ٹوٹے گا، بڑے اور چھوٹے سب لڑھک جائیں گے۔ ہمارے ادب کا تماشا بنے گا۔ اب ہمارے یہاں یہی کچھ چلتا رہا ہے اور ہمارا زیادہ تر ادب اور ادیب گویا ایسے ’’تَلہ چھوی زیوس تَے پیٹھہ چُھک نَڑھان۔‘‘
کہاں گئے وہ لوگ!! یاد آتی ہے تو بے اختیار آنکھیں تر ہوجاتی ہیں۔وہ ادیب ایسے تھے کہ ادب اُن کا مزاج تھا۔ یہاں ادب سے میری مراد محض لٹریچر اور تخلیقی صلاحیت ہی نہیں ہے بلکہ ادب سے میرا مطلب اُن کے اخلاق، برتاو اور شائستگی کے تعلق سے بھی ہے۔ آج جب’ ’ادیب‘‘ کو دیکھتا ہوں تو زیادہ تر پاگل پن ہی نظر آتا ہے اور بد اخلاقی اور حماقتوں کا ہی زیادہ تر مشاہدہ ہوتا ہے، الاماشااللہ۔
آنجہانی سومناتھ سادھو کو کون نہیں جانتا۔ انہیں پدم شری کا اعزاز بھی ملا تھا۔ریڈیو کشمیر کے ’’زونہ ڈَب‘‘ڈرامہ سیریل میں ’’آغہ صاب‘‘ کا کردار سادھوؔ نے ایسا زندہ جاوید بنادیا تھا کہ لوگ سادھوؔ صاحب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب رہتے تھے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی نہیں بڑے نامور لوگوں کو بھی اُن سے ملاقات کا مشتاق پایا ہے۔’ ’آغہ صاحب‘‘ کے کردار نے انہیں بہت شہرت عطا کی تھی۔ ’’مچامہ سیریز‘‘ میں وہ ’’ سُلہ گوٹہ‘ کا رول نبھاتے تھے۔ یہ ایک مزاحیہ سیرئل تھا۔ بچپن سے ہی مجھے اس سیرئل کو سننے کا ایسا چسکہ پڑگیا تھا کہ جس رات کو یہ ڈرامہ براڈکاسٹ طے ہوتا، مجھے انتظار میں وہ دن ایک سال سے بھی طویل معلوم ہوتا ۔ بہت ہی بے تابی سے میں ساڑھے نو بجنے کے انتظار میں رہاکرتا تھا کہ کب ساڑھے نو بج جائیں اور میں یہ ڈرامہ سن پاؤں۔ ایک دن بچپن میں یہ ڈرامہ سنتے ہوئے ہنستے ہنستے میرا ایسا بُراحال ہوگیا تھاکہ مجھے ایسا لگا تھا کہ شاید ہنستے ہنستے ہی میری جان نکل جائے گی۔ کوئی مکالمہ سن کر ہنسی کا ایسا دورہ پڑا تھا کہ آنکھوں سے آنسوبہہ گئے اور پیٹ میں بل پڑگئے! اپنی پوری زندگی میں میں نے صرف دو آدمیوں کی تخلیقات میں یہ استعداد پائی ہے کہ وہ انسان کے اندر ایسی کیفیات ابھاردیتی تھیں جو انسان کو اندرسے ہلا سکتی تھیں اور انسانی دماغ کو اپنے قابو میں کرسکتی تھیں۔ پہلا نسیم حجازیؔ کے ناول ہیںجو انسان کو کچھ ایسے جوش سے بھر دیتے ہیں کہ قاری میں یک بہ یک انقلابی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ نسیم حجازیؔ کے قلم میں واقعی یہ طاقت تھی کہ وہ اپنی منشا کے مطابق قاری پر اپنے اثرات ڈالنے کے اہل تھے اور قاری کی سوچ کو جہاں چاہے گھما سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں ملی ٹنسی کی شروعات ہوئیں اور ابتدا میں جو ملی ٹنٹ گرفتار ہوئے اُن میں سے کئی نوجوانوں نے انٹروگیشن کے دوران ملی ٹنسی جوائن کرنے کے محرکات کے حوالے سے یہ بتایا تھا کہ نسیم حجازیؔ کے ناولوں نے اُن میں یہ انقلابی سوچ پیدا کی۔ اُن دنوں جیلانی پنڈت صاحب پولیس کے ڈائریکٹر جنرل ہواکرتے تھے اور یہ باتیں پریس میں آئی بھی تھیں۔ دوسرا یہ پُشکر بھانؔ کی ریڈیو کشمیر پر مزاحیہ ڈراموں کا اثر تھا کہ وہ انسان کو اتنے زور سے ہنسنےہنسانے کی لاثانی قوت رکھتے تھے کہ سامعین کا ہنستے ہنستے برا حال بنادیتے تھے۔ وہ اپنے تصوراتی کرداروں کو ایسا جاندار بنانے کی استعداد رکھتے تھے کہ اُن کا مزاحیہ ڈرامہ براڈ کاسٹ ہونے کے بعد لوگ اُن کے کرداروں کے ناموں کو روز مرہ زندگی میں ملنے والے کرداروں سے تعلق جوڑدیتے تھے اور ’’مچامہ‘‘کے کردار بہت دیر تک عام لوگوں میں زیر بحث رہتے تھے۔ بہرحال بات ہورہی ہے سادھوؔ صاحب کی۔ سادھوؔ صاحب بہت اچھے ادیب بھی تھے۔ وہ ڈرامہ نویس بھی تھے۔ بڑے خوبصورت ڈرامے لکھتے تھے۔ بہت ہی شریف النفس آدمی تھے۔ تعصب اور تنگ نظری نام کی کوئی چیز اُن میں تھی ہی نہیں۔ بس جس کسی میں صلاحیت دیکھتے تھے، اُس کے قدردان بن جاتے تھے۔ وہ لوگ سچ مچ فرض شناس اور انسان دوست تھے ، اپنی ڈیوٹی عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے دور میں ریڈیو کشمیر پھلا پھولا اور کشمیری ادب کو اُن لوگوں کے دور میں بڑا فروغ ملا اور اس کی بڑی ترقی ہوئی اور اچھے اچھے ادیب سامنے آتے گئے اور اُن کی نشونما ہوتی رہی ۔بیس سال کی عمر میں میں نے اپنی زندگی کا پہلا کشمیری افسانہ ’’زندگی ہِند صبح شام‘‘ لکھا۔ یہ جرأت نہ ہوئی کہ میں ریڈیو کشمیر جاکر وہاں کسی پرڈیوسر سے ملنے کی جسارت کرتا۔ میں بچپن سے ہی بڑی شرمیلی طبیعت کا انسان رہا ہوں، اس لئے ریڈیو کشمیر کے کسی پرڈیوسر سے ملنے میں ہچکچاہٹ رہی۔ جب بائیس سال کی عمر کا ہوگیا تو مشہور کیلی گرافر مرحوم محمد صدیق صاحب جو اُن دنوں روزنامہ’ ’آفتاب‘‘ میں ہیڈ کاتب تھے، سے کہا کہ آپ میرے اس افسانے کی کتابت کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کشمیری ا سکرپٹ لکھنا نہیں آتا تاہم انہوں نے مجھے اپنے ہمراہ کاتب جناب غلام نبی مہاجن صاحب کے گھر واقع براری پورہ نواکدل ،شہر خاص سرینگر لیا اور ان سے میرے زیر بحث کشمیری افسانے کا اسکرپٹ لکھنے کی درخواست کی۔ چنانچہ میں افسانہ پڑھتا گیا اور غلام نبی مہاجن صاحب تحریر کر تےگئے۔ اُن دنوں میری عمر بائیس سال کی ہوگئی تھی۔مرحوم غلام نبی مہاجن صاحب (کاتب) کے حوالے سے یہ عرض کروں کہ جب کشمیر میں ملی ٹنسی زوروں پر تھی، وہ انہی ایام میں شہید ہوگئے۔ ہوا یہ تھا کہ اُن کے علاقے میں ملی ٹنٹوں کی طرف سے فائرنگ ہوئی تھی جس میں سرکاری فورسز کا کچھ نقصان ہوا تھا، چنانچہ حسب دستور علاقے کا کریک ڈاؤن ہوا ، اسی اثنامیں فورسز اہل کار غلام نبی مہاجن صاحب کے گھر میں داخل ہوئے اور اُن کے بیٹے کو دیکھتے ہی گولی مار کر بر سر موقع شہید کردیا۔ مہاجن صاحب اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش میں آگے آئے تو اُنہیں بھی گولی مار کر ابدی نیند سلادیا گیا۔ اس طرح گھر میں بیوہ بہو اوربیوہ ساس رہ گئیں۔ انا اللہ و ناالیہ راجعون۔
خیربات چل رہی ہے سادھوؔ صاحب کی۔ پھر میں نے یہ کیا کہ اُس کشمیری افسانے کو کشمیری ادبی پروگرام ، ریڈیو کشمیر کے نام پوسٹ کردیا۔ مہینہ بھر تک جب کوئی جواب نہ ملا تو میں نے اپنے ایک دوست اور معروف ادیب اقبال فہیمؔ صاحب سے کہا : یار میں نے ایک کشمیری افسانہ لکھا ہے اور اب اُسے ریڈیو کشمیر سے براڈ کاسٹ کرانا چاہتا ہوں۔ اُن کا ریڈیو کشمیرمیں کچھ حد تک آنا جانا رہتاتھا اور میرے مقابلے میں وہ ادبی حلقوں میں زیادہ جانے پہچانے ادیب تھے اورانہوں نے ان حلقوں میں اپنی جگہ بھی بنالی تھی، حالانکہ عمر میں مجھ سے دو یاتین سال کم ہیں۔ انہوں نے کہا چلو کل ریڈیو کشمیر جاتے ہیں، وہاں سومناتھ سادھوؔ کشمیری ادبی پروگرام کے انچارج ہیں ، اُن سے ملتے ہیں۔ چنانچہ دوسرے دن ہم دونوں ریڈیو کشمیر گئے۔ وہاں جب سادھوؔ صاحب سے ملے تو انہیں بہت نرم اور شفیق پایا۔ وہیں اُن کے کمرے میں ایک اور صاحب بیٹھے ہوئے تھے جن کے بارے میں فہیمؔ صاحب نے بتایا :یہ اوتار کرشن رہبرؔ صاحب ہیں اور سادھوؔ صاحب کے اسسٹنٹ ہیں۔ رہبرکوؔ بھی میں نے بڑا حلیم پایا۔ میں نے جب سادھوؔ صاحب کو اپنا منشا بتایا تو انہوں نے پوچھا کیا نام ہے؟ میں نے جب نام بتایا تو انہوں نے بڑی خوشی ظاہر کی اور کہا کیا آپ نے ڈاک کے ذریعے بھی اپنا افسانہ بھیجا ہے اور ساتھ ہی ایک فائل سے میرا وہ افسانہ نکال لیا۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کا افسانہ پڑھا، بہت اچھا ہے، میں نے آپ کو بُک بھی کیا ہے، آپ تین دن کے بعد گیارہ بجے یہاں آجائیے اور اُس دن ہم آپ کی ریکارڈنگ کریں گے۔ میں تین دن کے بعد ریڈیو کشمیر گیا اور اُس افسانے کی ریکارڈنگ کرائی۔ پھر وہ افسانہ ریڈیو سے نشر بھی ہوا ،اور مجھے معاوضے میں ریڈیو والوں نے پندرہ روپے کی چیک دے دی۔ یہ غالباً 72۔1971ء کا سال تھا۔ سادھوؔ صاحب کا دماغ کبھی ساتویں آسمان پر نہیں چڑھا۔ جب وہ شہرت کے بام ِ عروج پر بھی تھے اُس وقت بھی اُن کی شائستگی اور شرافت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا بلکہ وہی سادگی اور سلیقہ مندی اُن میں موجود رہی جو پہلے تھی۔ وہ گھر سے ریڈیو کشمیر پیدال جا یاکرتے تھے۔ انہوں نے کبھی ٹھاٹ باٹ کو پسند نہیں کیا۔ لباس کے معاملے میں بڑے نفاست پسند تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں نظر آتے تھے۔ اُن کی شکل وصورت بھی بڑی پُر کشش تھی۔ قد لمبا تھا مگر موٹے نہیں تھے۔
عبد الرحمان میر صاحب میرے دوست اور دفتری ساتھی تھے، انہیں سادھوؔ صاحب سے ملاقات کا بڑا اشتیاق تھا۔ایک دن میں اسی دوست کے ساتھ لال چوک سے گزررہا تھا تو سادھوؔ صاحب پر نظر پڑی۔ اُن دنوں سادھوؔ صاحب ریڈیو کشمیر کی کمرشل براڈکاسٹنگ سروس کے ڈائرکٹر تھے۔ میں اُن کے قریب گیا، مصافحہ کیا اور اپنے دوست کا تعارف کرایا۔ پھر میں نے سادھوؔ صاحب سے درخواست کی کہ میرے ساتھ چائے کا ایک کپ پئیں تاکہ کچھ وقت آپ کے پاس بیٹھ سکوں۔ بالکل کوئی تکلف کئے بغیر سادھوؔ صاحب نے میری بات مان لی اور لال چوک میں واقع’’ کشمیر ویلی ریسٹورنٹ ‘‘میں ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے ، مجھ سے یہ اصرار بھی کیا کہ کبھی کبھی میں اُن کے دفتر آیا کروں۔آج سادھوؔ صاحب جیسے شریف، نرم اور شگفتہ مزاج والے اور میٹھے انسان بہت ہی کم ہیں تاہم محترم رفیق مسعودی صاحب ، جو ٹیلی ویژن اور ریڈیو کشمیر کے ڈائریکٹر اور کلچرل اکیڈمی کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں، میں یہ خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اُن کو دیکھتے وقت مجھے سادھوؔ صاحب یاد آتے ہیں۔ مسعودی صاحب جب اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز تھے تو بالکل ایسے ہی تھے جیسے آج ہیں۔ عہدوں نے کبھی اُن کا مزاج نہیں بگاڑ دیا۔ ایسے لوگ نہایت ہی کم پیدا ہوتے ہیں۔
بہر صورت زندگی نے مہلت دی اور صحت ٹھیک ٹھاک رہی تو اپنی یادوں کے حوالے سے آگے بھی کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔