امرناتھ یاتریوں پر ہوئے حملے کی جہاں پورے کشمیر نے بھر پور مذمت کی اور اس سے انسانیت پر حملے سے قرار دیاوہاں لگتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا، سیاستدان تجزیہ نگار اور فوجی جرنیل اس واقعے کو ہر حال میں کشمیریوں کے سروں پر تھوپنا چاہتے ہیں تاکہ کشمیریوں کو فرقہ پرست ، مذہبی جنونی اور ہندو دشمن ثابت دینے کی پہلے سے جاری مہم کو مذید با جواز بنایا جا سکے۔ حیرت کی بات ہے کہ حریت پسند قیادت سے لیکر UJCتک گلا پھاڑ پھاڑ کر اس حملے کی تحقیقات میں ہر طرح کا تعاون دینے کی غیر مشروط پیشکش بھی کر رہی ہے لیکن میمنے اور بھیڑ کی کہانی کے مصداق نئی دلی اور اس کے ہر چھوٹے بڑے ادارے کا ایک نقاتی ایجنڈا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہر صورت میں کشمیری جنگجوئوں کو ہی اس شرمناک واردات کیلئے ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔ یہ بات بھی ہر کسی کو معلوم ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں گذشتہ کئی ہفتوں سے یہ واویلا مچا رہی تھیں کہ یاترا پر حملہ ہو سکتا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر انہیں ایسا خدشہ یا معلومات پہلے سے تھیں تو حملہ روکا کیوں نہیں گیا اور کیا یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ یا تو حملے میں براہ راست یا پردے کے پیچھے سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ تھایا پھر سیکورٹی ایجنسیاں اسقدر نااہل ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں تعینات چاک و چوبند وردی پوش اہلکار اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں ۔ غرض دونوں صورتوں میں سیکورٹی ایجنسیوں کو چند اہم بنیادی سوالات کا جواب دینا ہی ہوگا۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک طرف جہاں سیکورٹی ایجنسیاں بشمول جموں وکشمیر پولیس کا رول اس ساری شرمناک واردات میں بے حد مشکوک ہے وہاں ریاستی سرکار نے پولیس کی ہی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو معاملے کی تحقیقات کرنے پر معمور کرکے تحقیقاتی عمل کو تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی مشکوک بنا دیا ہے ۔ ایسے حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے محبوبہ مفتی سے لیکر مرکزی وزیر داخلہ تک متصب میڈیا کے جھانسے میں آکر اپنے بنیادی فرائض سے آنکھیں چرا کر ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں اورمعاملے سے جڑے مختلف اہم اور بنیادی سوالات کا جواب دینے یا ڈھونڈنے کے بجائے اپنا سارا زور کشمیریوں کو وعظ و نصیحت کرنے ، انہیں انتہا پسند ، مذہبی جنونی ثابت کرنے اور ان کی دل آزاری کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ ہر کوئی کشمیریوں سے صرف یہ کہہ رہا ہے کہ آپ اس واقعہ کی مذمت کریں لیکن بدقسمتی سے ہندوستانیوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مذمت یا تعزیت کرنے سے کسی کی جان واپس نہیں آتی ۔ میرا مطلب ہرگز یہ یہ نہیں کہ خون ناحق پر مذمت کرنا صحیح نہیں ہے لیکن اہل کشمیر اب مذمت، تعزیت اور ماتم داری کرتے کرتے اسقدر تھک چکے ہیں کہ انہیں اب ان الفاظ سے بھی نفرت ہو چکی ہے ۔ شائد ہندوستان کے لوگ اس بات کو لیکر بھی دُکھ اور غصے میں ہیں کہ ایک ہی بار سات بے گناہ نہتے شہریوں کی لاشیں ان سے دیکھی نہیں جاتی لیکن ہندوستانی لوگوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اہل کشمیر لاشیں گنتے گنتے اور انہیں دفن کرتے کرتے اب ہر واقعہ سے بے نیاز ہو چکے ہیں اور جہاں اس دلدوز سانحہ میں سات یاتریوں کی لاشوں کا غم اہل ہندوستان کو دیکھنا اور سہنا پڑا ہے وہاں کشمیریوں نے ایک لاکھ لوگوں کو موت کی آغوش میں جاتے ہوئے دیکھا ہے اور وادی کا ہر نوجوان ہندوستانی فوج کی دہشت سے خوفزدہ ہو کر موت سے پہلے موت کے انتظار میں زندہ لاش بن چکا ہے ۔ غرض مظلوم اور محکوم کشمیریوں کو ظالم اور جابر ثابت کرنے کی انتہائی مذموم کوششیں ہندوستانی ریاست کی داخلہ پالیسی کا محور بن چکی ہیں۔ یہ با بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ یاتریوں کی ہلاکت کے بعد یاترا بلا خلل جاری رہی اور ریاستی سرکار کی ساری مشینری کو یاترا کی حفاظت کے کام پر معمور کیا گیا۔ واقعی ریاستی سرکار اس طرح کی تن دہی سے یاترا کو جاری رکھنے کیلئے مبارکباد کی مستحق ہے لیکن اس کی ایسے تشہیر کی جا رہی ہے کہ جیسے اہل کشمیر یاترا کے خلاف ہوں اور یاترا کا بلا خلل جاری رہنا کشمیریو ں کے خلاف ہندوستان کی جیت کے مترادف بات ہو ۔تاہم اس کے بر عکس ریاست کے اپنے شہریوں کو رواں ماہ کے دوران مسلسل چوتھی بار ریاست کی سب سے مقدس مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے سے روکا گیا۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر یاترا پر حملہ کے باوجود یاترا کے جاری رکھنے کیلئے سرکار سب کچھ دائو پر لگاتی ہے تو پھر اکثریتی طبقہ کو بغیر کسی معقول جواز کے کیوں نماز جمعہ سے روک کر تواریخی جامع مسجد پر تالا چڑھا کر مسلمانوں کے جزبات کو مجروح کرکے انہیں تشدد پر اکسایا جاتا ہے ۔ اگر سرکار ہفتوں یاترا چلانے کیلئے سینکڑوں میل لمبی سڑک اور پہاڑیوں پر ہزاروں ہتھیار بند جوانوں کو رات دن تعینات کر سکتی ہے تو پھر جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کے دن ایک گھنٹہ کیلئے ماحول کو ساز گار کیوں نہیں رکھ سکتی۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں یاترا کے دوران ہزاروں سپاہیوں کو تعینات کرنا سرکار کی مجبوری ہے وہاں جامع مسجد کے گرد و نواح میں مسجد انتظامیہ اور عوامی خواہشات کے بر عکس غیر ضروری وجہ سے فورسز کو تعینات کیا جاتا ہے ۔ غرض جو فورسز امررناتھ یاترا کے دوران صر ف اس لئے تعینات کئے جاتے ہیں کہ وہ یاترا کو کامیاب کوبنائیں وہی فورسز جامع مسجد سرینگر کا گھیرائو کرکے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مسجد میں اذان تک بھی نہ ادا کی جا سکے۔ اور پھر رہی سہی کسر وزیر اعلیٰ محوبہ مفتی رات بھر یاتریوں کے پاس گذارنے کا بظاہر اچھا کام کرنے کے بعد یہ کہکر پوری کرتی ہیںکہ وہ یاتریوں پر حملے کے بعد شرمندہ ہیں اور ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے ۔ان کا معذرت خواہانہ اور بیہودہ بیان جیسے اس بات کا اعتراف ہو کہ ہر کشمیری کے ہاتھ میں بندوق ہے اور اس کا واحد مقصد یاتریوں پر حملہ کرنا ہے ۔در اصل یاترا پر حملے کے بعد ہندوستان کا ایک بڑا انتہا پسند طبقہ اس بات میں زور و شور سے لگا ہوا ہے کہ کشمیریوں کو وہابی اور سلفی جیسی ایسی اصطلاحات سے نواز کر پوری دنیا کے سامنے بدنام کیا جا سکے جن کے بارے میں خلافت کے ناقدین کو کچھ بھی معلوم نہیں۔ تاریخ سے نا بلد ان مسلم دشمنوں کو یہ کون سمجھائے کہ علی برادران کی طرف سے شروع کی گئی خلافت تحریک کی مہاتما گاندھی نے دل سے حمایت کی تھی اور مہاتما گاندھی سمیت دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں نے خلافت کے نظام کو سب سے بہتر نظام قرار دیا ہے لہذا کسی کو نہ خلافت کے تصور سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کے خلاف منفی پروپگنڈہ کرکے مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق سے مسلسل محروم رکھا جا سکتا ہے ۔ یاترا پر حملے کے بعد نئی دلی اپنے پہلے مقصد میں وقتی طور کامیاب نظر آتی ہے کیونکہ ہندوستان سے لیکر بیرونی دنیا کی توجہ صرف کشمیر میں یاتریوں پر حملے کی طرف مبذول ہو چکی ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے کشمیر میں ایک لاکھ کشمیری مسلمان نہیں بلکہ صرف سات یاتری مارے گئے ہوں۔ غرض سیکورٹی ایجنسیاں ایسے کسی بھی موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہیں جس کا مقصد مسلم نوجوانوں کو کسی نہ کسی طریقے تنگ طلب کرکے بندوق اٹھانے پر مجبور کیا جا سکے۔ جہاں ہندوستانی میڈیا نوہٹہ سرینگر کے سجاد احمد جنہیں بڈگام معرکہ میں دیگر دو عسکریت پسندوں کے ساتھ بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا کے جسد خاکی کو ISISکے جھنڈے میں لپیٹنے کو بڑا چڑھا کر پیش کرکے کشمیر میں ISISکی موجودگی کا ہوا کھڑا کر رہی ہے وہاں کوئی ہندوستانی دانشور ، تجزیہ نگار یا صحافی اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے رہا ہے کہ آخر سجاد کو بندوق اٹھانے کیلئے کس نے مجبور کیا ۔ اگر نئی دلی میں کچھ شرم و حیا باقی ہے تو اسے چاہئے کہ زبیر ترے، بشیر لشکری ، سجاد احمد اور ایسے ہی دیگر درجنوں نوجوانوں کو عسکریت کی طرف دھکیلنے کے ذمہ دار وردی پوش افسروں کے خلاف FIRدرج کرکے انہیں نوکریوں سے بر خواست کرے۔جس قدر جلدی نئی دلی اور اس کے گماشتے اس حقیقت کو سمجھے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ نہ یاترا کا مسئلہ ہے اور نہ پاکستانی مداخلت سے چلنے والی شورش کا تب تک ہندوستانی فوجیوں کے بندوقوں سے نکلنے والی ہر گولی الٹا ہندوستانی مفادات کو ہی چیرتی رہے گی چاہے اس کا احساس نئی دلی کو ہونے میں کچھ اور وقت کیوں نہ لگے ۔