پرویز احمد
سرینگر //صدر ہسپتال سرینگر میں قائم ڈی ایڈکیشن سینٹرسے علاج و معالجہ کرانے کے بعد باہر آنے والے کئی مریضوں میں سے ایک 24سالہ لڑکی کوثر(نام تبدیل) بھی شامل ہیں۔ کوثر کاچہرہ مرجایا ہوا ہے اور اس کی آنکھیںنم اور چہرا اُداس نظر آرہا ہے ۔ کوثر ڈی ایڈیکشن سینٹر سے آنکھیں نیچے کرکے باہر آئی۔ بہت اصرار کے بعد کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کوثر نے بتایا کہ وہ جنوبی کشمیر سے تعلق رکھتی ہے۔ کوثر کا کہناہے ’’میں اپنے گائوں سے نظر آنے والی پہاڑیوں اور نیلے آسمان کو چھونا چاہتی تھی‘۔ کوثر کا بچپن کا خواب پائلٹ بننا تھا لیکن سلیکشن نہ ہونے کی وجہ سے کوثر الگ رہنے لگی اور وہ سگریٹ نوشی اور منشیات کی عادی بن گئی۔ کوثر نے مزید بتایا ’’یہ سگریٹ نوشی کی لت کیسے منشیاب کی لت میں کب بدل گئی کچھ سمجھ نہیں آیا‘۔کوثر کا کہنا ہے کہ جب تک اسے کچھ سمجھ میں آتا تب تک سب لٹ چکا تھا۔ کوثر کہتی ہے کہ اب وہ خود کو منشیات لینے کی بری عادت سے آزاد کرنا چاہتی ہے‘۔
جہاں ایک طرف کوثر اپنی زندگی اور بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تو دوسری جانب کوثر جیسی سینکڑوں لڑکیاں نشہ آور ادویات کی لت کی عادی ہورہی ہیں۔ کچھ اسی طرح کی کہانی شاہد(نام تبدیل) نامی ایک لڑکے کابھی ہے۔ شاہد تعلیم میں اچھا کررہاتھالیکن والدین اور امتحانات میں اچھے نمبرات آنے کا دبائو وہ برداشت نہیں کر پایا اوراس دبائو سے بچنے کیلئے دوستوں کے ساتھ جاکر پہلے سگریٹ نوشی اور پھر منشیات کا عادی بن گیا ۔ اس عادت سے چھٹکارا پانے کیلئے وہ اب ڈاکٹروں کی مدد لے رہا ہے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے شعبہ نفسیات میں سال 2022میں روزانہ 150مریض آتے تھے اور ان میں سے صرف ایک یا دو کیس ہی نئے ہوتے تھے لیکن 2025 تک یہ تعداد 400تک پہنچ گئی ہے اور اب روزانہ 4نئے کیسوں کااندراج ہورہا ہے۔کشمیر صوبے میں دو بڑے ڈی ایڈکیشن سینٹروں کی دیکھ ریکھ کرنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر یاسر احمد راتھر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ نشہ کرنے والے افراد کی تعداد کا پتہ لگانے کیلئے کوئی تازہ تحقیق نہیں کی گئی ہے لیکن نشہ کرنے والوں پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو نشہ کرنے والے افرادمیں سے 72فیصد ہیپٹائٹس سی کے شکار ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیماری جگر کو ناکارہ بنا دیتی ہے اور اس کو Silent killerبھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر یاسر نے بتایا کہ ہیروئن کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں پچھلے کچھ عرصے سے کمی آئی ہے کیونکہ اب ہیرون جلدی دستیاب نہیں ہوتی ہے البتہ نشہ کرنے والوں نے دوسری ادویات کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ڈاکٹر یاسر کہتے ہیں کہ نشہ کرنے والے اب Pregabalin اور دوسری ادویات کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر یاسر نے بتایا کہ Pregabalinنسوں کو آرام دلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور نشے کے عادی لوگ اب اس کا بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر یاسر نے بتایا’’ ابھی ہم سال 2022کی تحقیق کے مطابق جموں و کشمیر میں نشہ کرنے والے لوگوں کی شرح 3فیصد لیکر چل رہے ہیں جن کی عمر 15سے 60سال کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ نشہ کرنے والے ہر ماہ 88ہزار روپے خرچ کرتا ہے جبکہ33ہزار سرینج روزانہ ہیرون کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ منشیات سے جڑے جرائم کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ کے دفتر کے مطابق جموں و کشمیر میں 60ہزار سے زائد افراد نشہ کی لت میں مبتلا ہے اور اس میں گذشتہ چند سال میں 1500فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ مارچ 2023میں مرکزی وزارت برائے سماجی انصاب نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر میں 10لاکھ سے زائد افراد نشے کی لت میں مبتلا ہے اور اس میں ہر گزرتے دن اضافہ ہورہا ہے۔ وزارت کے مطابق جموں و کشمیر میں نشہ کرنے والوں میں 50فیصد مختلف ادویات اور نشہ آور چیزوں کا استعمال کررہے ہیں۔