1917میں روسی انقلاب کے بعد جب کئی یورپی ممالک میں کیمونسٹ حکومتیں قائم ہوئیں، اور سوشلٹ و کمیونسٹ نظریات نے پوری دنیا کو متاثر کردیا، تو مزدوروں کو علم ہوا کہ وہ بھی انسان ہیں اور ان کے بھی حقوق ہیں اور یہ کہ وہ بھی ان حقوق کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔1886 میںیکم مئی کے روز امریکہ کے 13ہزار کارخانوں سے3لاکھ مزدور اور دوسرے ورکرس نے استحصال کے خلاف احتجاج کیا۔جب سے پوری دنیا میں ٹریڈ یونین اور مزدوروں کی دوسری انجمنیں ’مے ڈے‘ یعنی یوم مئی مناتی ہیں۔ پوری دنیا سمیت جموںوکشمیر یونین ٹریٹری میں بھی آج مزدوروں کاعالمی دن منایاجارہا ہے اور اس سلسلے میں سرکاری سطح پرتقاریب کا اہتمام کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مزدوروں کے حالات بدل چکے ہیں اور حکومت ان کی فلاح و بہود کیلئے کوشاں ہے وہیں غیر سرکاری سطح پر بھی مزدوروں کی حالت زار اجاگر کرنے کیلئے تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے اور دن بھر جاری رہنے والی ان تقاریب کے اختتام کے ساتھ مزدور کو سب لوگ بھول جاتے ہیں۔جموںوکشمیر میں مزدور طبقہ مسلسل استحصال کا شکار ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ مزدور طبقہ کے ساتھ یہ استحصال سرکاری سطح پر بھی ہوتا ہے کیونکہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ہزاروں یومیہ مزدوروں کو باعزت زندگی جینے کیلئے مناسب یومیہ اجرت نہیں ملتی ہے اور وہ برسہا برس سے منیمم ویجز ایکٹ کی عمل آوری کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی صدائیں ایوان اقتدار کے دیواروںسے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں ۔ گوکہ چند سال قبل جموںوکشمیر حکومت کے محنت و روزگار محکمہ نے طے شدہ تقرریوں بشمول غیر ہنر مندوں، نیم ہنر مندوں، ہنر مندوں، انتہائی ہنر مندوں اور انتظامی/وزارتی تقرریوں کے سلسلے میں اجرت کی نظر ثانی شدہ کم از کم شرحوں کو مشتہر کردیا جس میں مشاورتی بورڈ نے سرکاری ملازمین کو اس وقت ملنے والے مہنگائی الاؤنس کے مساوی کم از کم اجرت میں 38 فیصد اضافے کی سفارش کی تھی۔نظرثانی شدہ نرخوں میں غیر ہنر مند کارکنوں کے لئے یومیہ 311روپے، نیم ہنر مندوں کے لئے 400روپے، ہنر مند عملے کے لئے 483روپے، انتہائی ہنر مندوں کے لئے 552روپے اور انتظامی/ وزارتی کارکنوں کے لئے 449روپے شامل تھے۔ کم از کم اجرت ایکٹ میں نظرثانی سے یومیہ اجرت والوں کو بھی فائدہ پہنچا جس کے بعد لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے کامگاروں کیلئے دو لاکھ روپے کا انشورنس کور دینے کی ہدایات جاری کیںاور کہا کہ اس انشورنس کا پریمیم سرکار کی جانب سے محنت و روزگار محکمہ کے ذریعے برداشت کیاجائے گا۔گوکہ کم سے اجرتوں میں اضافہ کے بعد کامگاروں کو انشورنس کور فراہم کرنے کے فیصلے قابل ستائش ہیں اور ان دونوں فیصلوں سے کامگاروں کو راحت ملے گی تاہم کم سے کم اجرتوں میں نظر ثانی مارکیٹ تقاضوں کے مطابق نہیں ہے ۔ کم سے کم اجرت کا خیال مزدوری سے متعلق قوانین اور قواعد کے تعین میں رہنما قوت بنناچاہئے تھا۔یہ صرف معیشت اور غریبوں کی مدد کرنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ بنیادی طور پر انسانی وقار کے خیال سے جڑا ہوا معاملہ تھا۔ایک ایسا نظام جہاں انسانوں کا احترام نہیں کیا جاتا اور یہ احترام اس بات سے عیاں نہیں ہوتاکہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے،ایسا نظام یقینی طورپر استحصال کو ہی جنم دیتا ہے۔یہ بالکل یہی استحصال ہے جو یہاں اب طویل عرصے سے ہو رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ مہذب اور جمہوری سماج ہونے کے باوجود یہاں اس کو استحصال کا نام نہیں دیاجاتا ہے بلکہ یہاں یہ احسان کے زمرے میں آتا ہے اور اکثر بابوئوں و حکمرانوں کا خیال یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں قلیل اجرتوں پر لوگوں کو لگا کر وہ اُن کا استحصال نہیں کررہے ہیں بلکہ ان پر احسان کررہے ہیں۔ایک ایسے وقت جب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اس طبقے کے لوگوں کو دی جانے والی کم سے کم اجرتوں میں نظر ثانی نہ صرف ناکافی ہے بلکہ ذلت آمیزبھی ہے۔ہمارے نظام کا المیہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے لئے وسائل وافر مقدار میں محفوظ رکھتے ہیں جن کی پہلے سے اچھی اجرت ہے۔سرکاری نظام کے بالائی تہہ کے ملازمین کے لئے تنخواہوں میں اضافے کا ایک جھٹکایقینی طور پرمزدور طبقے کی ماہانہ اجرت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ کبھی مہنگائی بھتہ تو کبھی کسی اور بہانے سرکار ایسے ملازمین کو نوازتی رہتی ہے لیکن ان بیچارے یومیہ اجرت والے ملازمین پر کسی کو ترس نہیں آتا ہے۔جمہوری اور فلاحی ریاست میں یہ سراسر استحصال ہے۔ اس صورتحال میں حکومتوں کے سربراہان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ یومیہ اجرت والے ملازمین اور مزدوروں کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔کم از کم اجرت کیلئے ایک معیار قائم کرنے کا خیال صرف اس کی شروعات ہے۔ مشاورتی بورڈ کو یہ اجرت طے کرتے وقت باوقار زندگی کے تمام عناصر کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔اس طبقے کے لوگوں کے پاس کھانے کیلئے اچھا کھانا، پہننے کے لئے اچھا لباس، رہنے کے لئے ایک اچھا گھر، اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کافی وسائل ہونے چاہئیں اورہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے کم از کم کچھ بچت بھی ہونی چاہئے۔انسان ہونے کے ناطے ان کی وہی ضروریات اور خواہشات ہیں جیسے مہینے کے آخر میں موٹی تنخواہ لینے والے لوگوں کی ہوتی ہیں اور یہ کیسے یہ ممکن ہے کہ یکساں ضروریات والے افراد کے لئے اجرتوں میں اس قدر تفاوت ہو۔بلا شبہ گریڈنگ کے لحاظ سے تنخواہ اور اجرت ملنی چاہئے لیکن کم سے کم اجرت یا تنخواہ اتنی بھی ہونی چاہئے کہ ایک شخص کو دو وقت کی روٹی کیلئے ہاتھ پھیلانا یا چوری نہ کرنا پڑے۔مزدوروں کو مستقل طور یونہی استحصال کی بھٹی میں نہیںجھلسایا جاسکتا ہے بلکہ ان کی دادرسی لازمی ہے اور فوری طور ان کی باوقار زندگی کا بندوبست کیاجانا چاہئے تاکہ انہیں بھی لگے کہ و ہ ایک استحصالی نظام کا نہیںبلکہ ایک جمہوری اور فلاحی نظام کا حصہ ہے اور ان کے کام کا وقار بھی مجروح نہیں ہورہا ہے تاہم اجرتوں میں نظر ثانی کے نام پر جو کچھ کیاگیا ہے ،وہ فلاحی ریاست کے اصولوں سے مماثلت نہیں رکھتا ہے اور نظر ثانی کا یہ نوٹیفکیشن ایک طرح سے زخموںپر نمک پاشی ہی قرار دیاجاسکتا ہے تاہم اگر مثبت سوچ اپنالیں تو اس کو ایک اچھی شروعات سے تعبیر کرکے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جس طرح اب کامگاروںکیلئے انشورنس کور کا بھی بندو بست کیاگیا ہے تو اسی طرح اجرتوں کا مسئلہ بھی حل کیاجائے گا اور ان مزدوروں کو باعزت زندگی گزارنے کا مکمل موقعہ فراہم کیاجائے گا۔